مذہبی شدت پسندی کو روکا جا سکتا ہے


میاں چنوں میں ہونے والے واقعہ، جس میں ایک ذہنی معذور کو توہین مذہب کے الزام میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا، کے بعد ایک بار پھر وہی باتیں طوطے کی طرح دوہرائی جانے لگی ہیں جو اس طرح کے ہر واقعہ کے بعد دوہرائی جاتی ہیں مگر عملی طور پہ کوئی ایک اقدام بھی نہیں کیا جاتا۔ اس سلسلے میں آخر کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے حالات اور وجوہات کا مختصر تجزیہ ضروری ہے۔

پاکستان کے عوام مذہب سے عقیدت رکھتے ہیں اور بدقسمتی سے عوام کی اسی عقیدت کو شاطر اذہان اپنے مفادات کیے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج شدت پسندی کے واقعات گزشتہ ادوار کی نسبت مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق 1947 سے لے کر 2021 تقریباً چودہ سو توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے۔ ان میں سے تقریباً بارہ سو مقدمات صرف گزشتہ دس سال میں لگائے گئے۔ کیا پاکستانی قوم وقت کے ساتھ زیادہ گستاخ ہو گئی ہے؟ بالکل نہیں! ہاں زیادہ شدت پسند ضرور ہوئی ہے۔

عوام کچھ بڑے مقدمات کو جانتے ہیں جن میں ملزم جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جب کہ دوسرے مقدمات کی تفصیلات عام طور پہ سامنے نہیں آتیں۔

شدت پسندی کے اس رجحان کا نشانہ ہر طبقے کے افراد بن چکے ہیں۔ ایک سابق وزیر پر فائر کیا گیا، سیاہی پھینکی گئی۔ کافر اور گستاخ کے نعرے تو عام سی بات ہے۔ ٹی وی اینکرز کو سکرین سے ہٹنا پڑا۔ اداکاروں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ حتیٰ کہ مذہبی مبلغین پہ بھی الزامات لگے۔ مرحوم جنید جمشید پہ ائر پورٹ پہ حملہ ہو گیا تھا۔ غریب مسیح جوڑے کو جلا دیا گیا اور آسیہ مسیح کی جان تو بچ گئی مگر اس کی حمایت کرنے پر سابق گورنر کو جان دینی پڑی۔

یہ الزامات کس طرح لگائے جاتے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے صرف مذہب نہیں بلکہ جائیداد، انا کے جھگڑوں اور سیاسی مفادات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔

توہین مذہب کے جواب میں عوام کی جانب سے ردعمل کے دو طریقہ ہائے کار سامنے آئے ہیں۔
پہلے طریقے میں ہجوم اکٹھا ہو کر کارروائی کرتا ہے اور توہین کے مبینہ ملزمان کو جان سے مار دیتا ہے۔

دوسرے طریقہ میں افراد نے مبینہ ملزمان پہ حملے کیے، زخمی کر دیا یا جان سے مار دیا اور اس کے بعد فخر کے ساتھ اپنے عمل کی ذمہ داری لی۔ بعد میں عوام، حتیٰ کہ پولیس بھی حملہ آور افراد کو گلوریفائی کرتی دیکھے گئے۔

ہجوم کے انصاف کے رجحان کی بڑی وجوہات میں مذہبی تصورات، سماجی فرسٹریشن، غربت اور نا انصافی کے خلاف ردعمل اور تعلیم کا نہ ہونا یا غلط تعلیم کا ہونا شامل ہیں۔ ان سب وجوہات کے اوپر ہجوم کے لیڈر ہوتے ہیں جن کے سیاسی یا معاشی عزائم ہوتے ہیں۔

جب کہ افراد کے قاتلانہ حملوں کی بڑی وجہ عموماً مذہبی تصورات ہوتے ہیں۔

مذہب سے محبت فطری ہے مگر موجودہ مذہبی شدت پسند جذبات فطری ہر گز نہیں بلکہ مخصوص طریقہ تعلیم کا نتیجہ ہیں۔ اور جو جذبات کسی طریقہ تعلیم کا نتیجہ ہوں ان کو تعلیم ہی کے ذریعے سے بدلا جا سکتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ کام صرف ریاست اور حکومت کر سکتی ہے کسی اور کے بس میں نہیں۔

اگر کوئی سنجیدہ ہو تو درج ذیل چند اقدامات ایسے ہیں جو بہت جلد ملک کے حالات بدل سکتے ہیں۔

1۔ سب سے پہلے ریاست اور سیاست کے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ عوام کے مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ سستے نعرے لگوانے کی خاطر جذباتی استحصال نہیں کریں گے۔

2۔ ہر مکتبہ فکر کے علماء کو جمع کر کے توہین مذہب کی تعریف کی جائے۔ اس کی وضاحت میں یوں کروں گا کہ ایک بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ کا موقف یہ ہے کہ توہین یہ ہو گی کہ کوئی فرد ایک توہین آمیز عمل ہوش و حواس میں کرے، اور اس پر اصرار کرے، یا باقاعدہ تحریر کی شکل میں یا الیکٹرانک ڈیوائس میں ایسا عمل ریکارڈ کرے اور اصرار کرے۔ اسے رجوع کا موقع دیا جائے اور وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائے۔

بہت سارے بڑے علماء، مذکورہ عالم دین کی حمایت کرتے ہیں اور کچھ تو وقتاً فوقتاً اظہار خیال بھی کرتے رہتے ہیں۔

حکومت ان سب علماء کا متفقہ فیصلہ حاصل کر کے بیانیہ بنا سکتی ہے یہ بالکل مشکل کام نہیں۔

3۔ اگلے درجے کے طور پہ اس بیانیہ کو میڈیا کی نشریات، علماء کی تقاریر اور تعلیمی اداروں کی اسمبلی تقاریر کا حصہ بنایا جائے۔ اور یہ عمل ایمرجنسی کے طور پہ اپنایا جائے اور مستقل تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔

4۔ متفقہ بیانیے میں توہین کا الزام لگا کر حملہ کرنے والوں کی گلوریفیکیشن کی ممانعت کو خاص جگہ دی جائے کیوں کہ نوجوان ہیرو ازم کے چکر میں بھی حملے کا قدم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح ملوث افراد کو جلد اور کڑی سزا دی جانی چاہیے۔ اور اس سزا کی مناسب تشہیر بھی ضروری ہے۔

مذکورہ چار نکات کے لیے صرف نیت اور عزم چاہیے اور ان پہ عمل ہو سکتا ہے۔
اس سے آگے البتہ ذرا مشکل کام ہیں۔ مگر مستقل بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اور درجہ بدرجہ کیے جا سکتے ہیں۔

5۔ تعلیمی نصاب میں تمام مذہبی مواد اسلامیات لازمی میں ضم کر دیا جائے اور دوسرے مضامین کو بطور مضامین ہی پڑھایا جائے۔

6۔ میڈیا پہ محض سیاسی و سماجی بحث جیتنے کی خاطر مذہب کے استعمال کی حوصلہ شکنی کا باقاعدہ میکانزم ترتیب دیا جائے۔

7۔ عدالتی اصلاحات کے ذریعے نظام انصاف پہ لوگوں کا اعتبار بحال کیا جائے۔
8۔ سماجی ناہمواریوں کے خاتمے یا کمی کی خاطر اقدامات کیے جائیں۔

9۔ آخری عمل کے طور پہ سب سے مشکل کام وقت کے ساتھ ساتھ مملکت کو dereligionise کرنے کا عمل ہے۔ جو اس وقت تو نا ممکن نظر آتا ہے مگر بتدریج اس پہ عمل، مملکت کی عمر کئی گنا بڑھا دے گا۔ سعودی عرب شاید اسی جانب بڑھ رہا ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایسا کچھ ہو گا بھی سہی؟ مجھے اس بارے ذرا برابر بھی شک نہیں ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ارباب حل و عقد کے درمیان بہت سے ایسے لوگ ہیں جو شدت پسندی کو نظریاتی طور پہ درست سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ درست نہیں سمجھتے ان کی ایک بڑی تعداد شدت پسندی سے سیاسی مفاد اٹھاتی ہے۔ اس کے علاوہ نا اہلی بھی ہمارے ملک کا قومی سطح کا المیہ ہے جس کی بنا پہ بہت کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ جوں ہی کوئی نیا واقعہ ہوتا ہے ہر قسم کے میڈیا پہ بھی اور حکومت کی طرف سے بھی بہت شور شرابا کیا جاتا ہے کہ۔ ”ایسے واقعات کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے“ ۔ ”کسی کو حق نہیں کہ وہ ماورائے عدالت کسی کے خلاف کارروائی کرے“ وغیرہ۔ ٹھیک دو دن بعد نئے ایشوز، نئی سیاست اور نئے موضوعات۔ یہ سائیکل زور و شور سے چل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments