ہندوستان کی مسکان اور پاکستان کی بیٹی کارلا


میں نے سنا ہے کہ ہندوستان کی لڑکی پر پاکستان کی لاکھوں عورتوں کو وار دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ باتیں وہی کر رہے ہیں جو پاکستان میں لڑکیوں کو ویسے ہی ہراساں کرتے ہیں جیسے ہندوستان کے انتہا پسند نے مسکان کو کیا، وہ بھی اپنے عقائد کی بنیاد پر۔ ابھی ملالہ کے والد کی ٹویٹ پر ایک نوجوان یہ کہتا ہوا پایا گیا کہ مسکان کی ایک دن کی زندگی ملالہ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اجی سن لیں، جیسے ان انتہا پسند لڑکوں کو ملالہ یا عورت مارچ کی خواتین نے بھیجا تھا۔ مسکان، جس کی امیدیں ہندوستان اور اس کے آئین سے وابستہ ہیں جس آئین کو نہ تو توڑا گیا ہے نہ کسی نے اس میں مسکان کے مذہب کے لئے ”دوسری“ ترمیم جیسی کوئی ترمیم کر رکھی ہے۔ مسکان کو پاکستان کے ان انتہا پسندوں سے کوئی امید ہے نہ خواہش جو اس پر پاکستان کی عورتوں کو وار دینے پر تیار بیٹھے ہیں۔

مسکان خود یہ کہتی ہے کہ وہ لڑکے نہ تو اس کے کالج کے تھے نہ اس کو اپنے کالج میں کسی سے ڈر تھا۔ مسکان کو آج بھی اپنے وطن ہندوستان سے پیار ہے اور اس نے ایک بار بھی ملالہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے نہ کسی عورت کو۔ مسکان تو آج بھی ہندوستان میں مذہبی رواداری اور مذاہب کی آزادی کی بات کر رہی ہے جو پاکستان میں نہیں ہے اور ہندوستان میں پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کو اس بات پر بھی اعتراض نہیں کہ اس کے ساتھی ہندو مذہب کے پیروکار جیسا بھی مذہبی لباس پہن کر آئیں، اس کو اس سے کوئی واسطہ نہیں، وہ تو بس پڑھنا چاہتی ہے۔

ہندوستان کے انتہا پسندوں کو ہزلیات کہنے والے پاکستانی دراصل خود کو ہزلیات کہہ رہے ہیں، کیونکہ خمیر میں دونوں ملکوں کے مردوں کے وہی پدر شاہی خیالات ہیں اور مذہبی جنونیت ایک سی موجود ہے۔ وہ ہندوستان میں اقلیتوں اور عورتوں کو تنگ کرتے ہیں تو یہ لوگ اپنی ملک میں عورتوں اور اقلیتوں کو معاف نہیں کرتے۔ وہاں ’لو جہاد‘ کو متشدد تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہاں جبری مذہب کی تبدیلی اور شادی کو حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔

کیا ہے نا، ہماری قوم کا المیہ ہے جیسے کہیں کچھ ہوتا ہے اس کا الزام اپنے ملک میں تلاش کرنے پر جت جاتے ہیں۔ یہاں ہی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، عمارتوں کو نذر آتش کرتے ہیں، سڑکوں کو بند کرتے ہیں۔ دوسروں کے برابر اور قابل تو ہو نہیں سکتے کہ ان کو للکارا جائے مگر اپنے گھر کی مٹی اپنے سر میں ڈالنا شروع کر ڈالتے ہیں۔

جس روز، ایک مسلمان لڑکی مسکان پر ہندو انتہا پسند دھاوا بول رہے تھے کہ اس نے ان لڑکوں کی سیاسی پسند کا لباس نہیں پہن رکھا تھا، ٹھیک اسی روز لاہور کی میٹرو بس میں موجود مرد جن کی تعداد تیس سے زیادہ تھی، بس میں سفر کرتی چار لڑکیوں پر اسی طرح چلانا شروع ہو گئے جیسے کرناٹک کے وہ لڑکے مسکان پر چلا رہے تھے۔ عین وہی منظر تھا مگر چلتی بس میں۔ لڑکیوں کی پہنی ہوئی جینز ان کی آنکھوں کو بالکل ویسے ایذا دے رہی تھی جیسے ان لڑکوں کو مسکان کا برقعہ ستا رہا تھا۔

کرناٹک اور میٹرو بس لاہور کے وہ بدمست مرد، اپنی طاقت کے نشے اور خود ساختہ مردانگی برتری کے دروغ میں غرق لڑکیوں کے بدن کی اچھی چھانٹ کر رہے تھے۔ جس طرح مسکان چپ نہیں کی، اللہ کے فضل سے لاہور کی وہ چار لڑکیاں بھی چپ نہیں کی۔ بالکل ویسے نمک پاشی کرتے جواب دیے جس کے وہ مستحق تھے۔ اس ہراسانی جس کو پولیس کے کھاتے میں درج ہونا چاہیے تھا، کسی ایک شخص کو اسے روکنے کی زحمت نہ ہوئی۔ اس کی وجہ وہی تھی جو کرناٹک میں تھی۔

مذہبی جنونیوں کا وہ غرور کہ طاقت ان کی ہے اور سامنے موجود عورت تو ہے ہی کمتر جس کو قانون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہراساں کیا جاسکتا ہے۔ وہ تو بس اب عورتوں کو زبان لگ گئی ہے، بہت سے مواقع پر چپ نہیں کرتی، چاہے وہ مسکان ہو یا میٹرو بس کی چار پاکستانی لڑکیاں۔ جن کو بس سے اترنے کے بعد مردوں نے چڑیلیں ہونے کا لقب دیا۔

”وہ تو لڑکیوں ہی نہیں تھیں“، ایک سے بلند آواز میں کہا۔ جس کے جواب میں بہت سوں نے اثبات میں دیا۔

ارے بھئی، وہ لڑکیاں نہیں تھیں تو ان سے کیوں ان کی قمیضوں اور جینز کے نام پر بد کلامی کر رہے تھے؟ بس میں موجود ایک خاتون نے ان کی قبروں کا نقشہ تک کھینچ دیا جیسے قبروں کے معماری کی اسناد فرشتوں نے ان کو اعزازی طور پر دی ہوں۔

مسکان کو تو دوسرے مذہب کے جنونی تکلیف دے رہے تھے، لاہور میں جو ہمارے پیارے اسلامی ملک کا دل ہے، ریاست کی بس سروس میں مسلمان کس ناتے سے مسلمان لڑکیوں کو ہراساں کر رہے تھے؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں، دن کے اختتام پر، یونیورسٹی کے تھکا دینے والے کاموں کے بعد ، بس میں جہاں آپ کو بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ ملے، وہاں اجنبیوں سے آپ کو بحث کرنا پڑے، جس بحث کے ہر لحظے میں آپ کے ذہن میں وہ تمام خدشات ہوں جو اس قوم کا حالیہ شیوہ ہے؟ مذہب اور بحث! مگر یہاں عورتوں کو ہندوستان کی نفرت میں وار دینے کی باتیں ہوتی ہیں اور بڑے اطمینان سے ہوتی ہیں۔

ٹھیک اسی روز، اسپیڈو بس میں، ایک عدد حضرت بس میں موجود لڑکیوں کو ہراساں کر رہے تھے کہ خدا کی پکڑ میں آئیں گی یہ عورتیں؟ کیوں بھئی، یہ عورتیں کیوں خدا کی پکڑ میں آئیں گی جب آپ جیسے لاکھوں مرد خدا کی پکڑ سے آزاد گھوم رہے ہیں جن کے ہاتھوں اور جسموں پر اب بھی لاکھوں بچے، بچیوں اور عورتوں کے جسموں کی چھاپ ضرور چھپی ہوئی مگر موجود ہوگی جس میں ان کا جنسی استحصال ہوا ہو گا۔

وہ حضرت جن کے مطابق اللہ نے ہم عورتوں پر رحم نہیں کرنا جب بس سے اترے تو ایک ماں بیٹی بس میں سوار ہوئے۔ بیٹی کم عمر تھی، جو کچھ افسردہ تھی کہ پاک فضائیہ کے امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکی کیوں کہ اس کی انگریزی کچھ کمزور تھی۔

”گاؤں کے اسکول کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہوتی نا، اس لئے میں رہ گئی، مگر میں نے محنت بہت کی تھی۔“

” مجھے وضاحت دیتے ہوئے بتانے لگی۔ مجھے ائر فورس بہت پسند ہے مگر بات یہ ہے کہ میں یونیورسٹی بھی نہیں جا سکتی کیونکہ ہم فیس برداشت نہیں کر سکتے۔ میں اگلے سال دوبارہ کوشش کروں گی۔“

میری کارلا سے باتیں ہونے لگی اور میں نے اس کو اپنا رابطہ نمبر دینا چاہا۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا رابطہ نمبر بتاتی، اس لڑکی نے مجھے جیسے یہ بات اطلاع دینے کے طور پر کہی کہ وہ عیسائی ہے۔ میرے لئے یہ بات تو قطعی اہمیت کی حامل نہیں تھی مگر اس کے لئے یہ بتانا اہم تھا کہ کہیں میں یہ سن کر اس سے بات کرنا بند نہ کردوں۔

جس ملک میں ایک کم عمر غیر مسلم لڑکی کو کسی سے گفتگو یا دوستی کرنے کے لئے اپنا مذہبی تعارف پہلے کروانا پڑے، اس ملک کے لوگ ہندوستان کے عمل میں ایک جیسے انتہا پسندوں کے مقابلے میں کیسے کسی بہادر مسکان کی تائید کر سکتے ہیں؟ یہ تو مسکان کی بے توقیری ہے۔

اگر اس ملک کے غیر مسلم برابر شہری ہوا کرتے تو کبھی اپنا تعارف ایک غیر مسلم کے طور پر پہلے ہاتھ نہ کرایا کرتے۔ ہمارے یہاں غیر مسلموں کے لئے اپنا مذہبی تعارف معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ اس ملک میں ہندوستان کے ایک ایک کالج کے مضافات میں برقعے اور حجاب پر پابندی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، وہیں اس ملک میں غیر مسلم لڑکیاں اس قدر عدم تحفظ کا شکار ہیں کہ ان کو گھر سے باہر جانے کے لئے برقعے اور حجاب اوڑھنے پڑ رہے ہیں۔

وہ لڑکی جس نے سر سے پیر تک اس لئے برقعہ اوڑھ رکھا تھا کہ کوئی اس کے غیر مسلم ہونے کو جان کر اس کو کوئی تکلیف نہ دے سکے۔ جس ملک میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں یونیورسٹی کی تعلیم سے اس لئے باز رہیں کہ وہاں جبری مذہب کی تبدیلی عام سی بات ہے، وہاں مسکان کے حجاب کے لئے آواز اٹھانا شرمندگی کا باعث ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments