غزوہ ہند کی للکار – مسکان سے پاکستان تک



دو دن سے سوشل میڈیا پہ گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ رن بھی ایک رن (عورت) کی وجہ سے ہے۔ انڈیا کی ریاست کرناٹک کی ایک طالبہ مسکان جو یونیورسٹی اپنی سکوٹی پہ پہنچتی ہیں۔ انہیں عبایہ میں دیکھ کر شیو سینا اور چند سٹوڈنٹس ان پہ تنقید کرتے ہیں۔ تنقید کی وجہ ظاہر ہے کہ حجاب تھی۔

ایک طرف جے شری رام کے نعرے لگے تو دوجی جانب لڑکی نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر دیا۔ لڑکی کی بہادری میں کوئی دو رائے نہیں۔ جبر کے خلاف مزاحمت کا نہ تو کوئی چہرہ ہوتا ہے نہ لباس۔ جبر کے خلاف اٹھنے والی آواز اپنی گونج سے پہچانی جاتی ہے۔

آپ وڈیو میں پورا ماحول دیکھ سکتے ہیں۔ لڑکی مسلمان ہے، مدمقابل ہندو ہیں۔ لیکن نعرے بازی سے آگے بڑھ کے کسی نے لڑکی پہ حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انتظامیہ نے لڑکی کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ اور معاملہ نمٹ گیا۔

مسکان کے بعد میں ٹی وی پہ آنے والے فوٹیجز بھی یقیناً سب نے دیکھے ہوں گے ۔ اور اس کا موقف بھی سن لیا ہو گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مسکان نے خود کو پراؤڈ انڈین کہا اور پاکستان کو اس معاملے سے دور رہنے کا کہا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستانیوں نے اس بات کو دل پہ نہیں لیا ہو گا۔ ورنہ راتوں رات بارڈر پار کر جبراً ایسا بیان دلوانے والے ٹی وی مالکان سے دو دو ہاتھ کر آتے۔ (اگر سلیمانی کمبل ہوتا تو یقیناً کر آتے ) ۔

اب آتے ہیں وطن عزیز میں۔ ہمارے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ وہ حجاب کے خلاف ہیں اور ہمارے والوں کی نیندیں جینز نے اڑا رکھی ہیں۔ خدا جانے ان کے جینز کب بدلیں گے؟

ہمارے یہاں کالجوں یونیورسٹیوں میں جینز پہ پابندی لگا دی گئی۔ ایک بھی جگہ سے مجھے ایسی کوئی خبر سننے کو نہ ملی کہ کسی پاکستانی مسکان نے بھی اس پہ احتجاج کیا ہو۔ چلیں ہم اس پہ روشنی ڈالتے ہیں۔

فرض کیجئیے کہ پنجاب یونیورسٹی میں ایسے ہی جمیعت کے کسی جتھے کے سامنے اگر کوئی نہتی لڑکی غیر مسلم تو چھوڑیں مسلمان ہی ہوتی، اور یوں آواز اٹھاتی تو کیا ہوتا۔

کسی غیر مسلم لڑکی کی اتنی جرات آپ کے وطن عزیز میں ہے کہ وہ ایسے ڈٹ کے آپ کی مذہبی شدت پسندی پہ بات کر سکے۔ اور ہماری انتظامیہ میں کیا اتنے گٹس ہیں کہ وہ ایسے غنڈوں کے آگے سے کسی کو بچا لے جاتا۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ تصور کر سکتا ہے کہ وہ ل ب ی ک ی و ں کے ہجوم کے آگے ڈٹ کے جینز کے حق میں نعرے لگا سکے۔ ہماری تو ہڈیاں بھی نہ ملیں گی۔

ہم جو کہ اقلیتوں کے سامنے شرمندہ پھر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ کبھی ان پہ توہین مذہب لگا دی جاتی ہے، کبھی انہیں زندہ بھٹیوں میں جلا دیا جاتا ہے، اور کبھی ان کی ٹین ایج بچیاں نکاح میں لے لی جاتی ہیں فورس کنورژن کے نتیجے میں۔ ہم ان کے سامنے نظریں نہیں اٹھا پاتے۔ قسم چکا لو بھلے۔

کیا آپ کے ملک میں کسی بھی اقلیتی فرد کو سرعام یہ پوچھنے کی جرات ہے کہ انڈیا کی مسکان کے لیے واہ واہ کرنے والو۔ تمہارے اپنے دیس کی رنکی کماریاں کیا ہوئیں؟ اگلے دن تو چھوڑ چند گھنٹوں میں ہی ان کو سبق سکھا دیے جائیں گے۔ سوال تو وہیں پڑے رہیں گے۔ بھلے جتنا بھی کن کیسلیاں مار لیں۔ (کن کیسلی مطلب کان لپیٹ کے پڑے رہنا یا عرف عام میں اگنور کرنا) ۔ مشعال والا واقعہ تو نہیں بھولے ہوں گے یونیورسٹی میں ہی ہوا۔ اور پریانتھا کمارا کی موت کو کچھ زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا۔

پیارے پاکستانیو! آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ غزوہ ہند کا آغاز نہیں ہوا کہ آپ اسے کفر و الحاد کے خلاف جنگ سمجھ کے سوشل میڈیا پہ مورچے سنبھال کے بیٹھ جائیں۔ مورچے تو سنبھالنا بنتے ہیں ویسے کیونکہ پیہے (پیسے ) جو ملتے ہیں۔ لیکن میرا پت یہ جنگیں انٹرنیٹ پہ نہیں جیتی جا سکتیں۔

آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا ”لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا“ ۔ صیاد اپنے دام میں یوں آیا کہ رائٹ ونگ کی پوری بریگیڈ نے مسکان کو اسلام کی بیٹی بنا دیا، اور اس کے عمل کو اسلام کی فتح قرار دے دیا گیا۔ میں تو ان لوگوں کی جذباتیت سے بہت لطف اندوز ہوتی ہوں۔

مسکان نے عبایہ پہن رکھا تھا جس کے ساتھ حجاب لیا جاتا ہے، چہرے پہ نقاب نہیں ہوتا۔ مسکان نے ماسک لگا رکھا تھا جس کی وجہ سے اوور آل اس کی پوری اپیرنس باقاعدہ حجاب و نقاب والی تھی۔

اس نے کئی بار اپنا ماسک ٹھیک کیا یعنی لڑکی کو اتنا اندازہ ضرور تھا کہ یہ تو جو بول رہے سو بول رہے، مجھے اپنے ماسک کی حفاظت کرنی ہے تا کہ کرونا سے بچ سکوں۔ یقیناً اس کی نظر میں شیو سینا وائرس سے زیادہ مہلک کرونا وائرس تھا۔ اور اسے اس سے بچنا تو تھا ہی۔

دوستوں نے نہ اس کا اعتماد سے سکوٹی چلانا دیکھا اور نہ ہی اس کا اعتماد دیکھا۔ انہیں بس ایک ہی بات کی خوشی تھی کہ بھئی کڑی نے اسلام کا نام روشن کر دیا۔ وجہ پوچھیں گے تو پانی میں مدھانی ہی نکلے گی۔

انڈیا کی اقلیت جو کہ مسلمان ہیں اگر ان کی اتنی فکر ہے تو پہلے اپنے ملک کے اندر انصاف پیدا کریں۔ اپنے ملک کی اقلیتوں کو کسی بھی نا انصافی پہ بولنے کی ہمت دیں۔ اور پھر اسے برداشت کرنے کی ہمت خود میں رکھیں۔

اپنے ملک کی عورتوں کی ٹانگوں پہ چڑھی جینز سے ان کے کردار مت ناپیں۔ اگر آپ کے نزدیک فریڈم آف چوائس میں مسکان کا عمل آتا ہے اور آپ اسے منوانے پہ بضد ہیں تو اسی فریڈم آف چوائس کے تحت ان خواتین کو بھی قبول کریں جو جینز پہنتی ہیں۔ کپڑوں کے ٹکڑوں سے غیرت کا معیار مت جوڑیں۔ لباس کسی بھی معاشرے کے کلچر کے حساب سے پہنا جاتا ہے۔ نہ کہ مذہب کی آڑ لے کر اسے مسلط کیا جائے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ حجاب کی عزت ہو تو پھر جینز کو بھی عزت دو۔ اگر میرا جسم میری مرضی کے مطابق مسکان نے جو بھی پہن رکھا تھا ہم اسے اس کی چوائس سمجھ کے اس کی عزت کرتے ہیں تو پھر آپ کو ماڈرن لباس پہننے والی خواتین کی بھی ویسے ہی عزت کرنی پڑے گی۔ ان کی بات سننے کے لیے بھی آپ کو خود میں جرات پیدا کرنی پڑے گی۔ ورنہ یہ منافقت چھوڑ دیں۔

مجھ پہ اور مجھ جیسی بولڈ خواتین پہ مارچ کا مہینہ بڑا گراں گزرتا ہے۔ آٹھ مارچ سے پہلے اور بعد ہماری رج کے ٹرولنگ ہوتی ہے۔ مسکان تمہارا شکریہ کہ اس بار ہماری شامت آٹھ فروری کو آ گئی۔ ہم بھی تب تک ہیبی چوئل ہو جائیں گے۔

بات پھر وہی ہے عورت شلوار پہنے، پینٹ پہنے سکرٹ پہنے یا ساڑھی۔ تانوں کیہہ (آپ کو کیا)۔ عورت بنا کسی جبر کے اگر عبایہ پہنے تے سانوں کیہ۔ دوسری طرف اگر وہ اپنی مرضی سے عبائے کو اتار پھینکے اور آپ اس کے دشمن بن جائیں تے سوہنیو! یہ تو کوئی سوہنی بات نہیں۔

شخصی آزادی کی راہ میں زمینی و آسمانی جبر نہیں چلتا۔ شخصی آزادی کا احترام واجب کر لیجئیے زندگی پرسکون ہو جائے گی۔

ویسے دو دن کی جنگ و جدل کے بعد عامر لیاقت کی شادی کی خبر ہوا کا جھونکا ہی ثابت ہوئی ہے۔

کنواروں کے لیے بہرحال یہ صدمے کی خبر ہے۔ انہیں نصیحت کروں گی کہ دو دن کو سوشل میڈیا بند کر دیں۔ ایسے ہی کنواروں کو آگ لگ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے بھاگ تو ایسی خبروں سے جاگتے رہیں گے۔  ویسے بھی آٹھ مارچ از کمنگ۔ بہت مزے آنے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments