کرناٹک کا ناٹک اور مسکان کا ایمان


کرناٹک میں ہونے والے واقعے کے بے شمار پہلو ہیں مگر سب سے افسوسناک بلکہ اندوہناک اور خوفناک پہلو یہ ہے کہ پاک و ہند کے مسلمانوں کی غالب اکثریت شدید قسم کے احساس کم تری کا شکار ہے۔ ہیرو شپ کے کسی پجاری نے تاسف بھرے لہجے میں کہا تھا کہ کہ ہم کتنے بد قسمت ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ہیرو نہیں۔ جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ دانشور نے جواب دیا تھا کہ کتنی بد قسمت ہے وہ قوم جسے ہیروز کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

ہم من حیث القوم قحط الرجال کے وبال کا شکار ہیں۔ زوال آمادہ قوم کے فخر بھی روبہ زوال ہوتے ہیں۔ ہمارا ہر دھندا نجات دہندہ کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی اجتماعی دانش کے بجائے کسی ایک ہیرو کے منتظر ہیں جو آ کر پلک جھپکنے میں ہمارے سارے مسائل حل کر لے گا۔ کسی میدان میں دلجمعی سے اور جم کر نام اور مقام بنانے کے بجائے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے عادی ہیں۔ ہر پتھر سے صنم تراش دیتے ہیں۔ اب بھی کسی امام مہدی، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور عیسٰی ابن مریم کی راہ تک رہے ہیں۔ پہلے فاتح افغانستان کے ذریعے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب دیکھتے تھے اب ماشا اللہ مسکان خان کے روپ میں ہمیں غزوۂ ہند کا فاتح کردار مل گیا ہے۔

پاک و ہند میں بسنے والے پچاس کروڑ مسلمانوں نے مسکان کے حجاب کے پردے میں اپنی سب ناکامیاں، نا اہلیاں، نا لائقیاں اور نا مرادیاں چھپانے کی مجرمانہ کوشش کی ہے۔ اپنی آنکھ کا شہتیر تو ہمیں نظر نہیں آتا دوسرے کی آنکھ کا تنکا فوراً دکھائی دیتا ہے۔ بھارت میں عورتوں کی آزادی کی صورت حال کو طعنے وہ ملک دے رہا ہے جو اس حوالے سے ایک سو چھپن ملکوں کی فہرست میں ایک سو ترپن ویں نمبر پر ہے۔ انڈیا میں عورتوں کے حقوق کا رونا وہ رو رہے ہیں جن کے ہاتھوں عورتیں قبر میں بھی محفوظ نہیں۔

انڈیا پر زبان طعن وہ دراز کر رہے ہیں جو شمع بی بی اور شہزاد مسیح کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ جو آسیہ مسیح پر عرصۂ حیات تنگ کر دیتے ہیں، مشال خان کو اس طرح درندگی کا نشانہ بناتے ہیں کہ اس کے دریدہ جسم کی کوئی ہڈی سلامت نہیں بچتی۔ جو خونخوار کوہستان میں چار لڑکیوں کو صرف اس لیے زندہ دفن کر دیتے ہیں کہ انہوں نے لڑکوں کے رقص کرنے پر تالیاں کیوں بجائی تھیں۔ جو دختر پاکستان ملالہ کے سر میں کئی گولیاں اتار دیتے ہیں۔

جو مشرق کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے خون ناحق سے ملک کی سر زمین کو لالہ رنگ بنا دیتے ہیں۔ جو پسند کی شادی کرنے پر بہنوں، بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں۔ کس کس درندگی، حیوانیت اور بہیمیت کا ذکر کروں! ہم غیرت مندوں اور ایمان داروں نے اسلام، عشق نبیﷺ، توہین مذہب اور غیرت کے نام پر وحشت کا وہ بازار گرم کیا ہے کہ ایک عالم انگشت بدنداں و لرزہ بر اندام ہے۔

مسکان کو حجاب پہننے پر ہندو طلبا نے ہراساں ضرور کیا، اس کا راستہ روکا مگر انتظامیہ کے اہلکاروں کی مستعدی کی وجہ سے وہ نہ صرف محفوظ رہی بلکہ اسائنمنٹ جمع کروانے کے بعد اپنی سکوٹی پر بیٹھ کر باحفاظت اپنے گھر پہنچ کر ٹی وی چینلز کو دھڑلے سے انٹرویو دے رہی اور مودی سرکار کے سیاہ چہرے کو دنیا میں بے نقاب کر رہی ہے۔ یہاں تو مری سانحے کے دوران ریاست کی مجرمانہ غفلت کو سامنے لانے والا نوجوان طیب فوراً لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور اس کا خاندان بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ مودی سرکار اقلیتوں کے لیے بہت خطرناک ہے مگر کیا وجہ ہے سات ہزار پاکستانی انڈین شہریت کے لیے درخواست دے دیتے ہیں۔ کوئی تو وجہ ہو گی کہ قیام پاکستان کے وقت یہاں ہندووٴں کی تعداد کل آبادی کا تیرہ فیصد تھی جو آج ایک فیصد بھی نہیں رہی۔ ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ ہر سال کتنے ہندوستانی مسلمان وہاں کے ”مظالم“ سے تنگ آ کر پاکستان کی شہریت حاصل کرتے ہیں؟

مسکان تو مسلمان ہوتے ہوئے کئی سال سے حجاب بھی کر رہی ہے اور سکوٹی پر آزادانہ گھوم بھی رہی ہے ذرا یہاں کوئی ہندو لڑکی ایسا کر کے تو دکھائے! یہاں تو ہما رے اسلام کے داعی اور مبلغین بچی کھچی خوش شکل ہندو لڑکیوں کو زبردستی کلمہ پڑھا کر حرم میں داخل کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ اسلام کے ان ٹھیکیداروں نے ایسی محنت کبھی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر نہیں کی۔

کرناٹک میں مسکان زعفرانی شالیں اوڑھے ہندو طلبا کے ہاتھوں ہراساں ضرور ہوئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے جوابی نعرے لگائے، انہیں للکارا اور پھر اپنی سکوٹی پر بیٹھ کر کئی کلو میٹر فاصلہ طے کر کے گھر پہنچ گئی۔ عدالت میں آزادانہ کیس لڑ رہی ہے۔ انٹرویوز دے رہی اور انعامات لے رہی ہے۔ اب ذرا اپنے اسلام کے قلعے کی تصویر دیکھیے۔ مینار پاکستان میں مشتعل اور جنونی ہجوم کے ہاتھوں کھلونا بننے والی عائشہ کو ہندووٴں نے نہیں اپنے غیرت مند مسلمان بھائیوں نے برہنہ کر دیا تھا۔

سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کو ہندووٴں نے درندگی کا نشانہ بنایا تھا یا غیرت کے پتلے اسلامی اسلامی بھائیوں نے؟ مسکان کے حقوق کے لیے واویلا کرنے والے ہمارے وارثان منبر و محراب اور حاملان جبہ و دستار پاکستان میں ہونے والے واقعات پر جو عذر لنگ تراش کر مجروحین کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے تھے وہ سب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مسکان کی تصویر یہ اعلان بھی کر رہی ہے کہ انڈیا کی عورت ہمارے مقابلے میں زیادہ آزاد اور اس کی اقلیتیں کہیں زیادہ محفوظ و مامون ہیں۔ مسکان کے ایمان کی پذیرائی ضرور کریں۔ ہندو طلبا اور مودی سرکار کی رسوائی کا سامان بھی بخوشی کریں مگر خدارا انڈیا کے دامن پر لگے دھبے گننے سے پہلے اپنے تار تار گریبان پر بھی نظر ڈال لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments