حارث رٶف نے شرفا کے کھیل کو داغدار کیا


کرکٹ شرفا، مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں سفید یونیفارم اس کے اجلا، صاف اور اصول پسند کھیل ہونے کا غماز ہے۔ بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم بھی اسے اسی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ اس کھیل نے اپنی تین صدیوں پر محیط سلطنت میں بے شمار ایسے عظیم المرتبت اور شہرٔۂ آفاق کھلاڑی پیدا کیے جو اپنے ملک کی شناخت بن گئے۔ اگرچہ کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل نہیں مگر یہ قومی کھیل ہاکی سے کہیں بڑھ کر پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ یہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی یکساں مقبول ہے۔ اس بار پی ایس ایل میں آزاد کشمیر کے بھی دو مشہور کھلاڑی سلمان ارشاد اور زمان خان اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

شرفا کے اس کھیل میں ہر دور میں حریف اور حلیف کھلاڑیوں کے مابین سلیجنگ، دلچسپ فقرے بازی، نوک جھونک اور طنزو مزاح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ مگر لڑائی جھگڑے، مار کٹائی اور تھپڑ مکے کے زیادہ واقعات نہیں ہوئے۔ جاوید میانداد نہایت ذہین، شریر اور باتونی کرکٹر تھے۔ جب وہ کاؤنٹی کھیلا کرتے تھے تو ان کے کپتان ٹونی گریگ نے ان کی دلچسپ فقرے بازی، جو وہ بیٹر کی توجہ منقسم کرنے کے لیے کرتے تھے، کی وجہ سے انہیں وکٹوں کے قریب فیلڈنگ کے لیے کھڑا کرنا شروع کیا۔

اس دوران میانداد نے حیرت انگیز طور پر وکٹ کے قریب مشکل ترین کیچ پکڑے۔ جاوید میانداد کی نوک جھونک سنیل گواسکر، ویوین رچرڈ، مرفیوز، ڈینس للی اور دوسرے حریف کھلاڑیوں کے ساتھ چلتی رہتی تھی۔ 1981 کے دورۂ آسٹریلیا میں ڈینس للی کے ساتھ ان کے جھگڑے کو کون بھول سکتا ہے جب انہوں نے للی کے لات مارنے پر ان پر بلے سے ان پر حملہ کر دیا تھا۔ اگر امپائر بیچ بچاؤ نہ کرتے تو میانداد کا بلا للی کے سر پر پڑتا۔

آسٹریلیا کے مشہور فاسٹ بالر مرفیوز اپنی دیو ہیکل جسامت، لمبی مونچھوں اور موٹاپے کی وجہ سے ریسلر دکھائی دیتے تھے۔ میانداد ان پر بھی جملے کستے رہتے تھے۔ ایک میچ میں میانداد نے بیٹنگ کے دوران ان پر فقرہ کسا کہ تم اتنے موٹے ہو کہ تمہیں کرکٹ نہیں کھیلنا چاہیے۔ تم تو بس کنڈیکٹر دکھائی دیتے ہو۔ اتفاق سے مرفیوز نے اگلے ہی اوور میں میانداد کو آؤٹ کر دیا۔ آؤٹ ہونے کے بعد جب جاوید میانداد مرفیوز کے قریب سے گزر رہے تھے تو مرفیوز کو بھی بدلا لینے کا بھرپور موقع مل گیا۔ انہوں میانداد کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کر کے کہا کہ ”ٹکٹ پلیز“ اس پر میانداد کے علاوہ قریب کھڑے تمام کھلاڑی ہنس پڑے۔

میدان میں بعض موقعوں پر کھلاڑیوں سے دانستہ یا نادانستہ نسلی تعصب پر مبنی جملے بھی ادا ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً 2008 میں انڈین سپنر ہربھجن سنگھ پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے آسٹریلیا کے کھلاڑی اینڈریو سائمنڈز کو بندر کہا تھا۔ تین سال قبل پاکستانی وکٹ کیپر سرفراز احمد نے افریقی کھلاڑی انڈیل پہلوک کے بارے میں نسلی تعصب پر مبنی جملہ کہا تھا، جسے مائک کی وجہ سے سب نے سن لیا تھا۔ سرفراز بڑی مشکل میں پھنس گئے تھے۔

بعد میں انہوں نے معافی مانگی تو جاں بخشی ہوئی۔ دنیائے کرکٹ کے عظیم بیٹر سچن ٹنڈولکر نے 1989 میں پاکستان کے خلاف اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ ایک میچ میں سچن نے جب سپن باؤلر مشتاق احمد کو لگاتار دو چھکے جڑے تو عبدالقادر نے سچن کو کہا کہ بچے کو مار کے خوش ہو رہے ہو، ذرا مجھے بھی مار کے دکھاؤ۔ اس کے جواب میں ٹنڈولکر نے زبان سے تو کچھ نہ کہا لیکن اگلے ہی اوور میں انہوں نے عبدالقادر کو چار چھکے اور ایک چوکا لگا کر بلے سے بھرپور جواب دیا۔ یاد رہے کہ ٹنڈولکر بھی اس وقت محض پندرہ برس کے بچے ہی تھے۔

یہ مذکورہ بالا واقعات کرکٹ کے میدانوں کے دلچسپ اور یاد گار واقعات ہیں۔ مگر 2008 میں انڈین پریمیئر لیگ کے دوران ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس نے کرکٹ کے اس شرفا کے کھیل کے اجلے دامن کو داغدار کر دیا۔ ممبئی انڈین ٹیم کے کپتان سچن ٹنڈولکر اس میچ میں بیمار تھے۔ ان کی جگہ جارح مزاج اور منہ پھٹ سپنر ہربھجن سنگھ ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ ہربھجن کی ٹیم وہ میچ ہار گئی۔ میچ کے اختتام پر ہربھجن نے طیش میں آ کر اپنے ہی تیز بالر شری سانتھ کو زوردار تھپڑ مار دیا۔ تھپڑ کھانے کے بعد شری سانتھ پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔

آئی پی ایل کی انتظامیہ فوراً حرکت میں آئی اور بھاری جرمانے کے علاوہ ہربھجن پر پابندی عائد کردی کہ وہ ٹورنامنٹ کے باقی میچز نہیں کھیل سکتے۔ ہربھجن نے بعد میں سر عام اپنے کیے کی معافی مانگی۔ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے کرکٹر میچ فکسنگ کی پاداش میں بھی قید و بند اور بھاری جرمانے کی سزائیں بھگت چکے ہیں۔ اس لیے کہ شرفا کے اس مشہور و مقبول کھیل کو داغدار کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہربھجن سنگھ کے بعد اس شریف کھیل کو اپنی عجیب و غریب حرکت کی وجہ سے داغدار کرنے کی کوشش پاکستان کے تیز بالر حارث رؤف نے کی جب انہوں نے کیچ چھوڑنے پر اپنے ہی فیلڈر کامران غلام کو تھپڑ مار دیا۔

ہوا یوں کہ حارث رؤف کی بال پر کامران غلام نے پشاور زلمی کے بیٹر حضرت علی ززئی کا کیچ چھوڑ دیا۔ اگلی بال پر حارث رؤف نے ززئی کو آؤٹ کر دیا۔ جب کامران غلام دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ حارث رؤف کو مبارک دینے گئے تو حارث نے غصے میں آ کر انہیں تھپڑ مار دیا۔ اس منظر کو ساری دنیا نے دیکھا۔ حارث رؤف اچھے بالر ہیں۔ وہ مڈل کلاس فیملی سے ہیں اور بڑی محنت اور ریاضت کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔ مگر کچھ عرصے سے ان کی حرکات اور باڈی لینگوئج نو دولتیوں، کھلنڈرے اور اجڈ نوجوانوں کی سی ہوتی جا رہی ہیں۔ کھیل ہمیں برداشت، تحمل، نظم و ضبط اور سپورٹ مین سپرٹ سکھاتے ہیں۔ حارث رؤف کو چاہیے کہ فوراً اپنی اوچھی حرکت پر معافی مانگیں اور پی ایس ایل انتظامیہ بھی سرزنش کرتے ہوئے انہیں کڑی سے کڑی سزا دے کیونکہ کوئی کھلاڑی خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو، کھیل سے بڑا نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments