مادری زبانوں کا عالمی دن اور انسانی شخصیت کی تعمیر میں ’ماں۔ بولی‘ کا کردار


 

ہر سال 21 فروری کا دن، دنیا بھر میں لسانی اور ثقافتی تنوع اور کثیر اللسانی کو فروغ دینے کے لئے ”مادری زبانوں کے عالمی دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد مادری زبانوں کا تحفظ اور فروغ ہے۔ لسانی تنوع ہمیشہ سے ہماری تہذیب کے بنیادی ستونوں میں سے ایک رہا ہے۔ دنیا کے تقریباً 200 ممالک میں مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف قومی ثقافتوں سے وابستہ لوگ، 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن اس سال ”کثیر اللسانی سیکھنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال: چیلنجز اور مواقع“ کے تصور (تھیم) کے تحت منایا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں، مختلف افراد اور تنظیمیں مادری زبانوں کا عالمی دن سیمیناروں، کانفرنسوں، ورکشاپس اور مختلف تقریبات کی صورت میں مناتی ہیں، تاکہ اس دن کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکے۔ 21 فروری کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم ”یونیسکو“ نے 1999 ء میں ”مادری زبانوں کا عالمی دن“ قرار دیا تھا۔ یہ 21 فروری 2000 ء سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ اعلان بنگلہ دیشیوں (سابقہ مشرقی پاکستانیوں ) کی طرف سے چلائی جانے والی زبان کی تحریک کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے زیر عمل آیا۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ جب 1947 ء میں پاکستان بنا، تو اس کے بنام: مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان دو الگ الگ حصے برپا ہوئے۔ ثقافت اور زبان کے لحاظ سے دونوں حصے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ دونوں خطوں کو جغرافیائی لحاظ سے بھارت نے درمیان میں الگ بھی کر رکھا تھا۔ 1948 ء میں اس وقت کی حکومت پاکستان نے اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا۔ حالانکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لوگوں کی اکثریت بنگالی یا بنگلہ زبان بولا کرتی تھی۔

اس اعلان پر مشرقی پاکستان کے عوام نے احتجاج کیا، کیونکہ آبادی کی اکثریت مشرقی پاکستان کی تھی اور ان کی مادری زبان ’بنگلہ‘ تھی۔ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ زبان کو بھی کم از کم ملک کی قومی زبانوں میں سے ایک ہونے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ سب سے پہلے مشرقی پاکستان سے دھیریندر ناتھ دتا نے 23 فروری 1948 ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد کی صورت میں پیش کیا۔ اسی سلسلے میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے عوام الناس کے تعاون سے بڑے پیمانے پر ریلیوں اور جلسوں کا اہتمام کیا۔

اس احتجاج کو ختم کرنے کے لئے اس وقت کی حکومت پاکستان نے ان جلسوں اور ریلیوں کو کالعدم قرار دے دیا اور ان سے نمٹنے کے لئے 21 فروری 1952 ء کو پولیس نے ان ریلیوں پر فائرنگ کی۔ نتیجتاً عبدالسلام، ابوالبرکات، رفیق الدین احمد، عبدالجبار اور شفیع الرحمٰن سمیت متعدد طالب العلم جاں بحق، جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ تاریخ کا ایک انوکھا پر سوز واقعہ تھا، جہاں لوگوں نے اپنی مادری زبان کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔

تب سے، بنگلہ دیشی عوام ”مادری زبانوں کے عالمی دن“ کو اپنے المناک دنوں میں سے ایک کے طور پر مناتے ہیں۔ اس روز وہ ”مینار شہداء“ پر حاضری دیتے ہیں، جو شہداء کی یاد میں تعمیر کی گئی ایک یادگار ہے۔ اور ان شہداء کے لئے گہرے دکھ، احترام اور شکرگزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ مادری زبانوں کے اس عالمی دن پر، بنگلہ دیش میں قومی تعطیل بھی ہوا کرتی ہے۔

مادری زبانوں کے اس عالمی دن کی باضابطہ قرارداد، کینیڈا کے شہر ’وینکوور‘ میں رہنے والے رفیق الاسلام اور عبدالسلام نامی بنگالی باشندوں نے تجویز کی تھی۔ جنہوں نے 9 جنوری 1998 ء کو اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل، کوفی عنان کو ایک خط لکھا، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ مادری زبانوں کے عالمی دن کا اعلان کر کے دنیا کی زبانوں کو معدوم ہونے سے بچانے کے لئے قدم اٹھائیں۔ اس ضمن میں زبان کی تحریک کے دوران ڈھاکہ میں 1952 ء میں ہونے والی ہلاکتوں کی یاد میں 21 فروری ہی کی تاریخ تجویز کی گئی۔

یہ تجویز اقوام متحدہ کے ساتھ کی گئی خط و کتابت کو سرکاری سطح پر تقویت دینے کی غرض سے، بنگلہ دیشی پارلیمان میں بھی پیش کی گئی، جسے بنگلہ دیشی وزیراعظم، شیخ حسینہ واجد کے حکم پر بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے ”یونیسکو“ کو ایک باقاعدہ تجویز کے طور پر پیش کیا گیا۔ یونیسکو کے ریگولیٹری نظام کے تحت اس تجویز کو آگے بڑھانے کا عمل، اس وقت فرانس میں بنگلہ دیش کے سفیر اور ”یونیسکو“ کے مستقل نمائندے، سید معظم علی اور ان کے پیشرو، اور اس وقت یونیسکو کے سیکریٹری جنرل، فیڈریکو میئر کے خصوصی مشیر، توزمل ٹونی حق نے انجام دیا۔ بالآخر، 17 نومبر 1999 ء کو ”یونیسکو“ کی تیسویں جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ قرار داد منظور کی کہ ”21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا جائے۔ تاکہ 1952 ء میں اس دن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو یاد کیا جا سکے۔“

آج دنیا بھر میں 7000 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ چینی، دنیا کی سب سے زیادہ مقامی بولنے والوں کی زبان ہے، جو 13 الگ الگ انواع (لہجوں ) میں بولی جاتی ہے۔ اسی طرح عربی کی تحریر خواہ تقریر کے لحاظ سے 20 الگ الگ اشکال ہیں، جو ان ممالک اور ثقافتوں کی وسیع رینج کی نمائندگی کرتی ہیں، جن عرب ممالک میں یہ بولی جاتی ہے۔ ہمیں اس وقت دنیا کی 573 معدوم زبانوں کا پتہ ہے۔ یہ وہ زبانیں ہیں، جو اب بولی یا پڑھی نہیں جاتیں۔

ان میں بہت سی مقامی زبانیں اور لہجے تھے، جن کے حروف تہجی یا الفاظ کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا، اور اسی طرح وہ ہمیشہ کے لئے کھو گئیں۔ ایسی معدوم زبانوں کی تعداد کا تو کوئی بھی صحیح اندازہ نہیں کر سکتا، جن کا کوئی بھی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں تین ارب لوگ، دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبانیں بولنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جبکہ انگریزی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی بولنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے، جن کی وہ مادری زبان نہیں ہے۔ (وہ لوگ جو اسے ثانوی زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ ) دنیا کی بہت ساری زبانیں استعمال کے لحاظ سے سکڑ رہی ہیں، کیونکہ لوگ اپنے رہنے والے علاقوں کے ارد گرد زیادہ وسیع پیمانے پر بولی جانے والی زبانوں کو اپنانا شروع کر رہے ہیں۔ یہ امر، ڈیجیٹل اور انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال، بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال سے مزید اثر پذیر ہوا ہے، جو معدومیت کے دہانے پر موجود ثقافتوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی 20 مادری زبانوں میں بالترتیب، مینڈارن، چینی، ہسپانوی (اسپینش) ، انگریزی، ہندی، عربی، پرتگالی، بنگالی، روسی، جاپانی، جاوانی، جرمن، وو چینی، کورین، فرانسیسی، تیلگو، مراٹھی، ترکی، تامل، ویتنامی اور اردو شامل ہیں۔

کسی بھی بچے کے تعلیمی عمل میں اسے اپنی مادری زبان میں سیکھنے کے بہت سے فوائد ہوا کرتے ہیں۔ مثلاً: اپنی مادری زبان کا علم بچوں کے لئے دوسری زبانیں سیکھنے کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچے کی ذاتی، سماجی اور ثقافتی شناخت بھی بناتا ہے۔ مادری زبان کا استعمال نونہال کی تنقیدی سوچ اور خواندگی کی مہارتوں کو فروغ دینے میں بھی مدد کرتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مادری زبان میں سیکھنے والے بچے نصاب کی بہتر تفہیم اپناتے ہیں۔

اور جب بچہ کوئی بھی ثانوی زبان سیکھنے لگتا ہے، تو اسے مادری زبان میں سیکھی گئی مہارتوں کو دوبارہ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مادری زبان میں سیکھنے والے بچے، اسکول اور پڑھنے کے عمل سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسکول کے دوستانہ ماحول میں آسانی محسوس کرنے کی وجہ سے تیزی سے سیکھتے ہیں۔ اور مادری زبان میں سیکھنے والے بچوں میں خود اعتمادی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے سیکھنے سے والدین اور بچوں کے مابین صحتمند مباحثے اور بات چیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مزید تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جو بچے کثیر اللسانی کے ذریعے سیکھنے کا فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ اعلیٰ سماجی و اقتصادی حیثیت حاصل کرتے ہیں اور زندگی میں آگے چل کر آمدنی کے زیادہ وسائل حاصل کرتے ہیں۔

زبانیں ہمارے ظاہری اور باطنی ورثے ( ’ٹینجیبل‘ اور ’انٹینجیبل‘ کلچر) کے تحفظ اور ترقی کا سب سے طاقتور عنصر اور ہتھیار ہیں۔ مادری زبانوں کے پھیلاؤ کو فروغ دینے کے تمام اقدامات نہ صرف لسانی تنوع اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کا باعث ہیں، بلکہ پوری دنیا میں لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں مکمل آگہی پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے پر مبنی معاشرتی یکجہتی کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔

اپنی اپنی مادری زبان کے ساتھ ہر فرد کی رغبت فطری ہے، جس کے لئے کسی ترغیب و تبلیغ کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنا، کسی بھی فرد کے لئے سودمند ہوتا ہے اور ہر نئی سیکھی جانے والی زبان، اس کے ذہن میں ایک نئی رہ گزر کا اضافہ کرتی ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے لوگ، اپنی احساس کمتری کے تحت دیگر زبانوں کو اپنی ’ماں۔ بولی‘ پر فوقیت دیتے ہوئے، اپنی زبان سے دور نہ ہوں، اس کو بولتے اور لکھتے شرم محسوس نہ کریں، اور آنے والی نسلوں تک اپنی ’ماں۔ بولی‘ کی نکہت منتقل کرنے کو اپنا فرض سمجھتے رہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا کی تمام زبانوں کا احترام کرنا چاہیے اور زبانوں کو باہمی نفرت کا نہیں، بلکہ اتحاد و محبت کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ کیونکہ دنیا کی ہر زبان کسی نہ کسی کی مادری زبان ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments