چوہدری محمد اسلم: اب جو ہم تم میں نہیں خاک میں پنہاں ہو کر


مولانا ابو اعلیٰ مودودی کے دیرینہ ساتھی، جماعت اسلامی کے سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ اور 30 سال امیر جماعت اسلامی گوجرانوالہ رہنے والے چوہدری محمد اسلم نیویارک کے علاقے بفلو میں 31 جنوری، 2022 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ان کی عمر 102 سال پندرہ دن تھی۔ اور وہ گزشتہ دس سال سے اپنے بیٹوں کے پاس امریکہ میں مقیم تھے۔ ایک وضعدار سیاست دان، پکے اور سچے مسلمان چوہدری محمد اسلم کو نماز جنازہ کے بعد بفلو (نیویارک) کے مونٹ کیلوری قبرستان میں مسلمانوں کے لیے مختص حصے ’گلشن مدینہ‘ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

مرحوم نے پسماندگان میں چار بیٹوں، دو بیٹیوں اور چار بھائیوں سمیت درجنوں کی تعداد میں پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں اور بھتیجے بھتیجیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ایک متحرک، انتہائی معاملہ فہم اور دیندار شخصیت ہم سے رخصت ہوئی۔ ان کا شمار ملک کے انتہائی مدبر اور باوقار سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔

چوہدری اسلم پہلی بار سنہ 1995 ء میں امریکہ آئے تھے۔ کچھ عرصہ امریکہ میں گزارنے کے بعد وہ واپس پاکستان لوٹ جاتے۔ وقفے وقفے سے دونوں ممالک میں آنے جانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تاہم اپنے بیٹوں عبدالقدوس، عبدالباسط، عبدالرؤف اور عبدالمنان کے فیملیوں سمیت امریکہ منتقل ہو جانے کے بعد سے وہ گزشتہ دس سال سے اپنے صاحبزادوں کے پاس نیویارک میں مقیم تھے۔

گزشتہ ڈیڑھ سال انہوں نے اپنے بیٹے عبدالباسط کے ساتھ بفلو ( نیویارک) میں گزارا۔ وہیں پر انہیں مولانا ابو اعلیٰ مودودی کے بفلو میں مقیم صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق مودودی کا ساتھ بھی میسر رہا۔ ڈاکٹر احمد فاروق اکثر ان کے گھر آ جاتے، اور پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے اپنے والد کے رفیق چوہدری اسلم کے ساتھ کافی وقت گزارتے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مولانا مودودی نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام بسلسلہ علاج معالجہ اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے ہاں بفلو (نیویارک) میں گزارے تھے۔ اور وہیں پر ان کی وفات بھی ہوئی تھی۔ بعد ازاں ان کا جسد خاکی تدفین کے لیے پاکستان لے جایا گیا تھا۔

31 جنوری، 2022 کے دن نماز ظہر اور عصر کے دوران کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے چوہدری اسلم کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ضعیف العمری ہی ان کی بیماری رہی۔ انہیں دیگر کوئی بڑا عارضہ لاحق نہ تھا۔

چوہدری اسلم کی وصیت تھی کہ ان کی تدفین پاکستان میں کی جائے۔ اور تدفین میں دیر نہ کی جائے۔ تاہم اگر کسی وجہ سے ان کا جسد خاکی امریکہ سے پاکستان لے جانے میں دیری کا احتمال ہو، تو ان کے بیٹے باہمی مشاورت سے اس وقت جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ان کی وصیت پر حاوی ہو گا۔ خراب موسم اور برفباری کی وجہ سے میت پاکستان لے جانے میں زیادہ وقت لگنے کے باعث ان کے بیٹوں نے بفلو (نیویارک) کے قبرستان میں اپنے والد کی تدفین کا فیصلہ کیا۔

چوہدری محمد اسلم 17 جنوری، سنہ 1920 کو متحدہ ہندوستان کے ضلع جالندھر کے گاؤں ’تلونڈی چوہدریاں‘ میں چوہدری محمد بخش کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریاست کپورتھلہ میں مہاراجہ کپور تھلہ کے ہاں مہتمم بندوبست (تحصیلدار) کے طور پر کام کرتے تھے۔

چوہدری محمد اسلم نے قیام پاکستان سے پہلے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم وہیں حاصل کی تھی۔ بعد ازاں پاکستان آ کر انہوں بی اے اور ایم اے اسلامیات کے امتحانات پاس کیے۔

قیام پاکستان کے بعد وہ اپنی فیملی کے ہمراہ پہلے پنڈی بھٹیاں کے مقام پر آ کر آباد ہوئے۔ تاہم چند سال بعد وہ گوجرانوالہ شہر میں آ کر مقیم ہو گئے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں انہوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ گزار۔ زمیندارہ، خدمت خلق کے علاوہ اپنی زندگی کو دینی امور اور جماعت اسلامی تک محدود کر لیا تھا۔ انہوں نے ایک بھرپور عوامی اور سیاسی زندگی گزاری۔ اور طویل عمر پائی۔

چوہدری محمد اسلم مرحوم کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ سنہ 1952 سے لے کر سنہ 1982 تک مسلسل 30 سال جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ کے امیر رہے۔ مختلف اوقات میں ملک میں بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے وہ گوجرانوالہ میں متفقہ صدر بھی بنتے رہے۔

ان کے بیٹے عبدالقدوس کے مطابق ”صدر ایوب خان کے دور میں وہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھے۔ صدر ایوب خان کے صاحبزادے نے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کے لیے گوجرانوالہ کے بی ڈی ممبرز کو اغواء کر کے ان کے ووٹ اپنے والد کے حق میں ڈلوائے تھے“ ۔

سال ہا سال ضلعی امیر کی ذمہ داریوں کے علاوہ وہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی منتخب ہوتے رہے۔ ان کا شمار امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی کے انتہائی قریبی اور معتمد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔

روزنامہ جہان گوجرانوالہ ”میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق“ چوہدری اسلم کے متعلق مشہور تھا کہ جب جماعت کی مرکزی شوریٰ کسی مسئلے پر الجھن یا مخمصے کا شکار ہو جاتی، تو مولانا مودودی انہیں کہتے کہ چوہدری صاحب! آپ اپنی رائے دیں۔ ان کی رائے آنے کے بعد مولانا مودودی سمیت اجلاس کے شرکاء اکثر و بیشتر ان کے مشورے سے اتفاق کر لیتے تھے ”۔

مرحوم کے نیویارک میں مقیم بیٹے عبدالقدوس نے اپنے والد کی یادداشتیں شیئر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ”ان کے والد بنیادی طور پر ایک زمیندار تھے۔ تعلیم کے حصول کے وہ سخت حق میں تھے۔ خود انہوں نے ایم اے اسلامیات کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے چھ چچا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پاکستان میں بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے والد نے اپنے چاروں بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ مجھ سمیت ان کے دوسرے بھائی عبدالباسط امریکہ منتقل ہونے سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ رہے“ ۔

سنہ 1950 ء سے 1980 ء کے دوران متعدد بار سیاسی بنیادوں پر جماعت کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ چوہدری اسلم کی گرفتاری بھی عمل میں آتی رہی۔ جب جب مولانا مودودی یا دیگر اکابرین گرفتار کیے گئے، وہ بھی گرفتار کر لیے جاتے۔ جب صدر ایوب خان کے دور میں مولانا مودودی کو شاہ ایران کے خلاف بیان دینے پر غداری کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تو چوہدری اسلم بھی اس دوران جماعت کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جیل میں قید رہے۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے مولانا مودودی کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس لئے جانے کے بعد ، مولانا سمیت جماعت سبھی رہنما رہا کر دیے گئے۔

صدر ایوب خان کے دور میں جس پولیس انسپکٹر نے انہیں سب سے پہلے گرفتار کیا۔ وہ بعد ازاں سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے چوہدری اسلم کے رویے سے متاثر ہو کر جماعت اسلامی کے ایک بڑے سپورٹر بن گئے۔ وہ پولیس انسپکٹر جماعت اسلامی کے کچھ عرصہ پہلے وفات پا جانے والے مرکزی رہنما و سابق ایم این اے حافظ سلیمان بٹ کے والد خواجہ محمد طفیل مرحوم تھے۔

(اچھی شہرت کے حامل پولیس افسر خواجہ محمد طفیل بعد ازاں ڈی ایس پی سپیشل برانچ اور ایس پی ڈیرہ غازی خاں بھی رہے۔ انہوں نے بطور ڈی ایس پی سپیشل برانچ، 70 ء کی دہائی میں میانوالی جیل میں قید شیخ مجیب الرحمن کو قتل کیے جانے کی سازش عین وقت پر پکڑ کر ناکام بنا دی تھی، اور آدھی رات کے وقت ہنگامی طور پر شیخ مجیب الرحمن کو انسپکٹر راجہ انار خاں کے ہمراہ جیل سے نکال کر میانوالی میں ڈی ایس پی صدر کی رہائش گاہ پر لے گئے تھے۔ ”راجہ انار خاں کی یادداشتوں سے ایک اقتباس)

سنہ 1977 ء میں قومی اتحاد کی جانب سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں ہوئی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران چوہدری محمد اسلم امیر جماعت اسلامی گوجرانوالہ، قومی اتحاد گوجرانوالہ کے صدر بھی تھے۔ اس دوران ملک بھر سے حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہی میں چوہدری اسلم بھی شامل تھے۔ انہیں گرفتار کر کے گجرات جیل منتقل کیا گیا۔ گجرات جیل میں ان کے ہمراہ چوہدری ظہور الٰہی، سیالکوٹ سے خواجہ محمد صفدر (خواجہ آصف کے والد) گوجرانوالہ سے غلام دستگیر خان اور راولپنڈی سے شیخ رشید بھی شامل تھے۔ ان کے لیے کھانا چوہدری ظہور الٰہی کے گھر سے آتا تھا، جسے سب مل کر تناول کرتے۔

عبدالقدوس کا کہنا تھا کہ ”1977 ء میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران ضلع گوجرانوالہ میں جھڑپوں کے دوران خصوصاً کامونکی اور قلعہ دیدار سنگھ میں پندرہ سے بیس افراد ہلاک ہوئے۔ مظلوم فیملیوں کی داد رسی کے سلسلے چوہدری اسلم کی متعدد ملاقاتیں جنرل سوار خاں سے ہوئی تھیں۔ جس کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ میں بھی کافی رد و بدل ہوا۔

اپنے وقت کے کئی بڑے سیاسی و مذہبی لیڈروں اور صحافیوں، خصوصاً شورش کاشمیری اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ ان کے بڑے اچھے تعلقات رہے۔ اس وقت نسبتاً جونیئر اور آج کل سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی سمیت دیگر کئی صحافی باقاعدگی سے ان کے والد سے ملاقات کے لئے آیا کرتے تھے ”۔

مولانا مودودی کی رحلت کے بعد امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے والے میاں محمد طفیل کے ساتھ بھی ان کا بہت دیرینہ تعلق رہا۔ سنہ 1998 ء میں چوہدری اسلم گوجرانوالہ سے کینال ویو لاہور منتقل ہو گئے۔

دس سال قبل 2012 ء میں وہ پاکستان سے امریکہ آ کر مقیم ہو گئے تھے۔ دو سال پہلے وہ پاکستان تشریف لے گئے تو ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں نے ان کی 100ویں سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ وہ جماعت اسلامی کے اپنے رفقاء سے ملنے منصورہ بھی گئے۔ جہاں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، لیاقت بلوچ، امیر العظیم، حافظ محمد ادریس اور اظہر اقبال حسن سمیت دیگر رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔

چوہدری اسلم مظلوم لوگوں کی دادرسی کے لیے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ ان میں سے نور احمد لغاری ایس پی گوجرانوالہ، جو بعد ازاں محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں ڈائریکٹر جنرل آئی بی اور چیئرمین پی آئی اے بھی رہے۔ میجر (ر) مشتاق احمد، ڈی آئی جی گوجرانوالہ، جو بعد میں آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اور اسی طرح شعیب سڈل اے ایس پی گوجرانوالہ، جو بعد میں آئی جی کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان صاحبان کے ساتھ ہمیشہ ان کے اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم رہے۔ اور یہ لوگ مظلوم عوام کی دادرسی کے لیے ان کے کام آتے رہے۔

چوہدری اسلم جن دنوں امیر جماعت اسلامی گوجرانوالہ تھے۔ انہی دنوں سابق آئی جی پولیس شعیب سڈل کی پہلی تعیناتی بطور اے ایس پی گوجرانوالہ میں ہوئی تھی۔ اسی دور سے چوہدری اسلم سے شعیب سڈل کا ایک بڑے احترام کا رشتہ استوار ہوا۔

مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد جب شعیب سڈل کو گرفتار کیا گیا۔ تو چوہدری اسلم کراچی انہیں ملنے کے لیے گئے۔ اور اس مشکل وقت میں انہیں اپنے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ بعد ازاں شعیب سڈل انکوائری میں بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیے گئے۔

چوہدری محمد اسلم (ایم اے ) نے اپنی زندگی میں ہی اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ”میری تحریکی یادداشتیں“ کے عنوان سے لکھی تھی۔ جسے ادارہ معارف اسلامی منصورہ، لاہور نے شائع کیا۔

جماعت سے وابستگی، نظریاتی پختگی، نڈر قیادت، روشن کردار، درویش طبع اور گوناگوں خوبیوں کے مالک چوہدری محمد اسلم اب ہم میں نہیں ہیں۔ انہوں نے فریضۂ اقامت دین کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کیے رکھی۔ جو بہت سوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

”اب جو ہم تم میں نہیں خاک میں پنہاں ہو کر“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments