آئی ڈی اور ڈی پی والے شوہر


ہ

آپ نے شوہروں کی بہت سی اقسام سنی اور دیکھی ہوں گی ۔ لیکن جس قسم کے شوہروں کی آج ہم بات کرنے جا رہے ہیں۔ وہ نئی ٹیکنالوجی اور پرانی سوچ کی پیداوار ہیں۔

ہم شروع سے بچوں کی کہانیوں میں پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ ایک شہزادہ آتا ہے اور شہزادی کو آزاد کروا کے لے جاتا۔ کبھی شہزادی کی ماں سوتیلی ہوتی ہے تو کبھی شہزادی کو کوئی جن قید کر دیتا ہے۔ اب یہ منحوس شہزادہ ایسا ہوتا ہے کہ بیک وقت جادو کا توڑ بھی جانتا ہے اور سپہ سالار بھی ہو تا ہے۔ ہار تو اس کے مقدر میں لکھی ہی نہیں ہوتی۔

ان سب کہانیوں میں شہزادی کا کوئی وجود اور کارنامہ نہیں ہو تا سوائے اس کے کہ وہ حسین ہے۔ اب شہزادیاں بنانے کا کام پارلر بھی ٹھیکے پہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ ”حسن اور شہزادے“ کا ہے۔

عین یہی سوچ پروان چڑھ رہی ہوتی ہے کہ شہزادی جوان ہو جاتی ہے۔ اور اس کی شادی ہو جاتی ہے۔ لڑکا اب شہزادہ ہو نہ ہو، لڑکی کو پارلر شہزادی بنا دیتا ہے۔ لڑکی کے توسط سے لڑکا شہزادہ بن جاتا ہے۔

یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ بیاہ کر وہ پیا گھر چلی جاتی ہے۔ کچھ لڑکیوں کے شہزادوں کو آنے میں دیر بھی ہو جاتی ہے۔

لیکن جب وہ بے وقت آتے ہیں۔ لڑکی کی کہانی والی سوچ مزید پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ شہزادے میاں نے آ کر اسے ابا کے گھر سے آزاد کروایا اور ساس کے گھر میں منتقل کر دیا کہ ”بے غم“ بن کر دن کو گھر والوں کی رات کو میری اور میرے بچوں کی خدمت کرو۔ اور خود کو شہزادی بھی سمجھو۔

اب دور کہاں کا کہاں پہنچ گیا۔ موبائل فون ہاتھ میں، اس پہ وٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، ٹیلی گرام، ٹیوٹر، ان لنک تو رب جانے کون کون سے لنک موجود ہیں۔ شہزادی شادی سے پہلے ان لنکس پہ اپنی تصویر بدل بدل کر لگاتی ہے۔ اگر گھر کا ماحول تاب ناک ہے تو کسی اداکارہ کی یا کسی جانور پرندے منظر کی تصویر لگا لیتی ہے۔

لیکن جونہی شادی ہوئی ڈی پی، اور آئی ڈی سب بدل جاتے ہیں۔ نہ شہزادی کی تصویر رہتی ہے نہ کوئی منظر، بس ایک کہانی والا شہزادہ رہ جاتا ہے جس نے نکاح کر کے اس پہ یہ احسان کیا ہوتا ہے کہ اب وہ دوبارہ کنواری نہیں ہو سکتی۔

شہزادہ میاں کو پسند نہیں کہ اس کی شہزادی کی تصویر وٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر پہ لوگ دیکھیں۔ اب ان کی تمنا توحید کی ہے۔ اب وہ شوہر توحید بن چکا ہے۔ تو حکم توحید اور جبر توحید شہزادی کو قبول کر نا ہی ہے۔ بیاہ کے ساتھ آزادی کا جو خواب جڑا ہوا ہے وہ یہی ہے کہ مجازی خدا کی ہر بات مانی جائے۔

خود بھی شہزادی سماجی سوچ کی اتنی ظالم غلام ہے کہ اسے بھی لگتا ہے بس اس شخص کے آنے سے ہی میری تکمیل ہوئی ہے۔

ہیلو شہزادی

تم نے بھی تو اس کی زندگی کی تکمیل کی ہے۔ تم بھی تو اپنی ذات میں مکمل ہو۔ یہ لونڈا کبھی کسی سپیشل لڑکی کو شہزادی بناتا؟ نہیں ناں؟ بہت چالاک شہزادہ ہے۔ تم سے تمہاری ذات چھین کر اپنی ذات کی پہچان تمہاری نسبت سے کروا رہا ہے۔ اور تم نے محبت جان کر اپنے وٹس ایپ پہ، فیس بک پہ اپنی یا کسی پرندے جانور یا منظر کی جگہ اس کا فوٹو لگا دیا ہے۔ یہ تمہاری احساس کمتری کی نشانی بھی ہے، سماج کا ذہنی جبر بھی، اس کی حکمرانی اور غلامی بھی ہے۔

شہزادی محبت میں کوئی غلام یا حکمران نہیں ہو تا۔

سنو شہزادی اتنے منتر پڑھنے کا سبب یہ ہے کہ دیکھو شادی تم نے کی ہے۔ جو شادی سے پاک ہیں ان کو اپنے مجاری خدا کا دیدار کیوں کرواتی ہو۔ روز گڈ مارننگ کا میسج دس جگہ بھیجنا ہو تا ہے۔ روز سٹیٹس لگانا ہوتا ہے۔

تم پہ تو جبر ہے تم نے اپنا شہزادہ دیکھنا ہی ہے لیکن دوسروں کی آنکھوں کے نور کا بیڑا غرق کیوں کر نے کی ٹھان رکھی ہے۔ جو شادی سے پاک ہوتے ہیں اور جب تک ہوتے ہیں تب تک اس کی حس جمالیات اور کمالیات سلامت ہوتی ہیں۔ ان پہ تمہارا یہ نیم چڑھا لنگور گراں گزرتا ہے۔ جس طرح وہ تم کو وٹس ایپ۔ فیس بک پہ پردہ کرواتا ہے تمہاری اخلاقیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تم اس کے پردے کا خاص خیال رکھو۔ دیکھو جب خدا پردے میں ہے مجازی خدا کو بھی پردے میں رکھو۔

تحریم عظیم نے اس حوالے سے فرمایا ہے ”خواتین کا بس نہیں چلتا کہ اپنا آپ شوہر میں سمو لیں۔ پہلے تو نام بدل لیں گی۔ پھر اپنی تصاویر ہٹا دیں گی اور پھر اپنے ’ان‘ کی تصاویر اپنی ڈی پی اور وال پر لگا دیں گی۔ بہن کتنا دیکھیں تمہارا شوہر۔ تمہیں ہو گا پسند۔ ہمارا تو اس کی شکل دیکھ کر دل ہی خراب ہوتا ہے۔ کچھ تو ہم پر رحم کھاؤ اور اپنا نمونہ اپنے تک ہی محدود رکھو ”

روبینہ فیصل لکھتیں ہیں ”میں تو اپنی اور فیصل کی تصویر بھی نہیں لگاتی کہ ہمارا کون سا مشترکہ اکاؤنٹ ہے“

اکاؤنٹ والی بات سے شاید شہزادیوں کو دوسروں کی آنکھوں کا درد محسوس ہو۔ آپ اپنے بچوں کا فوٹو لگائیں۔ پہاڑوں، پرندوں درندوں کا فوٹو لگائیں۔ لیکن شوہر آپ کا ہے۔ آپ کو ممکن ہے کبھی محسوس بھی نہ ہو وہ کتنے پانی میں ہے۔ اس لئے دوسروں کو بھی نہ بتائیں کہ وہ کتنے پانی میں ہے اور کس کھیت کی مولی ہے۔ کبھی یہ بھی سوچیں کہ ممکن ہے آپ کے شوہر کے فوٹو کی وجہ سے کوئی لڑکی مشکوک ہو گئی ہو۔ اس کو گھر سے کٹ پڑ گئی ہو کہ وہ کسی لڑکی کے نام سے نمبر محفوظ کر کے کسی مرد سے باتیں کر رہی ہے۔ یا کسی لڑکی کو آپ نے میسج کیا ہو۔ آپ کے شوہر کا فوٹو دیکھ کر اسے متلی آ گئی ہو۔ کوئی آپ کے میسج کا جواب اس لئے نہ دیتا ہو کہ اسے کسی گدھے کی شکل بار بار دیکھنی نہ پڑے۔

شہزادی شادی ہو جانے سے شناختی کارڈ پہ بھی آپ کا اپنا ہی فوٹو رہے گا۔ پاس پورٹ پہ بھی آپ کا ہی فوٹو رہے گا۔ قبر بھی آپ کی اپنی ہی ہو گی۔ اور اس پہ کتبہ بھی آپ کے نام کا لکھا ہو گا۔ درجہ دوم میں زوجہ فلاں لکھا جائے گا۔

اس لئے اب شہزادے شہزادی کی کہانی سے نکلیں اور اپنی بھر پور زندگی کا آغاز کریں۔ شہزادے کی زندگی میں بھی سہولت ہو جائے گی۔ شادی کو زندگی کا اختتام سمجھنا چھوڑیں۔ اس کو زندگی کا حصہ سمجھیں۔ تا کہ زندگی اور شادی کا سانس نہ پھولے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments