اندھا سخی، بھلکڑ منصف اور تین چوتھائی کچرا


وزیراعظم عمران خان اپنے وزراء میں جب کارکردگی کی بنیاد پہ سرٹیفیکیٹ بانٹ رہے تھے تو بادی النظر میں وہ اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ ان کا اپنی چار درجن سے زائد کابینہ کا چناؤ درست نہیں تھا۔ ان دس وزراء میں حسب توقع کابینہ کے سب سے زیادہ محنت و مشقت کرنے والے یا یوں کہہ لیں دن رات مصروف عمل رہنے والے وزیر برائے پوسٹل سروسز مرد آہن مراد سعید اول قرار پائے۔ دنیا ٹی وی کے پروگرام میں جب اینکر کامران خان نے وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد سے پوچھا کہ آخر مراد سعید کو کس کارکردگی کی بنیاد پہ پہلا نمبر دیا گیا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے بولے کہ ان کو کوالیٹیٹو اور کوانٹیٹیٹو بنیاد پہ یہ ایوارڈ ملا۔ اب یہ دونوں خصوصیات کیا ہیں یہ مشیر محترم کو نہیں معلوم تھیں نہ ہی انہیں یاد تھا کہ جب ایوارڈ لسٹ تیار ہو رہی تھی تو مراد سعید کو ایوارڈ دینے کے لیے ان کی کس کس کارکردگی کو دیکھا اور پرکھا گیا۔

میری ناقص سمجھ کے مطابق ارباب شہزاد صاحب یہ کہنا چاہتے تھے کہ مراد سعید صاحب کو ان کی شخصیت میں موجود ان کی قوت برداشت اور کام کرنے کی صلاحیت اور ان کی شخصیت کی خصوصیات، ہمت و مشقت سہنے کی عمدگی کے درجات کی ناپ تول کر کے ان کو پہلے نمبر کا حقدار قرار دیا گیا، باقی وزراء کی اگر فہرست پہ نظر ڈالیں تو خان صاحب کے ارسطو ثانی اسد عمر صاحب دوسرے استھان پہ براجمان ہیں، مگر ان کی باصلاحیت، امانت دار اور دیانتدار کابینہ کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر اطلاعات و نشریات، اور ان کی سب سے زیادہ مدح سرائی کرنے اور ماحولیات میں انقلاب برپا کرنے والی خاتون وزیر زرتاج گل صاحبہ خان صاحب کے نزدیک تعریفی سرٹیفکیٹ کے قابل بھی نہ ٹھہرے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ریکارڈ اور روایت بھی خان صاحب کے حصے میں آئی کہ اندھے نے ریوڑیاں بانٹیں اور وہ بھی اپنے خاص الخاص افراد میں اور باقیوں کو ان کی اوقات بتانے کے لیے بڑا ہی مہذب راستہ اختیار کیا۔

اب وزیر اعظم صاحب کی کابینہ کے ایک اہم ستون اور وزرات عظمیٰ کے خواہشمند وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشیر ارباب شہزاد کو ایک خط کے ذریعے نہ صرف وزراء کی کارکردگی جانچنے کے طریقۂ کار پہ سنگین سوالات اٹھا دیے دیے بلکہ وزارت خارجہ کو مکمل نظر انداز کرنے پہ اپنی شدید ناراضگی اور تحفظات کا اظہار کر دیا۔ ان کے خیال میں خان صاحب کی حکومت اگر اب تک ٹکی ہوئی ہے تو وہ ان کی سحرانگیز شخصیت اور وزارت خارجہ کی تاریخ ساز کارکردگی کی وجہ سے ہے۔

ریوڑیاں اپنوں میں بٹنے کی شفافیت پہ اپنے ہی اندر سے اٹھنے والی یہ پہلی واشگاف آواز ہے، جبکہ شنید ہے کہ وزیر اطلاعات، وزیر خزانہ سمیت دو درجن بھر وزراء مشیران اور میڈیا، اپوزیشن کے لتے اتارنے انہیں گالم گلوچ کرنے والی بریگیڈ کے سرخیل شہباز گل بھی سخت ناراض اور مایوس ہیں کہ وہ اپنے گرو خان صاحب کے لیے سارا دن جھوٹ، منافقت، زبان درازی کر کے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں اس کے باوجود انہیں ایک معمولی ایوارڈ کا حق دار بھی نہیں سمجھا گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے کابینہ کے صرف دس ممبران کو ایوارڈز اور تعریفی اسناد دے کر یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کی تین چوتھائی کابینہ نا اہل، ناکارہ اور نالائق ہے، اب ملک و قوم کے خزانے پہ تین چوتھائی کچرے کا بوجھ ڈالنے کا ذمے دار کون ہے، اور کیا اس شخصیت کو اخلاقاً مستعفی نہیں ہو جانا چاہیے۔ خان صاحب نے ایوارڈ کے لیے کیا ترجیحات مقرر کی تھیں یہ تو ان کے معاون خصوصی برائے افسر شاہی ارباب شہزاد صاحب نے پہلے ہی واضح کردی مگر کیا یہ ترجیحات صرف مراد سعید کی کارکردگی جانچنے کی لیے تھیں یا سب کی کارکردگی پرکھنے کا پیمانہ تھیں، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اور پاکستان کی سول سوسائٹی، میڈیا کے حلقوں، سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پچاس سے زائد وزراء میں سے صرف دس افراد کی ایوارڈ دے کر ستائش سے باقی کے چالیس سے زائد وزراء جن میں اتحادیوں کے وزراء بھی شامل ہیں اور جو خان صاحب سے دوری اختیار کرنے کے لیے آنکھ کے ایک اشارے کے منتظر ہیں اور پہلے ہی اپنے مستقبل کی فکر میں ادھر ادھر دیکھ رہی ہے وہ کسی بھی وقت خان صاحب کو داغ مفارقت کا سرپرائز بھی دے سکتے ہیں۔ وزیر اطلاعات سمیت کچھ اور اہم وزراء نے اپنے اپنے قریبی حلقوں میں خان صاحب کے اس غیر سیاسی اقدام کو غیر دانشمندانہ قرار دیا ہے۔

مراد سعید پہ پاکستان پوسٹ میں اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہے، ان کی کارکردگی اتنی زبردست رہی کہ پچھلے کچھ انتہائی اہم غیر ملکی دوروں میں انہیں ساتھ لے جانا بھی گوارا نہیں کیا گیا، شیخ رشید کے وزارت ریلوے کے دوران پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ اور سب سے بھیانک حادثات ہوئے، ریلوے بدترین خسارے کا شکار رہی، پھر انہیں گھریلو معاملات کی وزارت سونپی گئی اور پورا گھر ایک بار پھر دہشتگردوں کی جنت بنتا جا رہا ہے، دہشتگرد دندناتے سیکورٹی فورسز کے جوانوں عام شہریوں کا قتل عام کرتے پھر رہے ہیں، ملک سے خصوصاً بلوچستان اور سندھ سے جبری گمشدگیوں کے واقعات بڑھتے اور گمشدہ افراد کی فہرست لمبی ہوتی جا رہی ہے۔

خسرو بختیار، رزاق داؤد کے تو کیا ہی کہنے چینی مافیا سے لے کر ڈیم کے ٹھیکوں تک یہ دو افراد سب سے آگے رہے، نیب انکوائری خسرو بختیار کے خلاف پہلے ملتان سے لاہور منتقل ہوئی آخرکار بند ہی ہو گئی، رزاق داؤد کے کاروباری مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود وہ کبھی ایک وزرات تو کبھی دوسری کے مزے لوٹ رہے ہیں، حماد اظہر نے ایل این جی کے معاملے پہ جو اربوں روپے کا ٹیکا قوم کو لگایا اس کا انعام انہیں ایوارڈ کی صورت میں دیا گیا، مطلب کس کس انمول ہیرے کے کارناموں کا ذکر کیا جائے کہ جن کی بنیاد پہ وہ داد و ایوارڈ کے مستحق ٹھہرائے گئے۔

1958 میں اس وقت کے صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا نے بھی اپنے وزراء کی سفارش پہ نشان پاکستان لیا تھا پھر خود اپنے قریبی رفقاء اور اپنی بیگم کو بھی نشان پاکستان، نشان امتیاز اور نشان قائد اعظم جیسے اعلیٰ ملکی اعزازات سے نوازا تھا۔ اس بار اعلیٰ ملکی اعزازات نہ سہی مگر ایوارڈز برائے حسن کارکردگی باٹنے کا یہ کام خان صاحب نے انجام دے دیا مگر یہ دس ایوارڈ انہیں کتنے بھاری پڑنے والے ہیں شاید خان صاحب کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments