عورت کی زندگی: ریت پر نقش پا


ہاتھوں میں ہاتھ لئے نرم گیلی ریت پر اپنے قدموں کے نشان بناتے وہ آگے اور آگے بڑھتے گئے، ہر کچھ قدم چلنے کے بعد ایک لہر آ کے وہ نشان مٹا جاتی تھی۔ جو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔

ابھی شادی کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا، اس کی اٹکھیلیاں، شوخیاں شوہر کو لبھاتی تھیں مگر ساس نندوں کو یہ سب چھچھورا پن لگتا تھا اسی لئے شوہر نام دار سب گھر والوں کے سامنے چہرے پہ مسکراہٹ بھی نہ لاتے، اپنے کمرے میں جانے کی جرaت اس وقت تک نہ ہوتی جب تک ساس اپنے تخت پر پاندان سمیٹ کر لیٹنے کی تیاری شروع نہ کرتیں۔

وہ دن بھر کی تھکی انتظار کی سولی پہ لٹکی ان کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی سو چکی ہوتی۔

ہر شوخی اور اٹکھیلی ایک ایک کر کے مانند پڑتی جا رہی تھی، کبھی کھانے میں نمک زیادہ ہو گیا تو رات میں شوہر کے موڈ سے اندازہ ہوتا کہ کھانا گھر والوں کو ہضم نہیں ہوا، کبھی چائے کی پیالی اوپر سے پکڑ کر آگے بڑھا دی تو چائے سمیت پیالی کمرے سے باہر۔

حمل کے شروع کے دن اور سسرال کی دعوت اگر کام کرنے میں سستی کردی تو رات میں شوہر کا مزاج دن میں ہونے والے حالات کا پتا دیتے تھے۔

سسرال بھی کوئی ایک دو افراد پر محیط نہ تھا پوری پلٹن تھی اور جب شوہر کی حمایت نہ ہو تو عورت پورے گاؤں کی جورو بن جاتی ہے۔

سسرال اور میکہ کو اگر جنت اور جہنم سے تشبیہ دی جائے تو شاید کچھ غلط نہ ہو گا۔ خیر شادی کے بعد ہر گزرتا دن شادی کا خمار اتارتا گیا۔ پھول سی لڑکی شوہر کو اپنا بناتے بناتے اپنا آپ کہیں کھو آئی تھی سب برداشت تھا دن رات کی مشقت اوپر تلے بچوں کی پیدائش، برسوں میں میکے کا رخ اپنے بہن بھائیوں کے سامنے اپنے شوہر کا بھرم برقرار رکھتے ہوئے اب وہ ایک عورت ہو گئی تھی۔

کہتے ہیں جب تک ماں باپ کا دم ہو تب تک ہی میکہ رہتا ہے، بھائی کی شادیاں ہونے پر اپنے ماں باپ کا گھر بیگانہ سا لگنے لگتا ہے۔ شادی شدہ عورت چاہتے ہوئے بھی میکے جاکر اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کر سکتی۔

اپنی ماں کی جوانی میں اسے کبھی اس بات کی فکر نہی ہوئی لیکن اب ماں ضعیفی کی طرف بڑھ رہیں تھیں وہ جب بھی اپنی بوڑھی ساس کی خدمت کرتی۔ اس کو اپنی ماں شدت سے یاد آتی۔

اب ساس بھی کافی ضعیف اور بیمار رہنے لگیں تھیں، کھانا پینا سب بستر پر آ گیا تھا اس نے اپنی ساس کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی شوہر تو تھے ہی اپنی ماں کے فرماں بردار لہذا وہ خود بھی اس نیکی میں پیش پیش رہتے اور اپنے بچوں کو بھی تلقین کرتے۔ ساس کافی عرصے بستر پر رہیں، جو پلٹن وہ اس کی نئی شادی کے دنوں میں جمع رکھ کر خوش ہوتی تھیں آج بستر مرگ پر انھی چہروں کو دیکھنے کو ترس رہیں تھیں۔ اسی دوران وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں پیچھے رہ جانے والوں میں اگر کوئی اداس تھا تو وہ اور اس کے بچے جنھوں نے آخری وقت میں جی و جان سے خدمت کی تھی۔

کافی عرصے بعد میکے کا چکر لگا سب بہن بھائی بھابیاں ایک دستر خوان پر جمع تھے۔ اپنی ماں کی جانب نظر پڑی تو محسوس کیا کہ وہ کھانا رغبت سے نہیں کھا رہی، بھابی کے سامنے پوچھنا مناسب نہیں لگا۔

رات پلنگ پر اپنی ماں کی بغل میں بچپن کی طرح گھس کر لیٹ گئی اور ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چومنے لگی، ماں بھی سر سہلانے لگیں، دھیمے سے پوچھا ”امی! آپ کی طبیعت ٹھیک ہے“ ۔ ماں پھر ماں ہے کہ دیا ”بالکل ٹھیک ہوں مجھے کیا ہوا، بس زیادہ مرچ مصالحہ اب کھایا نہیں جاتا“ ۔ وہ بولی ”آپ دلیہ پکوا لیا کیجئیے“ ماں چپ سی ہو گئیں۔ شاید ان کی چپ میں ہی جواب تھا۔ اس نے بھی پلٹ کر سوال نہیں کیا۔

کچھ دن رہ کے وہ اپنے گھر کو ہولی۔ الوداعی نظروں سے در و دیوار کو دیکھا اس بار واپس جاتے ہوئے اس کا دل بہت اداس تھا۔

گاہے بگاہے وہ اپنی ماں کی خیریت دریافت کرتی رہتی تھی، اس کی ماں کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ماں کے پاس نہی جا پا رہی تھی، بچوں کا اسکول شوہر کا آفس گھر کی ذمہ داری۔ بس دل تھا جو ماں کے پاس اٹکا رہتا تھا، ماں کا گھر قریب ہوتا تو شاید دن میں دس چکر لگا آتی کبھی کچھ پکا کر لے جاتی مگر افسوس گھروں کے بیچ بہت فاصلہ تھا کچھ فاصلہ دلوں میں بھی تھا ورنہ تو کچھ دن رہ آتی۔

وہ اکثر تڑپ کر یہ سوچتی کہ کاش! وہ اپنی ماں کو اپنے گھر لے آتی۔ ان کی خدمت دل بھر کرتی۔ گھر پہ ماں کے پاس ہوتا ہی کوں تھا سب بھائی دن بھر اپنے کاموں پر ہوتے، رات گئے آ کر ماں کے پاس حاضری لگاتے اور اپنے اپنے کمروں میں دروازے کے کنٹیاں چھا کر سو جاتے۔ دن میں بھابیاں وقت پر کھانا دینے کو بہت خدمت سمجھتی، دوگھڑی بیٹھ کر مزاج پرسی کا وقت نہیں ہوتا تھا ان کے پاس۔

بھائی کا صبح ہی صبح فون آیا ”ماں آج گر گئیں ہیں انھیں دیکھنے آجانا، اور سمجھانا بھی کہ آدھی رات میں اکیلے واش روم کے لئے کیوں جاتی ہیں کسی کو آواز دے لیا کریں“ ۔

بھائی کی یہ بات کتنی احمقانہ تھی جب سب ہی کمرے بند کر کے سو جائیں گے تو آواز دی بھی ہوتو کسی نے کہاں سنی ہوگی، یہ سوچ کر وہ بے تحاشا روئی اس نے فیصلہ کیا کہ اب کے وہ اپنی ضعیف ماں کو اپنے ساتھ لے کر آئے گی۔

بڑی بھابی اس کی خواہش سن کر چیخ پڑیں ”کیا پاگل ہو گئی ہو دنیا کیا کہے گی ہم دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے جو بیٹی کے گھر بھیج دیا“ ۔ چھوٹی بھابی کیسے چپ رہتی تنتناتی ہوئی آئیں اسے ہاتھ سے ایک طرف بٹھایا اور بولیں ”دیکھو بی بی اپنے گھر تک محدود رہو آؤ، بیٹھو، حال احوال پوچھو کچھ خدمت کرنا چاہو کرو اور پھر اپنے گھر کی راہ لو، ہمارے گھر کے معاملے میں ٹانگ مت اڑاؤ۔ ہم بال بچے دار ہیں دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے، کل ہم نے اپنی بچیاں بیاہنی ہیں، ان کے سسرال کو کیا جواب دیں گے کہ ہم نے اپنی ساس کو گھر سے نکال دیا“ ۔ بڑی بھابی اپنے شوہر کو گھورتی ہوئی اس سے مخاطب ہوئیں، ”اتنے گئے گزرے نہیں ہوئے ہیں کہ داماد کے ٹکڑوں پر چھوڑ دیں ماں کو ، تمہیں آنا ہے سو مرتبہ آؤ لیکن ماں کو ساتھ لے جانے کا خیال دل سے نکال دو ۔“

بھائیوں نے اپنی بیویوں کے تیور دیکھے تو گھر کا ماحول خراب ہونے سے بچانے کے لئے بات کو یہیں ختم کروا دیا۔ وہ ایک دن اپنی ماں کے پاس رکی، باورچی خانے میں دو چار کھانے اپنی ماں کے لئے بنا کر رکھ دیے، رات میں ان کی ٹانگیں دبائیں، گرم تیل سے مالش کی، بیچ رات میں ہلکی سی آہٹ پر آنکھ کھل گئی دو ایک دفعہ انہیں بیت الخلاء لے کر گئی۔

اگلے دن شام کو واپس اپنے گھر آ گئی، گھر آتے ہی شوہر کا سوجا منہ دیکھنے کو ملا، چونکہ اس مرتبہ جلدی میں گئی تھی سو کچھ پکا کر نا جا سکی، کھانا نہیں ملا تو شوہر صاحب منہ بھلا کر بیٹھ گئے۔

رات بستر پر لیٹی تو دل بہت اداس و پریشان تھا کتنی بے بس ہے عورت چاہتے ہوئے بھی اپنے ماں باپ کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی ان کی خدمت نہیں کر سکتی کاش! ایسا کوئی قانون ہوتا کہ بوڑھے ماں باپ بیٹیوں کے پاس آ جاتے کاش! وہ انہیں اپنے پاس لا سکتی، یہ سوچ اور اس کے آنسو کی دھارا بہتے چلے گئے وہ کب سوئی اسے اندازہ نہیں ہوا۔

اسے آئے دو ہی دن ہوئے تھے کہ صبح بھائی نے ماں کے انتقال کی خبر دی ماں رات واش روم میں گر گئیں واش بیسن سے بری طرح سر ٹکرانے پر وہ وہیں گر گئیں خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا، صبح جب ان کے کمرے میں گئے تو انہیں کمرے میں نہ پا کر انہیں واش روم میں مردہ حالت میں پایا۔ وہ دھاڑیں مار مار کر روئی اس پر وحشت طاری ہونے لگی اس کا دل چاہا کہ وہ اپنے شوہر سمیت اس پورے معاشرے کا منہ نوچ لے۔ کاش! کاش وہ ایسا کر پاتی اس بے حس معاشرے کو چیخ چیخ کر بتاتی اس کی ماں کی موت ایک قتل ہے جس کا ذمہ دار یہ پورا معاشرہ ہے۔ جو بوڑھے اور ضعیف ماں باپ کو بیٹی کے گھر رہنا گناہ سمجھتا ہے۔ وہ گلا بھاڑ بھاڑ کر روئی اسے کتنی بڑی نعمت سے محروم کر دیا گیا۔

یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے!

آنسوؤں کی ایک لہر اس کی زندگی کے دکھ بھرے نقوش اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ جیسے لہریں دبیز ریت پر اس کے نقش پا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments