ہدایتکار داؤد بٹ


ایور نیو فلم اسٹوڈیوز بجائے خود ایک طلسم کدہ ہے۔ آپ اس کے تاریخی فوارے کے پاس خاموشی سے کھڑے ہو جائیں تو بتدریج یادوں کے جھروکے کھلتے ہیں۔ ماضی قریب اور بعید سے فلمی کردار تخیل میں آ موجود ہوں گے! میری اس پراسرار طلسم کا اسیر ہونے کی خواہش کو نامور ہدایتکار داؤد بٹ صاحب نے ممکن بنایا۔ اس کا پس منظر 26 جولائی 2019 کے نگار ویکلی میں بانسری استاد سلامت حسین پر شائع ہونے والی میری تحریر بنی۔ مجھے لاہور سے فون آیا کہ میں فلم ڈائریکٹر داؤد بٹ بات کر رہا ہوں۔ پھر انہوں نے سلامت حسین، موسیقار اور فلمی گیتوں میں ستار نواز جاوید اللہ دتہ، وائلن نواز سعید احمد، گلوکار ایس بی جون، گلوکار شرافت علی پر لکھی گئی میری تحریروں پر پسندیدگی کا اظہار کیا اور لاہور میں ایور نیو فلم اسٹوڈیو میں ملاقات کرنے کی پیشکش کی۔ آئیے داؤد بٹ صاحب سے ملتے ہیں :

لیکن اس سے قبل لاہور میں جولائی 2019 کی ایک صبح میں چلنا ہو گا۔ میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے دفتر واقع ریگل سنیما میں گیا۔ کبھی یہ لاہور کے چند اچھے سنیما گھروں میں شامل تھا مگر ”اب کہاں ان کی وفا یاد وفا باقی ہے۔“ ۔ اب سنیما تو کب کا ختم ہو گیا لیکن اس کی عمارت قائم ہے جس کی دوسری منزل میں ایسوسی ایشن کا دفتر ہے۔ جہاں کبھی فلمی پوسٹروں اور بڑے ہورڈنگ میں فلم کی پبلسٹی پر لوگ کشاں کشاں اس سنیما میں آتے تھے وہاں وہ دن رات اب بے نظیر کریم چاٹ، سموسے اور دیگر مزے مزے کی چیزیں کھانے آتے ہیں۔

ہاں! البتہ اب بھی یہ ریگل سنیما چوک کے نام سے ہی مشہور ہے۔ بہرحال! دفتر میں المعراج فلمز کے حاجی محمد اسلم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ہماری گفتگو کا محور کیمرہ مین، ہدایتکار اور فلمساز اسلم ڈار صاحب کی شخصیت تھی۔ یہاں تمام افراد نے متفقہ مجھے کہا کہ میں شام کے وقت ایور نیو فلم اسٹوڈیوز میں فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کے دفتر میں ہدایتکار داؤد بٹ صاحب سے مل لوں۔ یہ ماشاء اللہ پاکستانی فلمی معلومات کا خزینہ ہیں۔ جتنا یہ جانتے ہیں کوئی اور نہیں۔ کم و بیش یہی بات معروف فلم ایڈیٹر زیڈ اے زلفی بھی کہہ چکے تھے۔ میری کچھ روز قبل داؤد بٹ صاحب سے بات بھی ہو گئی تھی لہٰذا فون پر بٹ صاحب سے رابطہ کر کے شام کو ملنے کا طے ہو گیا۔

ایور نیو فلم اسٹوڈیوز میں رائٹرز ایسوسی ایشن کے دفتر کے سامنے زلفی صاحب کے ساتھ کرسی ڈالے داؤد بٹ صاحب نظر آ گئے۔ بہت ہی پر جوش ملے۔ ان سے کچھ عرصے سے فون پر بات چیت ہوتی رہی لیکن آمنا سامنا پہلی دفعہ ہو رہا تھا۔ ابھی بمشکل بیٹھے ہی تھے کہ فلمساز اور ہدایتکار محمد طارق آ گئے۔ ان کی مشہور فلمیں : ”خاموش“ ( 1983 ) ، ”بگڑی نسلیں“ ) 1983 ) ، ”خان ویر“

( 1983 ) ، ”باؤ جھلا“ ( 1985 ) ، ”معصوم گواہ“ ( 1988 ) ، ”ماہی وے“ ( 2016 ) ہیں۔ سلام دعا کے بعد ہماری گفتگو ڈار صاحب کے متعلق ہونے لگی :

” ہماری فلمی صنعت کے برے حال میں پہنچنے کی ایک بڑی وجہ یہ بدقسمتی بھی ہے کہ اسلم ڈار قبیل کے لوگ ایک دم چلے گئے۔ اب فلمی دنیا کے لیڈروں میں قائدانہ صلاحیتیں رہیں نہ ہی دور اندیشی۔ پاکستانی فلمی صنعت ایک بڑا جہاز تھا جس کو اسلم ڈار کے بعد قابل کپتان نہ مل سکا اور وہ ڈوب گیا“ ۔ ہدایتکار محمد طارق نے کہا۔

گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے داؤد بٹ صاحب نے بتایا : ”ڈائریکٹر ایسوسی ایشن میں شریف نیر، حسن طارق، عطا اللہ شاہ بخاری اور مسعود پرویز جیسی شخصیات بھی بیٹھتی رہی ہیں“ ۔ ہماری بات چیت شروع ہی ہوئی تھی کہ شیرا فلمز کے فلمساز حاجی عبد الرشید صاحب بھی آ گئے۔ ان کی معروف ترین فلم ”منڈا بگڑا جائے“ ( 1995 ) ہے۔ پاکستان فلم ڈیٹا بیس کے مطابق یہ وہ واحد اردو فلم ہے جس نے کراچی اور لاہور دونوں شہروں کے سنیما گھروں میں ڈائمنڈ جوبلی ( 100 ہفتے ) کی۔

اس وقت بھی اردو فلمیں بنائے جانے کا رجحان ختم ہو چکا تھا۔ اس فلم کی زبردست کامیابی نے ملک میں اردو فلموں کو دوبارہ زندگی دی۔ حاجی صاحب نے کہا : ”صدر ضیاء الحق نے بھارتی فلم“ نورجہاں ”کی پاکستان میں نمائش کی اجازت دی۔ پھر مشرف دور میں کھلے عام قانون سے مذاق کرتے ہوئے بھارتی فلم ڈسٹری بیوٹر پاکستانی سنیما اسکرین پر چھا گئے۔ بھارتی فلمیں ایک رات ہی ہمارے سنیما پر قابض نہیں ہو گئیں۔ یہ پہلے ہمارے گھروں میں وی سی آر کیسٹ کی صورت داخل کرائی گئیں“ ۔

” ایسا لگتا ہے کہ کچھ سالوں سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت میڈیا پر پاکستانی فلمی صنعت کا بہت مذاق اڑایا جا رہا ہے“ ۔ میں نے سوال کیا۔

اس پر داؤد بٹ صاحب نے کہا : ”صرف پاکستانی فلموں کا ہی نہیں بلکہ ایک ٹی وی چینل پر اداکار سہیل احمد نے فلم ڈائریکٹروں کا مذاق بھی اڑایا ہے۔ طلعت حسین، محمود اسلم، فیصل قریشی، نعمان اعجاز، افتخار ٹھاکر وغیرہ فلموں میں اداکاری کے لئے آئے تھے۔ کچھ کامیاب ہوئے اور زیادہ نا کام رہے۔ جو ناکام ہوئے یہ مذاق وہی لوگ اڑاتے ہیں“ ۔

” اب واقعی مشکل وقت ہے۔ تفریح کے لئے عوام کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے“ ۔ داؤد بٹ صاحب نے کہا۔ اسلم ڈار صاحب کے بارے میں انہوں نے بتایا: ”وہ جعفر شاہ بخاری جیسے استاد سے بہت جلد بہت کچھ سیکھ گئے اور پھر کیمرا مین کی حیثیت سے بہت سی فلمیں کیں۔ یہ بہت اچھے تکنیک کار تھے اور فلم ایڈیٹنگ جانتے تھے۔ ڈائریکٹر بننے ہی کے لئے آئے تھے“ ۔

ڈار صاحب سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بٹ صاحب نے بتایا: ”اب سے 15 سال پہلے میرا ان سے دوستانہ پکا ہوا۔ پھر یہ نوبت آئی کہ میں خالی اسلم ڈار کہنا بھی گناہ سمجھنے لگا۔ ہمیشہ ان کو اسلم ڈار صاحب کہتا ہوں۔ ان جیسا شفیق، ملنسار، سمجھ دار آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ جب ایسوسی ایشن کے اجلاس میں کوئی بھول چوک ہو جاتی یا کسی کو سخت سست کہہ دیتے تو فراغ دلی سے معافی بھی مانگ لیتے تھے۔ یہ بہت بڑا وصف ہے“ ۔

ہدایتکار داؤد بٹ صاحب نے ماضی کے دریچے کو کھولتے ہوئے کہا: ”اسلم ڈار صاحب کی بطور ہدایتکار پہلی فلم“ دارا ” ( 1968 ) کی بھی دل چسپ کہانی ہے۔ فلمساز میاں مشتاق نے اسلم ڈار سے پوچھا کہ وہ اس فلم کا کتنا معاوضہ لیں گے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ کوئی معاوضہ نہیں لیں گے البتہ منافع کا 25 فی صد میرا ہو گا۔ اور اگر نقصان ہوا تو کوئی پیسہ نہیں لوں گا۔ فلمساز نے بھی حساب لگایا کہ اگر یہ پچیس فی صد منافع کا حق دار ہو گیا تو پھر فلم بھی اچھی اور سستی بنے گی۔ اور ہوا بھی یہی۔ یہ فلم ہٹ ہوئی“ ۔

ایور نیو فلم اسٹوڈیوز میں فلم ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کے دفتر کا بھی ذکر آیا۔ داؤد بٹ صاحب سے میں نے سوال کیا : ”ڈار صاحب کے انتقال کے بعد اچانک آپ اور دیگر ڈائریکٹر، اپنے دفتر کو چھوڑ کر فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کے دفتر میں کیوں بیٹھنے لگے؟ آپ کی اپنی ایسوسی ایشن کا دفتر کیا ہوا؟“ ۔

” اسلم ڈار صاحب کے انتقال کے بعد اسٹو ڈیو انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ہماری ایسوسی ایشن کو اب اس کمرے کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا وہ جگہ اب انتظامیہ اپنے تصرف میں لائے گی۔ اور اس طرح ہم لوگ در بدر ہو کر فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کے دفتر میں بیٹھنے لگے“ ۔ داؤد بٹ صاحب نے کہا۔

رات کا ایک بج چکا تھا لیکن ہم سب نہایت محویت سے داؤد بٹ صاحب کی باتیں سن رہے تھے۔ شاید یہ نشست کچھ دیر مزید جاری رہتی اگر بٹ صاحب کی بیٹی کا فون نہ آ جاتا۔ یوں ہماری اس روز کی محفل برخواست ہوئی۔ چلتے چلتے داؤد بٹ صاحب، اداکار انور خان اور فلم ایڈیٹر قیصر ضمیر نے مجھ کو بتایا کہ اسلم ڈار اپنے انتقال سے دو روز قبل بھی ایور نیو اسٹوڈیو میں ایسوسی ایشن کے دفتر میں آئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ پرسوں پھر آؤں گا لیکن جس روز آنے کا کہا اسی روز وہ ’چلے‘ گئے۔

داؤد بٹ صاحب سے میری ملاقاتیں :

جولائی 2019 کی میری داؤد بٹ صاحب کی اس پہلی ملاقات میں مجھے یوں لگا جیسے میری ان سے عرصے کی شناسائی ہے۔ گاہے بگاہے ان سے فون پر رابطہ ہوتا۔ مہینے دو مہینے بعد جب بھی میں لاہور جاتا ان سے کم از کم ایک ملاقات ایور نیو میں ضرور ہوتی۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں انہوں نے میری نامور ہدایتکار حسن عسکری بھائی اور الطاف حسین بھائی سے ملاقات کروائی۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ خاص طور پر میرے لئے گھنٹے دو گھنٹے کے لئے ایور نیو آتے۔

پھر تو یوں بھی ہوا کہ میں ایور نیو کے صدر دروازے سے داخل ہو رہا ہوتا تو مجھے وہیں سے سیکیورٹی والے بتا دیتے کہ داؤد بٹ صاحب موجود نہیں۔ میں کہتا کوئی بات نہیں میں زلفی صاحب کے دفتر میں انتظار کر لیتا ہوں۔ کبھی زلفی صاحب خود اسٹوڈیو میں ہوتے تو میں رائٹر ایسوسی ایشن کے دفتر کے سامنے اس مخصوص کونے کی طرف چل دیتا جہاں داؤد بٹ صاحب کی نشست مخصوص تھی۔ وہاں بھی عملہ مجھے دیکھ کر کمرے کو کھول اور کرسیاں برآمدے میں رکھ دیتا۔

پھر کچھ دیر بعد بٹ صاحب آ جاتے اور ہماری محفل سجتی۔ معمولی موسمی سرد و گرم کے علاوہ انہوں نے کبھی اپنی کسی بیماری کا ذکر نہیں کیا۔ ہاں البتہ وہ سگریٹ بہت زیادہ پیتے تھے۔ میں نے جب بھی ان سے کہا کہ میں آپ کا تفصیلی انٹرویو کرنا چاہتا ہوں ہمیشہ کنی کترا گئے۔ یوں میں اور نگار ویکلی ان کے انٹرویو سے محروم رہے۔

داؤد بٹ صاحب سے گفتگو کے موضوعات:

داؤد بٹ صاحب عام طور پر نپی تلی بات کرتے۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہے کہ اتنی ہی بات کرتے تھے جتنی ضرورت ہو۔ بہت اچھے سامع تھے۔ میں نے جولائی 2019 سے 2021 کی گرمیوں تک اپنی ملاقاتوں میں کبھی ان کو غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔ مزے کی بات یہ کہ جب موڈ میں ہوتے اور ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور نہ ہوتا تو ایور نیو فلم اسٹوڈیو کی فلور شوٹنگ، آڈیو ریکارڈنگ وغیرہ کی وہ وہ داستانیں سناتے کہ میرے تو ہوش ہی اڑ جاتے۔ ظاہر ہے کہ ان طلسماتی کرداروں میں سے بڑی تعداد اب ملک عدم جا چکی! داؤد بٹ صاحب کی یہ ہوشربا فلمی داستانیں اب میری امانت ہیں۔ انہیں منظر عام پر نہیں آنا چاہیے۔

داؤد بٹ صاحب کی بیماری:

گئے سال کے شروع میں غالباً میری داؤد بٹ صاحب سے ایک دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ لیکن اس کے بعد ان سے فون پر رابطہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ ایور نیو نہیں جا رہے۔ جب میں نے زلفی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ خاصے بیمار ہیں۔ پھر برخوردار ساجد یزدانی سے ایور نیو میں ایک فلم کی اوپننگ اور مال روڈ پر ایک ملاقات میں داؤد بٹ صاحب کا ذکر آیا۔ انہوں نے بھی یہ ہی بات بتائی۔ اوائل جنوری میں میرا لاہور جانا ہوا۔

پوری نیت تھی کہ داؤد بٹ صاحب کے ہاں جاؤں لیکن ان کے گھر سے بتایا گیا کہ وہ ٹھیک نہیں اور ڈاکٹروں نے ملاقاتوں سے اجتناب کا کہا ہے۔ اور پھر۔ 16 جنوری کو ان کے انتقال کی خبر آ گئی۔ یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ان کے چلے جانے سے پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک سچا خیر خواہ چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).