ویلنٹائن ڈے۔ متفرق نظریات کا تہوار


ویلنٹائن ڈے 14 فروری کو منایا جانے والا ایک سالانہ تہوار ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اس دن کو منانے کی حمایت یا مخالفت میں مختلف نظریات مشاہدہ میں آتے ہیں۔ تاریخی لحاظ یہ دن، سینٹ ویلنٹائن نامی ایک یا ایک سے زائد ابتدائی کلیسیاء کے شہداء کی یاد میں منائے جانے کے شواہد 496 ء کے اوائل سے ملتے ہیں۔ بعد ازاں 15 ویں صدی میں اس دن کو ”محبت“ کے ساتھ منسوب کر کے اسے ایک رومانوی محبت کے تہوار کے طور پر منایا جانے لگا، جو اس دن کے اصل اور بنیادی تصور سے یکسر مختلف تھا۔

اس قدیم مذہبی تہوار کی اہمیت، حیثیت اور معنویت یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ معاشرے کی اکثریت کی سوچ اس دن کے جدید تصور کو ایک متفرق اور کاروباری یا فیشن سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام، میڈیا کی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے اور کاروباری افراد کے معاشی مفاد کے باعث تشہیر سے ایک مخمسہ کی حالت میں ہیں۔ اسی لئے کچھ لوگو اپنے تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی روایات کے پس منظر میں اس دن اور اس دن کی تقریبات سے متنفر نظر آتے ہیں۔ قدامت پسند طبقہ کا یہ ماننا ہے کہ یہ ہماری ثقافتی و سماجی روایات کا حصہ نہیں ہے۔

اس دن کے حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ اس دن کی تشہیر میں بھی تیزی آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر میں صنعتی اور معاشی ترقی کے لئے تشہیر ہی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کاروباری مقابلے بازی اور منافع کے حصول کے لئے نئے نئے طریقوں سے عوام کے ذہنوں کو آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح عوام مختلف برانڈز اور اشیاء کی خرید اری کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس دن کی تقریبات اور اشیاء سے جڑی پوری ایک صنعت تشکیل پا چکی ہے۔

اس ضمن میں دنیا بھر میں سالانہ 15 کروڑ سے زائد ویلنٹائن ڈے کے کارڈز کا تبادلہ ہوتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر کاروباری و معاشی مفاد ات کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے میڈیا، اسٹورز، فاسٹ فوڈ سینٹر اور ریستوران اس دن کی مختلف طریقوں سے تشہیر کرتے ہیں۔ عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے خریداری اور کھانے پینے کی اسکیمیں متعارف کرواتے ہیں۔ جب دو اڑھائی عشرے پہلے اس تہوار کا عروج جوبن پہ تھا۔ اس وقت میڈیا پر اس دن کے تاثر کو ابھارنے کے لئے پروگرام (گیت، ڈرامے، فلمیں ) پیش کی گئیں۔ اور یہاں تک کہ ”محبت کے خطوط کے مقابلے“ ، سرخ رنگ کے گلابوں، کھلونوں، اور تیر لگے دل کی علامتی کھلونوں وغیرہ کا رجحان دیکھا گیا۔ عام طور پر یہ بات دیکھنے میں آئی کہ معاشی لبرلائزیشن نے سرخ گلابوں، ویلنٹائن تحائف جیسے ویلنٹائن کارڈ، کھلونے اور چاکلیٹ کے کاروبار کی بھر پور مدد کی۔

ایک عام تاثر ہے اور حقیقت پر مبنی بھی کہ دنیا میں کوئی مذہب، معاشرے میں ”محبت اور احترام“ کے فروغ کا مخالف نہیں۔ لیکن ملک کے طور و عرض میں اس دن کے حوالے سے اظہار محبت کے جدید انداز اور روایت کو اس معاشرے میں پسند نہیں کیا گیا۔ اسی لئے ہر سال مذہبی بنیاد پرستوں کے ویلنٹائن ڈے مخالف مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ اس کے علاوہ پرتشدد واقعات بھی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئے۔ ویلنٹائن ڈے پر روایتی سرخ گلاب، غبارے اور کھلونے بجائے محبت کی علامت کے نفرت کی علامت بن چکے ہیں۔ اس ضمن میں اکثریتی عوامی رائے یہی ہے کہ اس دن کو آزادانہ طور پر منائے جانے کی اجازت سے ہماری نسلیں تباہی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی اور ثقافتی عقائد و روایات سے دور ہوجائیں گی۔ گزشتہ سالوں میں

میں ویلنٹائن ڈے منانے کے خلاف پابندی، احتجاجی مظاہرے، بیان بازی اور یہاں تک کہ عدالتی احکامات نے ہنگامہ آرائی کی فضاء قائم کردی۔ اس تہوار/جشن کے خلاف مذہبی اور قدامت پسند طبقات سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا کہنا تھا کہ، ”یہ دن روایتی مشرقی اقدار کے خلاف محبت کی نمائش ہے۔“ اس دن کو مشرقی تہذیب و تمدن کے خلاف ایک عالم گیر سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کو اس پاداش میں قتل کیا گیا کہ اس نے ویلنٹائن ڈے کی حمایت میں ایک پوسٹر کے ساتھ مظاہرہ کیا تھا، جس پر تحریر تھا ”پیار ہونے دیں“ یا ”پیار ہونے دو ۔“ سبین کے اس عمل کو مذہب کی صریح خلاف ورزی تصور کیا گیا۔ اسے دھمکیاں ملیں تو وہ کچھ عرصہ کے لئے روپوش بھی رہی۔ لیکن 2015 ء میں ویلنٹائن ڈے کی حمایت میں ریلی نکالنے کے باعث سے اسے ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ اس کے قاتل نے اپنا جرم قبول کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے یہ قدم اس خاتون کے غیر اسلامی فعل کی حمایت پر اٹھایا۔

2016 ء میں حکومتی حلقوں کی طرف سے ویلنٹائن ڈے پر امن و امان کی صورت حال کے باعث نوجوانوں کی آگاہی کے لئے مہم چلائی گئی کہ یہ جشن / تہوار مغربی ثقافت کا حصہ ہے لہذا وہ اسے نہ مناتے ہوئے اپنے مذہبی اور قومی تشخص کو برقرار رکھیں۔ اسی طرح گزشتہ سالوں میں وفاقی دارالحکومت میں ویلنٹائن ڈے پر تمام تقریبات پر وزارت داخلہ کی طرف سے پابندی عائد کردی گئی۔ ساحلی شہر کراچی میں بھی اس دن کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے ساحل سمندر پر عوام کا داخلہ روک دیا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ملک بھر میں سرکاری دفاتر اور اداروں میں بھی ہر قسم کی تقریبات سختی سے منع ہیں۔

2017 ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے میڈیا کو بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کسی بھی طرح کا پروگرام پیش کرنے یا عوامی مقامات پر تقریبات کی کوریج نہ کرنے کے احکام جاری کیے ۔ کیونکہ عدالت عالیہ کی نزدیک ایسے اقدام سے بے حیائی اور عریانی کے فروغ کو روکا جاسکتا ہے۔ بعد کے سالوں سے اب تک ملک بھر میں ویلنٹائن ڈے پر کسی مقام پر اور کسی کو ویلنٹائن ڈے کی تشہیر اور تقریبات کے انعقاد پر پابندی ہے۔

ویلنٹائن ڈے کا 5 ویں صدی سے آج 21 ء صدی تک کا سفر اس تہوار میں ترمیمات کے کتنے ہی نشیب و فراز سے گزر آیا۔ آج بھی اس آزاد مملکت پاکستان کے شہری ہوتے ہوئے ہم ہر سال ویلنٹائن ڈے پر ذاتی اور اجتماعی طور پر اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ہمیں یہ دن منانا چاہیے یا نہیں؟ ایک ذہین شخص جانتا ہے کہ کیا کہنا ہے، جبکہ ایک دانش مند جانتا ہے یہ کہنا ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments