مذہب کے نام پر بربریت


مذہب کے مقدس نام پر جو بربریت اور دہشت گردی سیالکوٹ میں برپا ہوئی تھی اس نے وسیع پیمانے پر رائے عامہ کو متاثر کیا۔ اس ”حساس“ موضوع پر کھل کر بات ہوئی اور دہشت گرد بظاہر بیک فٹ پر جاتے نظر آئے۔ البتہ حکومت، ریاست اور ارباب اختیار نے بھی خود کو صرف تبصرہ نگاری تک محدود رکھا اور کوئی عملی قدم اٹھانے کا ارادہ تک ظاہر نہیں کیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ اندھی اور بے مہار بربریت کا ایک اور اندوہناک واقعہ! لفظ کہیں سے بھی ڈھونڈ ڈھانڈ کر لائے جائیں کبھی اس اذیت کو بیان نہیں کر سکتے جو اینٹوں، پتھروں اور لاٹھیوں کو براہ راست جسم پر لینے سے پہنچتی ہے۔ الا کوئی لکھاری خود اس تجربے سے گزرے اور زندہ بھی بچ نکلے۔ بہرحال آئین سے مضحکہ خیز، عاقبت نا اندیش چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ اس کے سوا کچھ اور برآمد ہوتا تو حیرت کی بات تھی۔

ان واقعات سے صرف نظر بھی کر لیں تو بھی وطن عزیز میں کون سی سیدھی گنگا بہہ رہی ہے۔ نہ سیدھی انگلیوں گھی نکلتا ہے اور نہ سیدھے راستے پر چل کر ”منزل“ ملتی ہے۔ الفاظ و تراکیب کا وہ مفہوم ہر گز نہیں لیا جا سکتا جو کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ کچھ سرمایہ دارانہ نظام نے ہر چیز بکاؤ کر دی ہے اور کچھ ہماری بد عنوان فطرت نے اس کے ساتھ مل کر وہ دو آتشہ تیار کیا ہے کہ کیا ہی کہنے! ہم منہ بھر کر مغرب کو مادہ پرستی کا طعنہ دیتے ہیں مگر اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روند کر مادہ پرستی کا جو ننگا ناچ ہم ناچتے ہیں مغرب ابھی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

ٹھیک ہے بھئی جو مرضی کریں مگر مذہب کو تو بخش دیں۔ عجیب منافق معاشرہ ہے جہاں سب سے موثر ہتھیار ہی مذہب کا ہے۔ اور مذہب بھی کیا؟ صرف ظاہر پرستی۔ آپ مذہبی حلیہ بنا لیں پھر کچھ بھی کرتے پھریں، مجال ہے کوئی آپ کو ہاتھ بھی لگا سکے البتہ آپ کسی پر انگلی اٹھا دیں تو اس کی پھر خیر نہیں۔ مالی فائدے، کاروباری منفعت یا ذاتی رنجش نکالنے کے لیے مذہب کے استعمال کو ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اگر آپ ریاست کے کسی پسندیدہ مذہبی دھڑے سے وابستہ ہیں تو بڑی آسانی سے توہین مذہب کا کارڈ کھیل کر اپنے مخالف کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔ کیا یہ عمل فی ذاتہ توہین مذہب نہیں ہے؟

پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں ڈیجیٹل تسبیح جسے کاؤنٹر بھی کہتے ہیں نئی نئی آئی تھی۔ ہمیں کسی عزیز نے کہلا بھیجا کہ نزدیکی باڑہ مارکیٹ سے دو چار خرید کر بھجوا دو۔ ریٹ کا کچھ اندازہ نہ تھا۔ ایک دکان میں گھسے تو باریش نورانی چہرے والے پختہ عمر دکاندار نے استقبال کیا۔ ماتھے پر محراب، عطر کی خوشبو، شلوار ٹخنوں سے اوپر، شفیق مربیانہ مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے جو ریٹ بتایا وہ تھا چار سو روپے۔ اور یہ کہ ہم تو خدمت کے لیے بیٹھے ہیں۔

اس سے کم پیسوں میں تو ممکن ہی نہیں۔ ہماری تسلی کے لیے تو ان کا حلیہ ہی کافی تھا فوراً پسیج گئے مگر ساتھ موجود کزن نے کہا کسی اور سے بھی پوچھ لیتے ہیں۔ ملحقہ دکان میں داخل ہوئے۔ عام سے حلیے کا ایک نوجوان جس نے کسی مصنوعی گرم جوشی کا مظاہرہ تو نہ کیا البتہ اسی چیز کا جو ریٹ اس نے پہلی بار بغیر بحث تکرار کے اپنے منہ سے بتایا وہ تھا دو سو روپے۔ یعنی لا حول ولا قوۃ۔ ہمارے خیال میں تو یہ توہین مذہب ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

یہ تو ایک سرسری سی مثال تھی ورنہ کہیں بھی چلے جائیں یہی نقشہ نظر آئے گا۔ تاجر حضرات عموماً مذہبی حلیے میں دکھائی دیں گے۔ بازار کی مرکزی مسجد ان کی توجہ کی بدولت خوب پر آسائش ہوتی ہے۔ محافل میلاد اور دیگر مذہبی تہواروں میں نہ صرف بھر پور شرکت کرتے ہیں بلکہ دل کھول کر خرچ بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمرے، حج، رمضان کی افطاریاں، صدقے، فطرانے اور قربانی کا بہترین مہنگا جانور جو چند دن دکان کے سامنے بندھا اپنی چھب دکھاتا اور مذہب سے ان کے لگاؤ پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔

مگر عجیب بات یہ ہے، ہمارے معاشرے میں تو بالکل عجیب نہیں لیکن حقیقت میں عجیب تر کہ اعمال صالحہ کے اس بہتے دھارے میں سے تھوڑا سا حصہ بھی نکل کر اس طرف نہیں جاتا جس کا تعلق روزمرہ کے کاروباری معاملات اور دکان پر آنے والے گاہکوں کے ساتھ ڈیلنگ سے ہے۔ یہاں وہی طریقہ چلتا ہے جو وسیع پیمانے پر پاکستانی بازاروں میں رائج ہے۔ یعنی غلط بیانی کرنا، آسامی دیکھ کر بھاؤ بتانا، کسی گاہک سے کم تو کسی سے زیادہ منافع لینا، مول تول کے دوران قسمیں کھا کر جھوٹی قیمت خرید بتانا وغیرہ۔ کیا یہ کھلا تضاد توہین مذہب کے زمرے میں نہیں آتا؟ خاص کر اس وقت جب آپ مکمل مذہبی حلیے میں ہوں۔

پچھلے دو عشرے دنیا بھر میں دہشت گردی کا بازار گرم رہا۔ عالمی سطح پر جو بڑا واقعہ ہوتا اس میں یا تو سعودی انوالو ہوتے یا کھینچ کھانچ کر کھرا پاکستان میں آ نکلتا۔ ایک بات بے حد کھلتی کہ مغربی میڈیا پر جب دہشت گردوں کے ناموں کی لسٹ پڑھ کر سنائی جاتی تو بیشتر نام محمد سے شروع ہوتے۔ اس طرح لفظ ”محمد“ کی خوب تکرار ہوتی۔ اینکر پہلی بار تو پورا نام لیتے، بعد میں انگریزی قواعد کے مطابق صرف محمد پر اکتفا کرتے کہ محمد نے یہ کیا اور محمد نے وہ کیا وغیرہ۔

ہمیں سن کر بالکل اچھا نہ لگتا۔ سخت کوفت ہوتی لیکن ہمارے وہ ہم وطن جن کا اوڑھنا بچھونا، کاروبار روزگار سب حرمت رسول کے نعرے سے وابستہ ہے انھیں تو کبھی اس پر اعتراض نہ ہوا۔ ہمارے خیال میں تو محمد نام رکھ کر غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر شرعی سرگرمیوں میں ملوث ہو جانا بھی اس نام کی توہین کے ہی مترادف ہے مگر قربان جائیے اہل وطن کی فہم و فراست کے، ان کے نزدیک حرمت صرف لفظوں کی ہے یا کاغذ کے ان ٹکڑوں کی جن پر یہ لفظ لکھے گئے ہوں، معنی اور مفہوم کی کوئی حرمت نہیں۔ سیالکوٹ واقعے کے مجرموں کو ہی لے لیجیے۔ ان لوگوں نے درندگی کا مظاہرہ تو کیا ہی مگر مذہب اسلام کی بے حد و حساب بدنامی کا بھی سبب بنے۔ تو کیا ان پر توہین مذہب کی دفعہ نہیں لگتی؟ مگر یقیناً نہیں لگائی گئی ہو گی۔

ایسے ہی توہین مذہب کے قانون کی تلوار کا اگر درست استعمال کیا جائے تو سب سے پہلے تو ان کے ہی گلے کٹتے ہیں جو اس تلوار کو تھامے ہوئے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جا رہے ہیں۔ مگر کون آئے گا بروئے کار؟ کیا سول سوسائٹی؟ کیا اہل دانش؟ کیا اہل ادب؟ یا اہل سیاست، یا اسٹیبلشمنٹ، یا گز گز کی زبانیں رکھنے والے جرنلسٹ؟ کون مذہب کی اس بے توقیری پر آواز حق بلند کرے گا؟ قانون موجود ہے، لائیں نا ذرا ان کو بھی کٹہرے میں جو مذہب کی لاٹھی کو خواہ مخواہ ادھر ادھر گھما کر اس کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ قانون کا یہ ڈنڈا صرف انھی کو خوش کرنے کے لیے ان کے ہاتھ میں تھمایا گیا ہے، دوسرے اسے استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ وما علینا الا البلاغ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments