یہ ہیں وہ کارکردگی والے وزراء


پہلے تو یہ بتانا ہے کہ وزراء کی کارکردگی جانچنے اور انہیں ایوارڈ دینے کے لئے منتخب کرنے کی ذمہ داری اس ارباب شہزاد کو سونپی گئی جو ایک ٹاک شو میں اس سوال کا جواب بھی نہ دے سکا کہ کارکردگی جانچنے کا پیمانہ کیا تھا؟

یہ وہی ارباب شہزاد ہیں جس نے پشاور کے ایک ادارے کی سربراہی پر انتظامی تجربے سے نابلد ایک بابو ٹائپ افسر کو شدید تحفظات کے باوجود بھی محض اسی لئے گزشتہ ساڑھے تین سال سے تعینات کر رکھا ہے کہ ارباب شہزاد کے نوکروں گن مینوں عزیزوں اور رشتہ داروں کا بوجھ ان کے کندھوں پر نہ رہے۔ (سالہا سال سے تعینات اس افسر کے حوالے سے مناسب وقت پر کسی اور کالم میں تفصیل سے لکھوں گا.)

ظاہر ہے کہ اسی ارباب شہزاد کو کارکردگی جانچنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی تو پھر انتخاب بھی وہی ہو گا جو وہ کرتا رہا ہے

اور اس کا تازہ شاہکار کارکردگی کے سلسلے میں وزراء کا انتخاب ہے۔ اسی لئے ان وزراء کی ”اعلی کارکردگی“ کے بارے بات کرنے میں حرج کیا ہے۔

پہلا انعام پانے والے وزیر مراد سعید کے حوالے سے کم از کم میں اس لہجے میں ہرگز بات نہیں کروں گا جو لہجہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے اپنا رکھا ہے کیونکہ اس طرح کی گفتگو کرنا نہ تو میری تربیت ہے اور نہ ہی مزاج! لیکن ٹھوس حقائق پر بات ہوگی اور ضرور ہوگی۔ مراد سعید کی وزارت مواصلات میں ساڑھے سات ارب کرپشن کا الزام میں نے یا آپ نے نہیں بلکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لگایا۔ سی پیک اور موٹر ویز وزرات مواصلات کے ماتحت ہیں لیکن بتایا جائے کہ ان دو پراجیکٹس میں کون سا میگا منصوبہ تکمیل کو پہنچا؟ ہزارہ موٹر وے نواز شریف حکومت کا منصوبہ تھا اور % 80 کام اسی حکومت میں مکمل بھی ہو چکا تھا جبکہ سوات ایکسپریس وے گزشتہ صوبائی حکومت کا وہ منصوبہ تھا جس کا معاہدہ صوبائی حکومت نے ایف ڈبلیو او کے ساتھ کیا تھا۔

لیکن یاد رہے کہ سوات ایکسپریس وے کی کوالٹی اور معیار پر شدید اعتراضات بھی اٹھائے گئے ہیں اور یہاں تک رپورٹ ہوا ہے کہ یہ پراجیکٹ ان دوسرے پراجیکٹس کی نسبت انتہائی کم تر درجے کا ہے جو پراجیکٹس سی پیک کا حصہ ہیں۔

اسی طرح ڈی آئی خان اسلام آباد موٹر وے پراجیکٹ کا % 80 کام پچھلی حکومت مکمل کر چکا تھا لیکن بقیہ تیس فیصد کام تین سال تک رکا رہا کیونکہ حکومت یعنی مراد سعید کی وزارت مواصلات فنڈنگ کا بندوبست کرنے میں ناکام رہی۔

ٹیلی فون اور ڈاک کے محکمے جدید دور اور ڈیجیٹل ترقی کے سبب اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں سو ان کی ضرورت نہیں رہی تو ترقی کیا ہو گی۔ پھر بتایا جائے کہ مراد سعید صاحب کو پہلا انعام کس کارکردگی پر دیا گیا؟
دوسرے انعام کے حقدار اسد عمر ٹھہرے لیکن سوال یہ ہے کہ کارکردگی کون سی تھی۔ کیونکہ معاشی بربادی کی بنیاد انہی کے ہاتھوں رکھی گئی تھی جسے بعد میں حفیظ شیخ اور شوکت ترین نے ”آگے بڑھایا“ اور ملک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ رہی اسد عمر کی موجودہ وزارت تو کون سی پلاننگ کامیاب ہوئی؟ سی پیک جیسا عظیم منصوبہ حالت نزع میں ہے اور گندم پہلے ایکسپورٹ کرتے ہیں اور پھر یوکرائن سے خراب معیار کا گندم دوبارہ مہنگے داموں خریدتے بھی ہیں۔ اسد عمر کو انعام دینے سے پہلے احسن اقبال کے وژن دو ہزار پچیس کا تھوڑا سا مطالعہ بھی کروانا چاہیے تھا۔

تیسری انعام کی حقدار ثانیہ نشتر یقیناً بہت فعال ہیں لیکن احساس پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا تسلسل ہی ہے تاہم صحت کارڈ کے حوالے سے عوامی تحفظات کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ اگر صرف پروگرام کو ہیڈ کرنا ہی معیار ہے تو پھر فرزانہ راجہ بھی انعام کی حقدار ہے جو پہلے اس پروگرام کو ہیڈ کرتی رہی۔

شفقت محمود کی وزارت تعلیم کے دور میں پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں تعلیمی ادارے سب سے زیادہ بندش کا شکار رہے۔ کرونا وبا بے شک ایک حقیقت ہے لیکن کیا متبادل انتظامات اس قابل تھے کہ اس پر انعام دیا جائے۔ اور تو اور وزارت تعلیم ایجوکیشن مافیا کو وبا کے دوران بھی لوٹ مار سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آیا۔

شیریں مزاری بھی انعام کی مستحق ٹھہری لیکن اس کی وزارت انسانی حقوق کے حوالے سے ایک چھوٹی سی مثال دے دوں

پشاور میں وفاقی حکومت کے ماتحت ایک محکمے کی دو مجبور لیکن باکردار خواتین بعض جنسی درندوں کی ہراسانی کا شکار ہوئیں تو انہوں نے فیڈرل اومبڈز پرسن سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سے ڈائریکٹ بھی رابطہ کیا اور انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور ملزموں کی نشاندہی کے بارے آگاہ کیا۔ جس پر وزیر صاحبہ نے نوٹس لینے کا وعدہ کیا۔ نوٹس لینا اور کارروائی کرنا تو درکنار الٹا ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نوکری سے برطرف ہو گئی اور دوسری بے چاری ایک سال سے عدالتوں کے دھکے کھاتی پھرتی ہے۔ اس شاندار کارکردگی والی وزیر (شیریں مزاری ) کو بھی ”کارکردگی“ پر پانچواں انعام ملا۔
چھٹا انعام صنعت کے وزیر خسرو بختیار کو ملا۔ سو اس پر کیا بات کریں؟ کیونکہ لوگ خسرو کی دیانت سے بھی واقف ہیں اور اس کے زیر سایہ دن دوگنی رات چوگنی ”ترقی کی جانب گامزن“ صنعت سے بھی۔ سو اس پر بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں اس لئے آگے بڑھتے ہیں۔

معید یوسف کی وہ قومی سلامتی کی وزارت ساتواں انعام لے اڑی جس کے ہوتے ہوئے افغان فورسز بارڈر پر لگی باڑ بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور حکومت میں شامل افراد قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے حوالے سے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ادارہ کسی ایک ”آدمی“ کی مرضی سے نہیں چلتا۔

مہمند ڈیم کا ٹھیکہ اپنی فرم کے لئے حاصل کرنے والا وزیر تجارت رزاق داؤد شاید اسی ”کارکردگی“ کی بنیاد پر آٹھویں انعام کا مستحق ٹھہرا ورنہ وزارت تجارت کا حال تو یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کا اپنا بیان ریکارڈ پر ہے کہ تجارتی خسارہ گیارہ ارب سے بڑھ چکا ہے اور ہمیں دگنے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔

یادش بخیر! شیخ رشید اور ان کی وزارت داخلہ بھی دربار سے خلعت و انعام پا گئے۔ اسی وزارت داخلہ کی کارکردگی کے سبب نہ صرف دہشت گرد کراچی سے لاہور تک پھیل گئے اور ”کامیاب“ کارروائیاں کی بلکہ بلوچستان آگ اگل رہا ہے اور وطن کی حفاظت پر مامور جوانوں کی لاشوں پر آئے روز مائیں بین کر رہی ہیں۔ اسی وزارت داخلہ کی کارکردگی تھی کہ تحریک لبیک والے پنجاب کی سڑکوں پر پولیس والوں کو سرعام پھڑکا رہے تھے اور حکومت معاملات سے آگاہ تک نہ تھی۔ طرفہ تماشا دیکھیں کہ وہ مفتی منیب الرحمن مذاکرات کر رہا تھا جو سرے سے حکومت کا نمائندہ ہی نہ تھا۔

وزارت فوڈ سیکیورٹی کو دسواں انعام ملا تو ایک دل جلے نے تبصرہ کیا کہ بغیر سیکورٹی کے ہی سہی لیکن صرف فوڈ تو مہیا کریں۔

سال بھر پہلے وزیراعظم عمران خان صاحب نے میڈیا کو بتایا تھا کہ زرعی زمینیں بچانے کے لئے ہم ایک بڑا منصوبہ لے کر آرہے ہیں۔ اور پھر وہ ”بڑا منصوبہ“ راوی اربن منصوبے کی شکل میں سامنے آیا۔ اندازہ لگائیں کہ لاہور کی چالیس کلومیٹر زرعی زمین اس ہاؤسنگ سکیم کی نذر ہو جائے گی۔

اس کے علاوہ حکومت کم از کم پانچ ایسے زرعی تحقیقاتی اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے جو منافع میں جا رہے ہیں ان میں ایک تحقیقاتی ادارہ سو سال پرانا ہے جس نے دنیا کا بہترین باسمتی چاول متعارف کروایا تھا۔ گویا یہ وزارت فوڈ کو سیکیورٹی دینے میں ہر حوالے سے ناکام نظر آیا لیکن انعام لینے میں کامیاب ٹھہرا۔

کیونکہ یہ عمران خان کی حکومت ہے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ خان صاب کے جانچنے کے پیمانے اور معیار الگ ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو شاہ محمود قریشی کی وزارت خارجہ اور پرویز خٹک کی وزارت دفاع کو نالائقوں کی جانب دھکیل دیا کیونکہ ان وزارتوں سے خان صاحب کا ”کیا لینا دینا“

امیج خراب ہوتا ہے تو ہونے دیں۔ عمران خان نے تو بارہا کہا تھا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments