روس، یوکرین کشیدگی: ’سرحد پر روسی فوجی تعینات مگر ہم پاکستانی شہری یوکرین نہیں چھوڑیں گے‘

محمد زبیر خان - صحافی


یوکرین کے فوجی کریمیا کے قریب فوجی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں
سرحد پر تعینات یوکرین کے فوجی
یوکرین اور روس کے درمیان بڑھتے تناؤ کے باعث دنیا کے کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کی تجویز دی ہے جبکہ بیشتر ممالک کے سفارتخانوں کی سرگرمیاں بھی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے بلکہ ایک سرکاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی طالبعلم اطمینان اور تسلی کے ساتھ یوکرین میں اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ کورونا کے باعث یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں پاکستانی سفارتخانہ اپنی قونصلر خدمات آن لائن فراہم کر رہا ہے۔

یوکرین کے صدر کہہ چکے ہیں کہ کشیدگی کے اس دور میں لوگوں کا سب سے بڑا دشمن خوف و ہراس ہے مگر دوسری جانب امریکہ، برطانیہ اور جرمنی ان ملکوں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنے شہریوں کو فوراً یوکرین چھوڑنے کا کہا ہے۔

پاکستانیوں کو نہ گھبرانے کا پیغام

یوکرین میں موجود پاکستانی سفیر میجر جنرل (ر) نول اسرائیل کھوکھر نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جو طالبعلم یوکرین میں موجود ہیں وہ اپنی یونیورسٹیوں میں قیام کریں اور تعلیم پر توجہ دیں۔

پیغام میں کہا گیا ہے کہ اگر صورتحال میں تبدیلی آتی ہے تو ’ہم نے تمام انتظامات کیے ہوئے ہیں۔ ہم وقت سے پہلے آپ کو اس بارے میں مطلع کریں گے تاکہ آپ اس کے مطابق ایکشن لے سکیں۔

’اس وقت تک اطمینان رکھیں اور تسلی سے اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔‘ یاد رہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق یوکرین میں لگ بھگ دو ہزار پاکستانی خاندان رہائش پذیر ہیں۔

https://www.facebook.com/PakinUkraine/videos/1064647007445717

اسی طرح پاکستانی سفارتخانے نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے گا۔ ویزا اور پاسپورٹ کی تجدید کے لیے لوگ نادرا کی ویب سائٹ سے رجوع کر سکتے ہیں جبکہ پاسپورٹ اور دیگر قونصلر سہولیات کے لیے سفارتخانہ کا فون نمبر اور ای میل ایڈریس بھی فراہم کیا گیا ہے۔

’یوکرین میں کوئی افراتفری نہیں‘

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افتخار احمد خٹک یوکرین میں رہتے ہیں اور پیشے کے لحاظ سے قانون دان ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یوکرین اور پاکستان کے درمیاں قائم تجارت اور دوستی کے فروغ کی تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ روس کی جانب سے اپنی فوجیں یوکرینی سرحد پر تعینات کرنے کے باوجود یوکرین میں کوئی افراتفری نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹیں اور بازار کھلے ہوئے ہیں، لوگ اپنے معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ’نہ ہی لوگوں کو قیمتیں بڑھنے اور اشیا کی کسی قسم کی قلت کی کوئی شکایت ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہے بلکہ حال ہی میں، میں نے پاکستان سے کچھ کاروباری وفود بلائے ہیں۔ وہ ویزہ ملنے کے فوراً بعد یوکرین پہنچ جائیں گے۔‘

محمد صدیق کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ گذشتہ چار سال سے یوکرین میں کاروبار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’حال ہی میں پاکستان سے میرا تجارتی سامان پہنچا ہے جس کو میں نے وصول کیا اور اب اس کو معمول کے مطابق مارکیٹ کر رہا ہوں۔ میرے کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ میرے خیال میں سب کچھ معمول کے مطابق جاری ہے۔‘

سید کامران شاہ کا تعلق بھی خیبر پختونخوا سے ہے اور وہ یوکرین میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ بلاگر بھی ہیں اور یوکرین میں پاکستانی طالبعلموں سے قریبی رابطے میں رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یوکرین کی تمام یونیورسٹیوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ حاضری مکمل ہے۔ سرحد پر روس کی فوجیں ضرور موجود ہیں مگر تعلیمی اداروں یا عام لوگوں کی زندگی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔‘

سید کامران کہتے ہیں کہ یوکرین میں موجود پاکستانیوں میں بڑی تعداد طالبعلموں کی ہے۔

افتخار احمد خٹک کے مطابق یہ سنہ 2014 نہیں ہے۔ وہ اس صورتحال پر سیاسی تبصرہ کچھ یوں کرتے ہیں کہ ’اب یوکرین کے کسی بھی حصے پر قبضہ کرنا روس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یوکرین کی حکومت اور فوج مکمل تیار ہیں۔ عوام بہت باشعور اور محب وطن ہیں۔ وہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ روس یوکرین میں داخل ہو گا تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کی حکومت اور فوج ہر طرح کے حالات سے لڑ سکتے ہیں۔ ’عوام اور یوکرین میں موجود پاکستانیوں کو یوکرین کی حکومت اور فوج پر اعتماد ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے مفادات کا مکمل تحفظ ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

روس یوکرین تنازع: روس ’معلومات کی جنگ‘ میں سبقت حاصل کرنے کے لیے کیا حربے استعمال کر رہا ہے؟

یوکرین تنازعے پر امریکہ کا ساتھ دیا جائے یا روس کا، انڈیا مخمصے میں

قدیم روس کا وہ خوبصورت ’ولادیمیر‘ جو جنگ کی بات ہی نہیں کرتا

یوکرین روس تنازع: یوکرین کے بحران سے چین کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

اُن کے مطابق یوکرین میں موجود پاکستانی کمیونٹی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ’موجود حالات پر ہماری بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ہم سب کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ مختلف ممالک کے شہریوں کے واپس جانے کی اطلاعات کے باوجود بھی پاکستانی واپس نہیں جائیں گے۔‘

محمد صدیق کہتے ہیں کہ ’میں اپنے خاندان کے ہمراہ یوکرین میں موجود ہوں۔ خاندان سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم یوکرین کو کسی بھی صورت میں چھوڑ کر واپس نہیں جائیں گے۔ اپنے پاکستانیوں کے ساتھ تقریباً روز ہی رابطہ ہوتا ہے۔ ابھی تک میرے پاس ایسی کوئی اطلاعات نہیں ہیں کہ کسی پاکستانی نے حالیہ کشیدگی کے باعث پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کیا ہو۔‘

سید کامران شاہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں یونیورسٹیوں اور پاکستانی سفارتخانے نے کہا ہے کہ ہم معمول کے مطابق اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ تعلیم کا سلسلہ نہیں رُکے گا۔ ہمیں یونیورسٹیوں اور پاکستانی سفارتخانے نے کہا ہے کہ وہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی حالات خراب نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا یہاں کئی پاکستانی میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ’یہ آن لائن ممکن نہیں ہے۔ یہاں ہمیں مقامی طور پر بہت مدد حاصل ہے۔ پاکستانی طالب علموں کی آپس میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اس میں ابھی تک تو تمام طالبعلموں کا یہ ہی فیصلہ ہے کہ وہ یوکرین نہیں چھوڑیں گے۔‘

’دل نہیں مانتا‘

افتخار احمد خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان میں اُن کے گھر بار، بہن بھائی ہیں۔ ’ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم پاکستان نہیں جا سکتے مگر ان حالات کے اندر ہمارا دل نہیں مانتا کہ یوکرین کو چھوڑ کر جائیں۔‘

’اس ملک میں ہمیں پیار، عزت اور روزگار ملا ہے۔ ان مشکل حالات میں یہ ملک چھوڑنے کے لیے ضمیر تیار نہیں ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ ’جنگ ہو گی۔ یہ ہو گا وہ ہو گا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یوکرین میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ جنگ نہیں ہو گی۔ روس اپنے کچھ او ر مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ عالمی طاقتوں کا اپنا ایجنڈا ہے۔ مگر یہ حالات کسی جنگ کے لیے موزوں نہیں۔ وہ بھی اس صورت میں کہ سب کو پتا ہے کہ اب کی بار یوکرین بھی تیار ہے۔‘

محمد صدیق کہتے ہیں کہ یوکرین بہت خوبصورت ملک ہے۔ ’یہاں شخصی آزادی اور انسانی حقوق کی بہت اچھی صورتحال ہے۔ ہمارے لیے حالات بھی بہت اچھے ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی بن چکے ہیں۔ اب اگر ان حالات میں ان کو چھوڑیں گے تو یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ اس لیے ہمارا یوکرین چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

سید کامران شاہ بھی کہتے ہیں کہ مقامی طالبعلم ان کے دوست بن چکے ہیں۔ ’دوستوں سے اس طرح کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ ویسے بھی ہمیں یونیورسٹیوں اور پھر پاکستانی سفارتخانے نے مکمل تحفظ کا یقین دلایا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جب تک ہمیں یونیورسٹیاں اور پاکستانی سفارت خانہ نہیں کہے گا، اس وقت تک یوکرین نہیں چھوڑیں گے۔‘

تنازع کی ابتدا کیوں اور کیسے ہوئی؟

روس اور یوکرین میں تازہ کشیدگی کی ابتدا اکتوبر 2021 میں اس وقت ہوئی تھی جب روس نے یوکرین کی سرحد پر اپنی افواج کو بڑی تعداد میں تعینات کرنا شروع کیا تھا۔

انٹیلیجینس اور سیٹلائیٹ رپورٹس کے مطابق اس وقت یوکرین کی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں روس کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔

روس کی وزارتِ دفاع نے حالیہ دنوں میں ان علاقوں میں کی گئی فوجی مشقوں کی فوٹیج بھی جاری کی ہے۔ یوکرین نے اپنی سرحد کے ساتھ روسی فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے، اگرچہ یوکرین کی حکومت نے پرزور انداز میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے یا فوجی ایکشن لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

روس کا یہ کہنا ہے کہ سرحد کے پاس ان کی فوجی موجودگی یوکرین کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہے اور یہ کہ یہ روس کا حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنی افواج کو جہاں مرضی تعینات کرے۔

دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ سرد جنگ کے بعد یوکرین کی سرحد پر یہ سب سے بڑی فوجی موجودگی ہے۔

لندن میں واقع تھنک ٹینک ‘یوکرین فورم’ کے سربراہ اورسیا لوٹسووچ کے مطابق ‘یوکرین اپنی سلامتی کو مضبوط بنانا چاہتا ہے کیونکہ وہ نہ صرف اپنی سرحد پر بلکہ یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں روس کی فوجی موجودگی کی وجہ سے کافی دباؤ کا شکار ہے۔’

اورسیا لوٹسووچ کے مطابق یوکرین اس دباؤ کو کم کرنے کا ایک حل نیٹو کے ساتھ اجتماعی اتحاد کے ذریعے ممکن ہے۔

دوسری جانب ماسکو میں واقع ‘انسٹیٹیوٹ آف یورپ’ سے منسلک الینا انینیوا کہتی ہیں ’روس کی افواج اپنی سرزمین پر موجود ہیں۔ امریکہ بالکل بھی یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی ملک امریکہ کو بتائے کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنے فوجی کہاں کہاں تعینات کرے۔دوسرے ممالک کے حوالے سے بھی سب کا رویہ یہی ہونا چاہیے یعنی کسی بھی ملک کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے۔‘

’لیکن روس کی نظر سے دیکھا جائے تو انھیں سب سے بڑا خطرہ یوکرین کے نیٹو اتحاد میں شمولیت سے ہے کیونکہ روس کے مطابق ایسا ہونے سے نیٹو اتحاد کا انفراسٹرکچر روس کے قریب تر آ جائے۔‘

یوکرین، روس سرحدی کشیدگی کے بیچ نیٹو اور روس میں سفارتی اختلافات بھی بڑھ رہے ہیں۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے مطابق ’مشرق کی جانب نیٹو کی مزید توسیع اور ہتھیاروں کی تعیناتی روسی فیڈریشن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔‘

روس نیٹو کی ممکنہ توسیع کے خلاف ہے اور وہ چاہتا ہے کہ نیٹو روس کو یہ ضمانت دے کہ وہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کرے گا۔ یہ وہی رائے ہے جس سے چین بھی روس سے متفق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments