بشری رحمٰن ایک عہد تمہارے ساتھ رخصت ہوا


کیسے من موہنے سے ہنستے مسکراتے لوگوں سے ہماری ادبی دنیا خالی ہوتی جا رہی ہے۔ ممتاز احمد شیخ کے لیے ابھی تو ہونٹوں پر یہ لفظ نوحہ خواں ہی تھے کہ شیخ صاحب آپ کے ابھی جانے کے دن تو نہیں ہیں۔ ”لوح“ کو جس جذبے اور شوق سے آپ نے اٹھایا تھا اسے آپ کی ضرورت ہے۔ مگر موت کے سامنے سوال کرنے کی کس کی جرات ہے؟

لتا جی اگر بلبل ہند تھیں تو ہماری بشری رحمٰن بھی بلبل پنجاب تھیں۔ دونوں آگے پیچھے چلی گئیں۔ ہم پرانے لوگ ڈائریوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسے کھولنا ہماری مجبوری ہے اور اس کے صفحات سے غائب ہوتے ناموں اور رابطہ نمبروں کو دیکھتے ہوئے رونا بھی ہماری مجبوری۔ کتنی تیزی سے ہم اپنے ادبی پیاروں سے محروم ہو رہے ہیں۔

سچی بات ہے یہ تو جان ہی نہ پائی تھی کہ وہ مجھ سے سال بھر چھوٹی ہے۔ کبھی اگر سوچا بھی تو یہی خیال آیا کہ نہیں پانچ چھ سال تو بڑی ہوں گی ہی۔ پر وہ تو ان لوگوں میں سے تھی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ ماں کے پیٹ سے ہی قلم کے ساتھ دنیا میں آئی تھی۔

پہلی شناسائی بشری رحمٰن سے نہیں ہوئی تھی۔ بشری رشید سے تھی۔ کسی کے ہاں مہمان گئی تھی۔ بڑے باتوں میں لگ گئے تو یونہی کمروں میں گھومتے ہوئے ایک رسالہ ہاتھ لگ گیا۔ نام بھی یاد نہیں۔ بس افسانہ تھا اور لکھنے والی بشری رشید تھی۔ پھر افسانہ و فسانہ سب بھول گئی۔ رسالے کا نام بھی۔ مگر بشری رشید ذہنی دیواروں سے چمٹ گئی تھی۔ اس وقت میری عمر یہی کوئی سترہ اٹھارہ سال تو ہوگی ہی۔ مگر لکھنے کا تو کوئی شعور ہی نہ تھا اور خوابوں میں بھی کہیں یہ سوچ نہ تھی کہ میں کچھ لکھ بھی سکتی ہوں۔ تو وہ کیسی خداداد صلاحیتوں کی مالک تھی کہ بارہ سال کی عمر سے لکھنے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ آخری وقت تک چلا۔

یہ ستر کی اختتامی دہائی کے سال تھے۔ دنیائے ادب و صحافت میں اردو ڈائجسٹ کے بعد کراچی کے خواتین ڈائجسٹوں نے ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ خواتین ڈائجسٹ، شعاع، کرن، آنچل، پاکیزہ اور اسی نوع کے اور پرچے مارکیٹ میں آ گئے تھے۔ جنہوں نے نوجوان نسل کو اردو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ چاٹ لگائی۔ ایسے میں کوئی پرچہ بشری رحمٰن کے سلسلہ وار ناولوں و افسانوں اور کہانیوں سے خالی نہ ہوتا۔ شہرت کا ہما ان کے سر پر بیٹھ گیا تھا۔

سرحد پار کے اخبارات اور رسائل نے بھی ان کے ناول ”لازوال“ ، ”لگن“ ، ”پیاسی“ ، ”عشق عشق“ وغیرہ کو گورمکھی میں ترجمہ کر کے اپنے اخبارات اور رسائل میں چھاپنا شروع کر دیا تھا۔ بہت تھوڑے وقت میں وہ ان رسائل کی ایک مجبوری بن گئیں۔ ”پیاسی“ اور ”لازوال“ کو ٹی وی نے ڈرامائی تشکیل دی تو نہ صرف ان کی پذیرائی پاکستانی ناظرین میں ہوئی بلکہ سرحد پار بھی بہت مشہور ہوئے۔ اس ضمن میں چند چشم دید واقعات کی تو میں خود گواہ ہوں کہ پرویز الہٰی دور میں سرکاری وفد کے ساتھ انڈیا جانے کا اتفاق ہوا تو پٹیالہ، چندی گڑھ، امرتسر اور دہلی میں عوامی پذیرائی کے جو منظر ان آنکھوں نے دیکھے وہ بشری رحمٰن کی ہر دلعزیزی کے گواہ تھے۔ خواتین اور عورتوں کے جھمگٹے انھیں گھیرے میں لیے رکھتے۔

نثر میں اپنا سکہ جمانے کے بعد ادب کی تین اور اصناف میں انہوں نے خاصا کام کیا۔ یہ شاعری، کالم نگاری اور سفر نامہ نگاری کے تھے۔ ”کس موڑ پر ملے ہو“ ان کے شاعری کے مجموعے کو میں کسی تنقیدی حوالے سے نہیں دیکھتی۔ یہ نسوانی احساسات و جذبات میں گندھا ایک خوبصورت تحفہ تھا جو انہوں نے اپنے قارئین کو دیا۔

”چادر اور چاردیواری“ کالم نگاری کا سلسلہ نوائے وقت میں سالوں چلا۔ ملکی مسائل پر ان کے قلم نے کیسے کیسے معرکتہ آرا کالم تخلیق کیے کہ ان کے قارئین کے پاس ان کالموں کی کٹنگ کردہ فائلوں کو بھی مجھے دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔

لکھنا اس کی محبت تھی۔ اس کا عشق تھا۔ اس کا جنون تھا۔ اس کے بغیر وہ رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ سیاست میں اس نے جتنا وقت گزارا اسے ہمیشہ یہ شکوہ کرتے ہوئے سنا کہ سیاست نے مجھ سے میرا قلم چھین لیا ہے۔ میں اسے اس دل جمعی سے نہیں استعمال کر سکی جیسے مجھے کرنا چاہیے تھا۔ سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یادداشتوں کو اس نے بہت خوبصورت اور موہ لینے والے انداز میں تحریر کیا اور الحمرا جیسے ادبی پرچے نے اسے قسط وار چھاپ کر قارئین کی پیاس بجھائی۔

سیاست میں اپنا سکہ جمایا۔ ان کی فی البدیہہ تقریروں میں معنی خیز چست فقروں اور اشعار سے حالات کی ترجمانی کے انداز سبھوں کو بھاتے تھے۔ تالیاں پیٹی جاتیں، خوش بیانی کو سراہا جاتا۔ بشری رحمٰن نے زندگی بڑے بھرپور انداز میں گزاری۔ شہر میں ہونے والی کون سی ایسی تقریب تھی جس کے منتظمین یہ خواہش نہ کرتے کہ بشری رحمٰن ان کے پروگراموں کی یا صدارت کریں یا ان میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کریں۔ آفرین ہے ان پر کہ وہ بعض اوقات اپنی کسی اہم مجبوری کے باوجود بھی تقریب میں شمولیت کی حامی بھرتیں اور اپنے مداحوں کو کبھی مایوس نہ کرتیں۔ محفلوں کو لوٹنے کا فن جانتی تھیں۔ دماغ سے اور منہ سے جیسے پھول جھڑتے تھے جو محفل کو کشت زعفران بنا دیتے تھے۔

”اللہ میاں جی“ اس کی ایک ایسی تخلیق ہے جہاں وہ اپنے پروردگار سے عشق کی اس معراج پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے جو کہیں خاص الخاص نظر کرم سے ہی نصیب ہوتا ہے۔

بشری تم جس دنیا میں گئی ہو میں دیکھتی ہوں تمہارے استقبال کے لیے وہاں موجود سب نامور لوگوں نے ہاروں کے ساتھ تمہیں خوش آمدید کہا ہو گا۔ مسکراتے، ہنستے ہوئے بولے ہوں گے تو اب محفل جمے گی۔

خوش رہو جنت کی ہواؤں اور فضاوں سے لطف اٹھاؤ۔ ہم بھی بس آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments