اقتدار کی منتقلی اور نیا مرد آہن


میں اب گھر کیسے پہنچوں گا۔ ؟
کوئی گاڑی نہیں بھیج سکتے۔ ؟
کیا آپ نہیں آسکتے۔ ؟

ہمارے آگے امیگریشن کے لئے قطار میں کھڑا ایک فرانسیسی پریشانی کے عالم میں فون پر کسی سے گفتگو کر رہا تھا۔ اس وقت اندازہ نہیں ہوا کہ باہر کیا منظر ہے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہی سوالات ہماری زبان پر بھی تھے۔

رات دس بجے برکینا فاسو کے ائر پورٹ پر اترے تو بس میں بیٹھ کر لاؤنج میں آنے کے کچھ دیر بعد احساس ہو گیا کہ کچھ تو گڑ بڑ ضرور ہے۔ کیونکہ ہمیں ریسیو کرنے کے لئے آنے والوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا سوچا شاید لیٹ ہو گئے ہوں گے۔ ائر پورٹ ہمارے لئے اجنبی نہیں تھا۔ سہولت کے ساتھ امیگریشن کی تمام کارروائی مکمل ہو گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں سامان بھی موصول ہو گیا۔ عقدہ یہ کھلا کہ دو گھنٹے قبل ملک میں کرفیو نافذ ہو چکا ہے۔ ائر پورٹ سے باہر جانے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ اب کچھ دیر پہلے فرانسیسی کی گفتگو سمجھ میں آئی کہ وہ کیوں اتنا پریشان تھا۔ اس کا رابطہ پہلے ہو گیا تھا اور ہم سے پہلے یہ خبر اس تک پہنچ گئی تھی۔

ہم نے لاہور سے ٹرکش ائر لائن کے ذریعہ استنبول سے ہوتے ہوئے برکینا فاسو پہنچنا تھا۔ عام حالات میں یہ سفر صرف ایک دن کا ہے کہ صبح چار پانچ بجے لاہور سے چلیں تو استنبول میں فلائٹ تبدیل کر کے رات نو دس بجے تک واگادوگو برکینا فاسو پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اس بار جنوری کے تیسرے ہفتے میں ہونے والا سفر گزشتہ بیس سالوں کے اسفار سے بھی بڑا ایڈوینچر بن جائے گا اس کا اندازہ نہیں تھا۔ دھند کی وجہ سے لاہور کی طرف جانے والی موٹر ویز کی بندش کی خبر عام تھی۔

باوجود اس کے کہ ہماری فلائٹ اگلے دن صبح تھی ہمارے مہربان ہمیں ایک دن قبل ہی لاہور لے جانے پر تلے تھے۔ تڑپتی سسکتی اماں کو اور بظاہر بہادری کا مظاہرہ کرتے بانوے سالہ ابا سے الوداع ہوتے ان کی آنکھوں میں دیکھنے کا حوصلہ ہم میں نہیں تھا۔ جانا تو مقدر ٹھرا اس لئے آنکھ ملائے بغیر الوداعی سلام کہ کر چل پڑے۔

لاہور پہنچ کر اطلاع مل گئی کہ جہاز بارہ گھنٹے لیٹ ہے۔ اب فلائٹ صبح سات کے بجائے شام کو سات بجے ہوگی۔ بعد ازاں اس میں دو گھنٹے کی مزید تاخیر بھی ہوئی۔ رات تین بجے کے قریب استنبول پہنچے۔ ہماری اگلی فلائٹ نکل چکی تھی اور اب سترہ گھنٹے کا انتظار پہاڑ کی طرح سامنے تھا۔ ائر لائن نے قیام کے لئے ہوٹل دینے کی نوید تو سنا دی لیکن ساتھ ہی ترکی میں داخلے کا ویزہ ہونے کی شرط بھی لگا دی۔ چنانچہ ایک موہوم سی امید لئے ویزہ کاؤنٹر پر جا کھڑے ہوئے۔

کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے بابو سے بات کرنے کی ہمت اس لئے نہیں ہوئی کہ اس کڑمے نے ان ممالک کی فہرست اپنی کھڑکی کے باہر ہی چسپاں کر رکھی تھی جو On Arrival ویزہ اپلائی کرنے کے مجاز تھے۔ کئی بار حسرت سے اس فہرست کو پڑھنے کے بعد بھی پیارے وطن کا نام اس میں کہیں نہیں ملا تو چپ چاپ کھڑکی سے ہٹ آئے۔ اس کے منہ سے انکار سننے اور وہاں کھڑے قسم ہا قسم کے دیگر مسافروں کے سامنے وطن عزیز کی سبکی کروانے کی ہمت ہم میں نہیں تھی۔ ہم جتنا مرضی برادر اسلامی ملک کا نعرہ لگائیں اور ترکی ڈرامے دیکھ دیکھ کر اپنے آپ میں ”جذبہ جہاد“ پیدا کر لیں جتنی مرضی ریٹنگ ارطغرل کو عطا کر دیں ہمیں ویزہ دینے سے پھر بھی وہ انکاری ہیں۔

شام کو روانہ ہو کر رات دس بجے برکینا فاسو پہنچے تو معلوم ہوا ملکی حالات خراب ہو چکے ہیں۔ دو دن سے حکومت کے خلاف مظاہرے جاری تھے اسی لئے رات آٹھ بجے سے ملک بھر میں کرفیو لگ چکا تھا۔ ائر پورٹ سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ ہمارے میزبان پہنچ سکتے تھے نہ کوئی ٹیکسی موجود تھی۔ چارو ناچار بچوں کو ساز و سامان کے ساتھ ایک کونے میں بٹھا کر خود کوئی وسیلہ تلاش کرنے میں لگ گئے۔ اگر یہ رات اس حالت میں گزارنا پڑ گئی تو بچوں کا بیمار پڑنا یقینی نظر آ رہا تھا کہ تین دن سے تکلیف دہ سفر جاری تھا۔

باہر جھانکا تو کسی مسافر کی تلاش میں ایک ہوٹل کا نمائندہ پلے کارڈ اٹھائے کھڑا تھا۔ اس مسافر کی بکنگ ہوٹل میں تھی جبکہ ہمیں تو اپنے گھر جانا تھا۔ ہوٹل کے نمائندے کی سنائی ہوئی خبر امید افزاں ثابت ہوئی کہ اس کا ہوٹل ائرپورٹ سے چند منٹ کی مسافت پر ہے اور خوش قسمتی سے اس کے پاس بڑی وین بھی موجود ہے جس میں ہمارا سامان بھی اس مسافر کے ساتھ سما سکتا تھا۔ چنانچہ کمرہ بک کر لینے کے بعد ہم اس وین میں سوار ہو کر ہوٹل پہنچے۔ ائر پورٹ سے ہمارا گھر صرف بیس کلومیٹر تھا لیکن گھر تک نہیں جا سکتے تھے۔

اگلے روز صبح چھ بجے خبر ملی کہ ملک میں حالات خراب ہیں اور کوئی پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ٹی وی پر نظر پڑی تو ٹکر چل رہی تھی کہ فوج صدر مملکت کو گرفتار کر کے اقتدار پر براجمان ہو گئی ہے۔ فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل پاؤل ہنری دامیبا کی قیادت میں فوج نے صدر مملکت سے استعفی ٰ لیا۔

بہرحال دن بارہ بجے تک حالات کچھ معمول پر آئے تو ہم چار دن کے سفر کے بعد گھر پہنچ پائے اسی روز برکینا فاسو کی زمینی اور فضائی حدود بند کر دیں گئیں۔ اس طرح گزشتہ شام آنے والی ہماری فلائٹ آخری تھی۔ ادھر برف کے طوفان نے استنبول کو گھیرے میں لے لیا تو ائر پورٹ بند کرنا پڑا۔ فلائٹس کینسل ہو گئیں۔ چند دن بعد لیفٹیننٹ کرنل پاؤل ہنری دامیبا نے ”میرے عزیز ہم وطنو!“ والی کی تقریر کی۔ عوام نے فوج کو خوش آمدید کہا۔ نئے سربراہ مملکت لیفٹیننٹ کرنل پاؤل ہنری دامیبا نے برکینا فاسو کے نئے مرد آہن کا خطاب پایا۔

ائر پورٹ سے گھر کی طرف آتے راستے میں وہ منظر بھی دیکھنے کو ملا جس میں سابق صدر مملکت کے قافلے کی گاڑی جس پر فائرنگ ہوئی تھی اور اس کی تصویر حالیہ مارشل لاء کی علامت بن کر وائرل ہوئی کو اٹھایا جا رہا تھا۔ پرجوش دیوانے نعرہ زن تھے۔ گاڑی اور فوج کے ساتھ سیلفیاں لینے اور ان لمحات کو ریکارڈ کرنے کے لئے کئی فون فضا میں بلند تھے۔ سربراہ مملکت لیفٹیننٹ کرنل پاؤل ہنری دامیبا، نیشنل ٹی وی پر نئے مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کی پہلی تقریر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments