خالی ہاتھ گھر لوٹنا بہت مشکل ہوتا ہے!


جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں رات کے ساڑھے تین بج رہے ہیں۔ اکثر کسی خواب کی وجہ سے تو کبھی بس یونہی دیر گئے رات نیند ٹوٹ جاتی ہے، میں یک دم ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتا ہوں، کئی مرتبہ مجھے یہ پتا بھی نہیں چل پاتا کہ میں کہاں اور کس شہر میں ہوں؟ کچھ دیر میں حواس بحال ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ میں دہلی کے اپنے اسی کمرے میں ہوں جہاں ماہ و سال کے کتنے ہی ایام میں نے کاٹے ہیں۔ ایسا صرف راتوں میں ہی نہیں، کبھی دوپہر کو تھکان میں سوتے ہوئے بھی ایسا ہوتا ہے اور پھر میں بڑی حیرانی سے سامنے رکھی ہوئی میز، کرسی، لیپ ٹاپ اور کتابوں کو دیکھتا ہوں، ٹٹولتا ہوں، جیسے یہ سب میرے لیے اجنبی ہوں۔

کئی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب واقعی بس واہمہ ہے۔ اصل تو میرا اپنا گھر ہے، میری مٹی، میرا گاؤں، جہاں میں نے آنکھیں کھولیں اور امی کی گود جہاں میں کسی چیز کی ضد میں روتے روتے سو گیا تھا۔ بہت سے خیالات جنم لیتے ہیں، میرا یہ گھر نہیں، تو میں یہاں کر کیا رہا ہوں؟ میں اس اجنبی شہر میں، جو کچھ سوچ کر آیا تھا، کیا وہ سب پا لیا؟ نہیں! اس کے باوجود وہ کیا شے ہے، جو اب تک مجھے یہاں کھینچے ہوئے ہے؟

رات کی نیم خوابیدہ کیفیت میں یہ سارے سوال مجھے بہت پریشان کرتے ہیں۔ شاید گھر سے دور رہنے والے اکثر لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہو، خاص کر ان لوگوں کے ساتھ، جو ڈھیر ساری امیدیں اور خواب لے کر کسی دوسرے نگر چلے آتے ہیں اور پھر وہ ان سپنوں کو بہت دن تک پورا نہیں کر پاتے! تب واپس گھر لوٹنے کا خیال آتا ہے، مگر میں ان خیالات کو جھٹک دیتا ہوں۔

اندر سے آواز آتی ہے، تم بے وقوفی کر رہے ہو، کس چیز کا انتظار ہے تمھیں اب؟ جو تمھیں چاہیے تھا، وہ اب تک نہیں ملا، اور کتنا انتظار کرو گے؟ جاؤ، واپس لوٹ جاؤ۔ میں اپنے من میں ان پیچھا کرتی آوازوں کو کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ شاید ایک بار گھر چھوٹ جانے کے بعد بے مراد واپس لوٹنا آسان نہیں ہوتا! ہاں، جو اپنا مقصد پا لیتے ہیں، ان کی واپسی بہت شادمان ہوتی ہے! یوں خالی ہاتھ واپس لوٹنا کون چاہتا ہے بھلا، بس یہی فکریں میرے قدم روک لیتی ہیں، پاؤں میں بیڑیاں سی لگ جاتی ہیں۔

برسوں پہلے جب میں سب کچھ چھوڑ کر گھر سے چلا۔ بچھونا، کپڑے اور اماں کے ہاتھوں کے بنے ہوئے بسکٹ سے بھرا ہوا بستہ۔ ساتھ میں بہت سارے لوگوں کا پیار اور ڈھیر ساری یادیں میری ہم سفر ہوئیں۔ میں پہلی بار جب گھر سے نکل رہا تھا، اماں نے کہا تھا، تم مجھ سے دور نہیں، بلکہ مجھے پانے کے لیے پہلا قدم اٹھا رہے ہو آج! آج سوچتا ہوں، تو لگتا ہے، برسوں پہلے، جو بھی میں اپنے ساتھ لے کر چلا تھا، وہ سبھی کچھ تو بہت پیچھے چھوٹتا چلا گیا ہے۔ سب کا ساتھ، بڑوں کی شفقت اور چھوٹوں کا پیار۔ وہ وقت وہ باتیں، سب کچھ کہیں بہت پیچھے چھوٹ گیا! کبھی میں سوچتا ہوں گھر سے دور میں، آج کتنا خالی سا ہو گیا ہوں۔

نیند میں یہی عہد گزشتہ اور گاؤں کی صدائیں مجھے جھنجھوڑتی ہیں، جیسے اپنی سمت بلا رہی ہوں! مجھے یاد ہے کہ ہاسٹل کی پہلی رات امی سپنے میں آئی تھیں، کبھی گال چومتیں تو کبھی پیشانی پر بوسہ دیتیں، کہتیں ”میں اس چھوٹے سے بچے کو اکیلے کیسے باہر بھیج سکتی ہوں، اسی وقت میری آنکھ کھل گئی تھی، اس رات بہت رویا تھا۔

کل رات بھی دیکھا کہ کڑاکے کی سردی کے باوجود کھڑکی کے پٹ وا ہیں، ایسا محسوس ہوا کہ امی اس دریچے کے پاس کھڑی ہوئی ہیں، اور نہ جانے کیوں رو رہی ہیں۔ کیا وہ بھی گھر میں مجھے یاد کر رہی ہیں؟ بس مجھے اتنا پتا تھا یہ سب ایک خواب ہے، اسی لیے میں بستر پر دیر تک آنکھیں بند کیے لیٹے رہا کہ آنکھیں کھولیں، تو یہ منظر غائب ہو جائے گا۔ مجھے محسوس ہوا کہ امی کمرے میں موجود ہیں، مگر ایک ان جانا خوف تھا کہ آنکھ کھلے گی، تو امی غائب ہو جائیں گی اور اسی ڈر سے میں اپنی آنکھیں نہیں کھول رہا تھا۔ امی کی آواز مجھے صاف سنائی دے رہی تھی، لیکن اسے ٹوٹنا تھا، سو وہ ٹوٹ گیا۔ میری آنکھ نہ چاہتے ہوئے بھی کھل گئی اور سب کچھ تحلیل ہو گیا۔

پتا نہیں کیوں مجھے ایسا بھی محسوس ہوتا ہے، جب میں اکیلے گھر میں ہوتا ہوں، کبھی امی میرے پاس آ جاتی ہیں۔ مجھ سے باتیں کرتی ہیں، ایک پرچھائیں کی طرح میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ شاید اکیلے رہنے پر شاید یہ یادیں پرچھائیں بن کر ہمارے پیچھے پیچھے چلنے لگتی ہیں، لیکن جب میرے ساتھ اور کوئی ہو تو یہ ’پرچھائی‘ بھی پرے ہوئی جاتی ہے۔

کتنی ہی بار چشم تصور سے سیڑھیوں پر، بالکنی پر کھڑے ہو کر میں نے ان سے باتیں کی ہیں، بس گاؤں سے بہت دور ایک اجنبی شہر میں ان کا میرے پاس ہونے کا احساس بہت قیمتی ہوتا ہے۔ شاید یہ خواب اور یہ تصورات میرے لاشعور میں دبی ہوئی اپنی جنم بھومی سے ہجر کا نتیجہ ہیں، کاش، میں جلدی سے کام یاب ہو کر گھر لوٹوں، اور دیوانہ وار اپنی ماں سے لپٹ جاؤں، کہ ’دیکھ ماں، میں کچھ دیر سے ہی سہی، مگر جیت کر آ ہی گیا ہوں! ماں، میں اب آ گیا ہوں، ہمیشہ کے لیے آپ کے پاس۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments