کیا رانا تنویر صاحب ایک بار پھر معذرت کریں گے؟


گذشتہ سال 29 دسمبر کو “ہم سب ” پر رانا تنویر صاحب کا ایک کالم “جماعت احمدیہ کے قائد کے اہل خانہ پر ریپ کے الزامات: برطانوی پولیس” کے نام سے شائع ہوا ۔اس میں رانا تنویر صاحب نے تحریر کیا

“برطانیہ کی پولیس جماعت احمدیہ کے سربراہ کے قریبی اہل خانہ پر عصمت دری کے دعووں کی تحقیقات کر رہی ہے ۔ ان افراد میں جماعت احمدیہ کے سربراہ کے قریبی عزیزوں کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ ایک احمدی خاتون کی طرف سے اس کے والد اور جماعت کے عالمی رہنما کے قریبی خاندان کے افراد کی جانب سے ماضی میں ” جنسی زیادتی ” کے الزامات کی لندن پولیس کی جانب سے تحقیقات پر پوری دنیا میں احمدیہ حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔”

اس کے بعد رانا تنویر صاحب نے ان تین افراد کے نام بھی درج کئے جن پر نداء النصر نامی خاتون نے ریپ کا الزام لگایا تھا اور ان کے مطابق ان الزامات پر لندن پولیس تحقیقات کر رہی تھی۔یہ کالم ہم سب کے علاوہ اور بہت سی سائٹس پر بھی شائع ہوا تھا۔ اور اس کے ساتھ ایک آڈیو بھی مختلف یو ٹیوب چینلز پر نشر کی گئی ۔اس خبر پر” ہم سب” پر اور دوسری سائٹس پر مختلف تحریرات سامنے آئیں ۔ اور میں نے بھی اس خبر کے بارے تین کالم لکھے تھے جو ” ہم سب ” شائع ہوئے تھے۔ان میں سے پہلے ہی کالم میں میں نے اس حقیقت کی نشاندہی کی تھی کہ ابھی سے رانا تنویر صاحب اس خبر کے ایک حصہ کے غلط ہونے کے بارے میں معذرت کرنی شروع کر دی ہے۔میں نے لکھا تھا۔

“اس آڈیو کے منظر عام پر آنے اور صحافی رانا تنویر صاحب کی ان تحریروں کی اشاعت کے بعد سب سے پہلے جماعت احمدیہ کے سربراہ کے بھائی کی طرف سے یہ سٹیٹ منٹ سامنے آئی کہ یہ الزامات غلط ہیں اور رانا تنویر صاحب کی تحریروں میں کچھ غلط بیانی بھی شامل ہے اور وہ ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پہلے تو اس کے جواب میں رانا تنویر صاحب نے یہ ٹویٹ کیا کہ جماعت احمدیہ کو چاہیے کہ اپنے بھونکنے والے کتوں کو پٹا ڈالیں اور جو بیان جماعت احمدیہ کے سربراہ کے بھائی کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کا لگتا بھی نہیں ہے اور حقائق کے منافی ہے۔ حقائق پر چیلنج کریں ۔ لیکن ابھی یہ ٹویٹ تازہ تھی کہ 2 جنوری کو ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے یہ ٹویٹ کیا

I am sorry for the mistakes in the story which r now fixed

ترجمہ: میں اس سٹوری میں ہونے والی غلطیوں پر معذرت خواہ ہوں۔جنہیں اب درست کر دیا گیا ہے۔”

اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ الزامات غلط تھے کہ صحیح تھے، جب میں نے اس خبر کی تفصیلات پر تحقیقات شروع کیں تو یہ معلوم ہوا کہ رانا تنویر صاحب کی تحریر میں بہت سی غلطیاں تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی وجہ سے جلدی میں تھے اور انہوں نے کسی تحقیق کے بغیر ہی خبر شائع ہونے کو بھجوا دی ۔ دوسری صورت میں یہ لکھتے ہوئے کچھ اچھا تو نہیں لگے گا کہ انہوں نے دانستہ غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔مثال کے طور پر انہوں ” ہم سب ” پر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ الزام لگانے والی خاتون نداء النصر جماعت احمدیہ کے موجودہ سربراہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔

یہ واضح طور پر غلط تھا ۔ اور یہ دعویٰ صحیح ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ الزام لگانے سے قبل کچھ سال سے نداء النصر کی رہائش پاکستان میں تھی اور جماعت احمدیہ کے سربراہ کی رہائش لندن میں ہے ۔ بہرحال اگر رانا تنویر صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کی خبر توصحیح تھی لیکن وہ لکھتے ہوئے جلدی میں کچھ غلطی کر گئے تو وہ وضاحت فرمائیں کہ گذشتہ دس پندرہ سال میں کب نداء النصر جماعت احمدیہ کے سربراہ کے گھر میں رہائش پذیر رہی تھیں۔ خود نداء النصر نے بھی ایسا کوئی دعویٰ پیش نہیں کیا تھا ۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ خود رانا تنویر صاحب سنسنی پھیلانے کے لئے اس کا اضافہ کیا تھا۔

بہر حال یہ ایک ضمنی بات کی نشاندہی تھی۔ اس کالم کا اصل مقصد قارئین ” ہم سب ” تک یہ خبر پہنچانا ہے کہ خود نداء النصر کی ایک ٹویٹ نے رانا تنویر صاحب کی جاری کردہ خبر کے ایک بڑے حصہ کی تردید کر دی ہے ۔نداء النصر نے 3 فروری کو ایک ٹویٹ نشر کی کہ ایک پولیس تو صرف نداء النصر کے والد کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔ باقی دو افراد جن پر الزام لگایا گیا تھا ان کا معاملہ تو ابھی جماعت احمدیہ کے سربراہ کے ہاتھ میں ہے اور اس بارے میں ان کا دعوی تھا کہ انہوں نے نا قابل تردید ثبوت مہیا کئے ہیں۔

میں یہ عجیب و غریب صورت حال سمجھنے سے قاصر ہوں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا تھا کہ رانا تنویر صاحب نے بڑے وثوق سے یہ شائع کروائی تھی کہ لندن کی پولیس ان تین افراد پر ریپ کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اور یہ تین افراد جماعت احمدیہ کے سربراہ کے قریبی عزیز ہیں۔ اور اب ڈیڑھ دو ماہ بعد خود یہ الزام لگانے والی خاتون یہ اعتراف کر رہی ہے کہ پولیس تو صرف ایک شخص کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یا تو رانا تنویر صاحب کی جاری فرمودہ خبر کہ ایک سے زائد افراد کے بارے میں لندن پولیس تحقیقات کر رہی ہے ،اور انہوں نے ان تین افراد کے نام بھی لکھے تھے ، ان کی اپنی اختراع تھی یا پھر کسی وجہ سے اب نداء النصر نےجان بوجھ کر غلط بیانی کی ہے۔

اس کے علاوہ اس مرحلہ پر نداء النصر کا یہ مطالبہ حیران کن ہے کہ ایک شخص کے بارے میں تو لندن کی پولیس تحقیق کرے اور دو اشخاص کے بارے میں جماعت احمدیہ تحقیقات کرے۔ حالانکہ اس سے قبل نداء النصر کی طرف سےاس ضمن میں جماعت احمدیہ کے عہدیداروں کے بارے میں سخت ترین الزامات لگا ئے گئے تھے اور ان پر ہر طرح عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔ان کا مطالبہ کیا تھا ؟ وہ انہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے۔

1.Instead of silencing victims, allegations of abuse should be properly investigated , and perpetrators punished, not protected.

  1. Community members should be allowed to go to law enforcement for justice without fear of punishment.

یعنی ریپ کا شکار ہونے والوں کو خاموش کرنے کی بجائے ایسے الزامات کی صحیح تحقیقات ہونی ضروری ہیں اور مجرموں کے حفاظت کرنے کی بجائے انہیں سزا ملنی چاہیے۔اور جماعت کے افراد کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ سزا کے خوف کے بغیر انصاف کے حصول کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جائیں۔

اور ظاہر ہے کہ ریپ جیسے جرم کی صحیح تحقیقات تو اس ملک کی پولیس کر سکتی ہے اور اس کی قانونی سزا عدالت ہی دے سکتی ہے۔ کسی مذہبی گروہ کے پاس اس پر تحقیقات کرنے کی سہولیات مہیا نہیں ہو سکتیں۔ اور اس کے بعد نداء النصر کی طرف سے بار بار تین افراد پر ہزاروں مرتبہ ریپ کرنے کا الزام لگایا گیا اور ایک اور فرد پر ریپ کی کوشش کا الزام لگایا گیا ۔لیکن اب یہ ٹویٹ کیا گیا کہ لندن پولیس میں تو صرف ایک شخص کی شکایت درج کی گئی ہے باقی افراد پر جماعت احمدیہ کی طرف سے تحقیقات کی جائیں ۔ اور واضح رہے کہ نداء النصر کی شہریت برطانیہ کی ہے۔ اور اگر کسی برطانوی شہری کا ملک سے باہر ریپ ہو جائے تو وہ اس ملک میں شکایت درج کرنے کے علاوہ برطانیہ میں بھی ایک مقرر کئے گئے دفتر میں اس ریپ کی شکایت درج کرواسکتا ہے۔یا توانہوں نے اپنا سابقہ موقف ترک کردیا ہے یا ان کا مذکورہ بیان درست نہیں۔

اس پس منظر میں مناسب ہوگا اگر رانا تنویر صاحب یہ وضاحت فرمائیں کہ انہوں نے کس بنیاد پر یہ خبر شائع کروائی تھی کہ لندن پولیس ان تین افراد پر ریپ کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جبکہ خود الزام لگانے والے کا دعویٰ ہے کہ لندن پولیس صرف ایک شخص پر الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اگر ان کی خبر غلط تھی تو انہیں باقی افراد سے معذرت کرنی چاہیے کیونکہ اب نداء النصر کی اس ٹویٹ کو نشر ہوئے دو ہفتے گذر چکے ہیں اور رانا تنویر صاحب کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکے۔لیکن بار بار معذرت کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی خبر تحقیق کر کے شائع ہونے کے لئے بھجوائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments