عورت مارچ یا یوم حجاب


پچھلے دنوں ایک ممتاز قانون دان کا ایک بڑا دلچسپ ٹویٹ نظروں کے سامنے سے گزرا۔ وہ میں آپ کی نظر کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں ”نادان عورتیں عزت کے چار حفاظتی حصار باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر کو چھوڑ کر غیر مردوں کی محفل میں عزت تلاش کرتی ہیں۔ جب کوئی غیر مرد عورت کی عزت پامال کر کے رفو چکر ہوجاتا ہے۔ تب وہی عورتیں کہتی ہیں کہ مرد ذات بڑی دھوکے باز ہے۔“ ۔

مارچ کے مہینے کی آمد آمد ہے، بہار، بسنت اور ساتھ ہی اپوزیشن کا لانگ مارچ بھی مارچ میں ہی ہو گا۔ جہاں بسنت خوشیاں اور شادمانی لے کر آتی ہے۔ وہیں یہ ایونٹ کئی بدقسمت انسانوں کے لیے موت کا پروانہ بھی لے کر آتا ہے۔ کیوں کہ پتنگ بازی میں دھات کی تار کا استعمال راہ چلتے لوگوں کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔

اسی مہینے صنف نازک سے تعلق رکھنے والی چند لبرل خواتین ایک شو آرگنائز کرتی ہیں۔ جس کو عورت مارچ کا نام دیا جاتا ہے۔ خبروں کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے وزیراعظم سے عورت مارچ پر مکمل پابندی عائد کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست میں بے راہ روی کے اس مظاہرے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ کیوں کہ عورت مارچ پاکستان کے لیے جگ ہنسائی کا موجب بنتا ہے۔ وفاقی وزیر نے بھارت اور دیگر ممالک میں مسلمان خواتین کو حجاب کے سلسلے میں جو چیلنجز درپیش ہیں۔

ان سے اظہار یکجہتی کے لیے یوم حجاب منانے کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری اور وزیراطلاعات فواد چوہدری نے مذہبی امور کے وزیر کے اس اقدام پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو خواتین کے حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر عمران خان اپنے آپ کو ریاست مدینہ کے حاکم کی طرح انصاف پسند اور اسلامی تعلیمات کا پابند سمجھتے ہیں۔ مگر وہ شاید عورت مارچ پر پابندی عائد کرنے کا کڑوا گھونٹ نہ پی سکیں۔ ایک مذہبی ذہن رکھنے والے کالم نگار کے مطابق وہ لبرل طبقے کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔

بہرحال عورت مارچ نے تو ہو کر رہنا ہے۔ اگر کسی ممکنہ پابندی کی وجہ سے مارچ کا انعقاد کھٹائی میں پڑتا ہے تو آرگنائزر کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ لہذا یہ عناصر حکومت کے اندر لبرل لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ تاکہ عورت مارچ شیڈول کے مطابق منعقد کیا جا سکے۔

پاکستان جیسے پسماندہ اور ناخواندگی رکھنے والے ملک میں جہاں بیروزگاری نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہاں عورت مارچ جیسے ایونٹ کا ہونا تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ایسے مارچ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جہاں بین الاقوامی سطح پر ان کو سنا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اور عالمی میڈیا میں ان کو پذیرائی بھی مل سکتی ہے۔

جب کہ پاکستان میں چوکوں اور چوراہوں میں ایسے لوگوں کی بہتات ہوتی ہے جو ایک بنی سنوری اور جدید لباس میں ملبوس عورت کو بھوکی اور للچائی ہوئی نظروں سے تو دیکھ سکتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کر سکتے۔ ان کو بینروں پر لکھی تحریروں سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو بس عورت کے جسم کا ایکسرے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی نظریں اس عورت پر ہوتی ہیں جس نے تنگ لباس پہن رکھا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہوس بھری نظروں کی پیاس بجھانے میں مگن ہوتے ہیں۔ لہذا پاکستان میں عورت مارچ کا انعقاد فحاشی اور بے راہ روی کا شو سمجھا جاتا ہے۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ گھر کے مرد جن میں باپ، بھائی اور شوہر شامل ہیں، عورت کی آزادی سلب کرتے ہیں۔ اس کو نہ تو مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور نہ ہی سوسائٹی میں اپنا کردار ادا کرنے کی۔ وہ اپنی مرضی سے کہیں آ جا بھی نہیں سکتی۔ اور نہ ہی ملازمت کر سکتی ہے۔

صرف آزاد خیال لبرل گھرانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں۔ جس کی وہ متمنی ہوتی ہیں۔

در حقیقت ایک اسلامی ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں صنف نازک کو صرف وہی حقوق دیے جا سکتے ہیں۔ جن کی اسلامی تعلیمات میں اجازت ہوتی ہے۔ ان سے ہٹ کر اگر عورت یہ کہے کہ وہ غیر اسلامی لباس زیب تن کرنا چاہتی ہے۔ شوہر کی خدمت نہیں کرنا چاہتی یا بچے پالنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یا غیر مرد کے ساتھ تعلق قائم کرنا چاہتی ہے۔ یا ہم جنس پرستی کی حمایت کرتی ہے۔ تو دین اسلام اور ہماری تہذیب اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ دراصل پاکستان میں عورت مارچ جیسے ایونٹ کو محض اس لیے بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے انعقاد میں شرعی لوازمات پورے نہیں کیے جاتے۔

اس کے علاوہ مارچ کے آرگنائزر اس بات کا لحاظ بھی نہیں کرتے کہ ان کے تیار کردہ بینرز اور پلے کارڈز معاشرے کی بگاڑ اور صنف نازک کی تذلیل کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورت مارچ پاکستان میں کبھی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ اس میں خواتین کا وہ حصہ جو معاشرے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے دن رات محنت اور مشقت کرتا ہے۔ وہ اس مارچ میں شامل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ عورت مارچ کا ایجنڈا صنف نازک کی آزادی کے نام پر مسلمان اور مشرقی گھرانوں کی خواتین کی سوچ کو گمراہ کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں مارچ کے پروگرام اور خواتین کے بنیادی حقوق میں بہت بڑا تضاد پایا جاتا ہے۔ مارچ میں شامل خواتین کا ماٹو، اپنے شوہر کے ہر اس کام کی انجام دہی سے انکار ہوتا ہے جس کے کرنے کے احکامات شریعت اور معاشرہ بیوی کو دیتا ہے۔ لہذا مشرقی عورت بے راہ روی کے اس مظاہرے سے اپنے آپ کو دور رکھتی ہے۔ گھریلو عورت کو نہ اپنے شوہر کے موزے دھونے سے انکار ہوتا ہے اور نہ ہی بچوں کی تعلیم و تربیت سے اور نہ ہے ہی دوسرے گھریلو کام کرنے سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments