دلوں کا کوڑا


دھند ہے۔ سردی ہے اور یخ ہوا بھی لیکن گاڑی موٹروے پر رواں ہے۔ موسم چاہے کیسا بھی ہو۔ چھٹیاں ہر خاندان کے لئے تفریح کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی لئے گاڑی میں سوار چاروں مسافر بھی اپنوں سے ملنے اور قدرت کے نظارے دیکھنے چل پڑے ہیں۔

صاحب گاڑی چلانے میں مگن، بچے اپنا کوئی انگریزی گیت سننے میں مشغول اور بیوی دوڑتی بھاگتی سڑک کے ساتھ باہر کے بدلتے مناظر میں گم ہے۔ ساتھ ساتھ شغل، گپ شپ اور ہلکا پھلکا کھانا پینا بھی جاری ہے۔ یک دم ایک بچہ کہتا ہے کہ مما! وہ آگے جانے والی گاڑی دیکھیں۔ ماں حیران ہو کر کہتی ہے کہ کیا خاص بات ہے اس میں؟ اور اسی دوران سامنے دیکھتی ہے۔ تو ایک لینڈ کروزر میں سے جوس، چپس اور پھلوں کے چھلکے سڑک پر گر رہے ہیں۔ اتنی دیر میں بچہ کہتا ہے کہ ممی! یہ تو لینڈ پولیوشن پھیلا رہے ہیں اور ممی کے پاس کہنے کو ایک لفظ نہیں۔

مہینوں گزر گئے اور بات آئی گئی ہو گئی کہ اسی خاتون اور بچے کو کچھ عرصے بعد پھر ایک فیملی ٹرپ پر ساتھ جانے کا موقع ملا۔ خوب مزے کرنے کے بعد سب واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے۔ لگژری بس کی ساتھ والی سیٹ پر بزرگ خاتون کے ہاتھ میں آئس کریم کی تھا۔ کھاتی رہیں، ختم کیا، پھر ٹشو سے اپنا منہ صاف کیا اور کپ، ٹشو سمیت گاڑی سے باہر پھینک دیے۔ بچے نے ماں کو کہا کہ ممی! کیا یہ اچھی بات ہے اور ماں پھر شرمندہ۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ تربیت کیسے ہو؟ خود کو، بچوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ اچھا یا برا کیا ہے؟ غلط اور صحیح کا فرق کیسے ہو؟ گھروں میں ہمارے کہنے پر ہمارے مددگار (ملازم) گھروں کو چمکا کے کوڑا گلی میں رکھ دیتے ہیں۔ ہم اپنی گاڑیوں کو چمکانے کو سڑکوں کو گند کا ڈھیر بناتے ہیں۔ پھر بھی مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔ ملک کی ترقی کا رونا روتے ہیں۔ بے عملی کے ساتھ پروگریس کے بھاشن دیتے ہیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔

بہرحال بات صرف اتنی سمجھنے کا ہے کہ ہماری گلی، محلوں اور سڑکوں پر آنے والا کوڑا ہمارے گھروں اور گاڑیوں کا نہیں بلکہ یہ دلوں کا کوڑا ہے۔ جو جگہ جگہ اڑتا پھرتا اور بدبو پھیلاتا ہے۔ اور اگر دلوں کی صفائی نہ ہوئی تو شاید بہت دیر ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments