تعریف نہیں، عورتوں کی ہمت بندھایے


آخر یہ کیسا ماحول ہے جس میں کسی عورت کو ذاتی زندگی پر شرمندہ کرنے سے لوگ باز نہیں آتے اور اس عورت کو یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ اس کے فیصلے ہمیشہ غلط ہی ہوں گے چاہے عورت جان سے چلی جائے مگر معاشرے میں اپنے دینی اور قانونی حق کے لیے آواز نہ اٹھائے کیونکہ معاشرہ اسے قبول نہیں کرے گا؟

اس وقت پوری دنیا میں خواتین اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ مگر جس طرح کا نام نہاد غیرت زدہ ماحول ہم نے اپنی عورتوں کے لیے بنا لیا ہے، جس میں ہم اتنے سخت اور نازیبا الفاظ عورتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں سب سے بڑھ کر ایک افسوس ناک المیہ جو میں نے اکثر دیکھا ہے چوراہے سڑکوں اور بازاروں میں نام نہاد غیرت کے پجاری آپ نے چند لمحوں کے مذاق اور شغل کی خاطر ماں بہن اور بیٹی سے منسلک گالم گلوچ عام معمول سمجھتے ہیں طنز و مزاح میں ایسے الفاظ جن کو سن کر روح کانپ جاتی ہے، ایسے حالات میں آواز اٹھانا محاذ جنگ سے کم نہیں۔

ہمارا معاشرہ خواتین کو ویسے ہی لب کشائی کے مواقع کم فراہم کرتا ہے اور اگر کر بھی دیتا ہے تو ان کو سخت گرفت میں بھی رکھتا ہے اور ہر بات پر جتنا ان کا امتحان لیا جاتا ہے اتنا کسی کا نہیں لیا جاتا

کیونکہ اسے ناقص العقل سمجھا جاتا ہے اور رہی بات عورت کے ناقص العقل ہونے کی جو قرآن پاک میں بھی ہے۔ لیکن اس کے سیاق و سباق سے معنی بدل کے عورت کو دبایا جاتا ہے۔ جبکہ یہ خوبی ہے عورت کی۔ اللہ نے فطری طور پر معصوم بنایا ہے۔ اور یہی معصومیت ہی ناقص العقل ہونا ہے۔

عورت کو آپ کسی بھی رشتے میں دیکھیں۔ وہ اپنا تن من دھن سب قربان کرنے کی ہمت رکھتی ہے جو کہ مردوں میں نہیں ہے۔ عورت ماں، بیٹی، بہن، بیوی اور محبوبہ جس بھی روپ میں ہو وہ اپنا بھلا برا دیکھے بغیر اس پہ فدا کر دیتی ہے سب۔ اپنی پرواہ نہ کرتے ہوئے۔ یہی چیز عورت کو عظیم بناتی ہے۔ لیکن اب اس کی کسی قربانی کو آگے سے جو بھی درجہ دیا جاتا ہے وہ عورت کی شان نہیں گھٹاتا بلکہ اگلے رشتے کا ظرف بتاتا ہے۔ آپ تاریخ دیکھیں۔

عورتوں جیسی قربانی مرد نہیں دے سکا کبھی۔ ہمارے معاشرے کو عورت انسان نہیں فرشتے یا دیوی کے روپ میں دیکھنے کی چاہ ہے جو ہر خواہش کے پاک ہو اور صرف ایثار و صبر ہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہو اگر کوئی عورت صرف محبت کو چنے تو جذباتی معاشی مضبوطی کو فوقیت دے تو لالچی اور اگر خود کی صلاحیتوں پہ بھروسا کر کے اپنا مقام بنانے نکل کھڑی ہو تو باغی کہلاتی ہے سچ تو یہ کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کو انسان نہیں سمجھا جاتا ہے۔

جس طرح اب اکثر بڑھا کر بتایا جاتا ہے عورت کے بارے میں اس حساب سے اب تک ہر فیلڈ میں عورت کو مرد کو دھکا دے کے باہر کر دینا چاہیے۔ ایک ویلین ٹائنز ڈے اور عورت مارچ تو مردوں سے سنبھلتا نہیں پھر اس حد تک عورت میں گیان بیان کی خصوصیات گئیں چولہے میں۔

میرے نزدیک اس وقت عورت کو ان مبالغوں سے نکال کر صرف اور صرف سیکورٹی کی ضرورت ہے۔ کہ وہ ہر میدان میں آگے بڑھ سکے جس حساب سے عورت کے نرم و نازک ہونے کے گن گنوائے جاتے ہیں اسی حساب سے کچھ عرصہ ان چکروں سے اسے نکال کر پڑھائی لکھائی، ذاتی تجربہ، اور فیلڈز میں مہارتیں دیں تا کہ وہ مضبوط ہو۔ بقول اوپر بیان کردہ خصوصیات کے، جب محبت میں اتنی ہی داتا ہے وہ تو اپنے پیروں پہ کھڑے ہو کر بھی آپ سے نبھا کر لے گی۔ مگر خدارا اس کے ذہن سے یہ نکال دیں کہ پیدا ہوتے ہی تمھارا مقصد خوبصورتی، نازکی، مرد، محبت، قربانی، وسیع القلبی، وفا کے پیکر ہی اصل منزل ہے۔ اسے انسان رہنے دیں۔ اتنی تعریفوں سے بہتر ہے اس کے لئے راہ ہموار کر دیں۔ اسے پہلے اپنے آپ کو، پھر مرد اور پھر بچوں کو سنبھالنا چاہیے۔ یہ ہے اصل عورت کا مقام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments