مولوی صاحب کے بیٹے اور عطا مانیکا صاحب کا اضطراب


چند روز قبل میرے آبائی علاقے پاکپتن کے سوشل میڈیا گروپس میں ایک کلپ وائرل ہوا جس میں ایک نجی ٹی وی چینل کی خاتون اینکر کے ساتھ گفتگو میں پاکپتن سے متعدد بار ایم پی اے اور صوبائی وزیر رہنے والے میاں عطا محمد مانیکا اپنے علاقے کے ایک مولوی صاحب اور ان کے بیٹوں کا نامناسب اور قدرے طنزیہ انداز میں تذکرہ کر رہے تھے۔ عطا مانیکا ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ایک پڑھے لکھے اور سینئر سیاستدان ہیں لیکن ان کی گفتگو سن کر بڑا افسوس ہوا کہ اعلیٰ تعلیم بھی ان کے اندر کے روایتی جاگیردار کی متعصبانہ سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی۔

ہمارے ملک کے طبقہ اشرافیہ کا یہی وہ سوچ اور انداز فکر ہے جو اس ملک کو آگے نہیں بڑھنے دے رہا اور جس کے سبب ہم اپنے مشرقی بازو موجودہ بنگلہ دیش سے ہاتھ دھو چکے ہیں لیکن ہمارے حکمران طبقے کی خو نہ بدلی ہے نہ بدلنے کے آثار نظر آتے ہیں۔ مانیکا صاحب سے زیادہ حیرت مجھے انٹرویو کرنے والی خاتون اینکر پر ہوئی جو سیاق و سباق جانے بغیر بلا تکان ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس پھوہڑ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی تھی۔

راقم کا تعلق بھی چونکہ فرید کوٹ نام کے اسی گاؤں سے ہے اور قبلہ مرحوم والد صاحب عرصہ دراز تک استاد محترم حافظ محمد نذر صاحب سے قبل کئی سال تک گاؤں کی اسی مسجد کے امام رہے تو مانیکا صاحب کے انٹرویو سے پیدا صورتحال کا سیاق و سباق واضح کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ یہ قارئین کے لئے دلچسپ اور سبق آموز بھی ہے۔ حافظ نذر محمد ماشا ء اللہ کثیر الاولاد تھے اور ان کے سب سے بڑے بیٹے نعیم میرے سکول میں ہم جماعت بھی تھے۔

مذہبی خاندانی پس منظر ہونے کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے ہمیں لاہور کے ایک نامور مدرسہ میں بغرض حصول دینی تعلیم داخل کروا دیا جہاں ماہانہ فیس بھی رائج تھی۔ جیسا کہ مانیکا صاحب نے اپنے انٹرویو میں گاؤں کے مولوی صاحب کی مالی حالت کا بغیر شرم محسوس کیے ڈھٹائی کے ساتھ ذکر کیا ہے گویا یہ بہت فخر والی بات ہو کہ اپنی دینی خدمت کے عوض گاؤں دیہاتوں میں مولوی شام کو لوگوں کے گھروں سے روٹیاں مانگ کے گزر بسر کرتا ہے۔

یہ عطا مانیکا اور انگریزوں کے پروردہ ہمارے معاشرے پر مسلط کیے گئے اسی ذہنیت کے دیگر لوگوں کے طفیل ہی ہے کہ آج بھی ہمارے دیہاتوں میں مولوی یا دینی خدمت دینے والے کا سماجی رتبہ کمی کمین سے زیادہ کا نہیں ہے۔ یوں معاشرے کے ساتھ ساتھ دین کی حقیقی تعلیمات بھی مسخ ہو کر رہ گئی ہیں کیونکہ دین اس فرسودہ نظام میں حاکم طبقات کی خواہشات کے تابع ہے۔ ہمارے معاشرے میں نسلی امتیاز نے پوری سوسائٹی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے جبکہ ایک حدیث نبوی کے مطابق دین کہتا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر ، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے ساتھ۔

یہاں تقویٰ کا لفظ صرف عبادت نہیں بلکہ میرٹ، قابلیت اور محنت کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں یوں ہوا کہ انگریز کی طرف سے وفاداریوں کے عوض نوازے گئے وڈیرے، گدی نشین، جاگیر دار اور ان کے تربیتی نظام سے فیض یافتہ سول اور فوجی افسران پر مشتمل جعلی اشرافیہ پاکستان بننے کے بعد مزید مضبوط ہو گئی جبکہ ہنر مند اور ورکنگ کلاس کمی کمین ٹھہری۔ ہم مانیں یا نہ مانیں جیسے ہندوؤں کے ہاں چھوت چھات کا نظام ہے وہ ہمارے ہاں بھی جوں کا توں رائج ہے۔

اسلام کے نام پر بننے والے ہمارے نئے ملک میں پرانے نظام اور جبر پر مبنی ظالمانہ نظام نے پورے معاشرے کی چولیں ہلا کے رکھ دی ہیں جبکہ عملی طور پر اب صرف کاسمیٹک اسلام ہی رہ گیا ہے اور مدینہ کی ریاست ابو جہلوں کے ہاتھ میں ہے۔ تعلیمی نظام اتنا فرسودہ ہے کہ بظاہر انتہائی تعلیم یافتہ افراد بھی عملی طور پر جہالت میں غرق نظر آئیں گے۔ لوگ اب بھی ذہنی طور پر کسی مثبت تبدیلی کو یا تو قبول نہیں کرتے یا مشکل سے قبول کرتے ہیں اور طنز کے نشتر تو ضرور برساتے ہیں جیسے مانیکا صاحب اپنے انٹرویو میں برساتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

جاگیردار، وڈیرے اور دیگر حاکم طبقات تو ایک طرف رہے عوام بھی ابھی تک غلامانہ ذہنیت رکھتے ہیں اور تبدیلی لانے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ ویسا ہی ہے جیسا تبدیلی اور انقلاب کے سمبل چی گویرا کے ساتھ ہوا جسے ایک چرواہے کی مخبری پر دشمنوں نے گرفتار کر لیا۔ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ چرواہا جن کے حقوق کی حفاظت کے لئے چی گویرا عالمی سطح پر آواز بلند کر رہا تھا۔ اب کوئی ورکنگ کلاس سے اوپر اٹھتا ہے تو عام طور پر معاشرہ اور خاص طور پر حاکم طبقات اس کی ترقی اور اس کے حالات میں تبدیلی کھوکھلے دل سے برداشت نہیں کر پاتے کیونکہ ہمارا معاشرہ صدیوں سے جاگیردارانہ اثرات کے تابع ہے جو اسٹیٹس کو میں تبدیلی کے سخت خلاف ہے اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا صرف اس وقت تک ساتھ دیتا ہے جب تک اس سے مفادات کے تصادم کا خطرہ نہیں ہوتا۔

اسے معاشرے میں رول ماڈل کے طور پر تسلیم کر کے اس کی محنت اور عظمت سے سبق حاصل کرنے اور سیکھنے کی بجائے لوگ اس کے ماضی کے حالات کے تناظر (frame of reference) میں طنز کرتے اور تمسخر اڑاتے نظر آئیں گے۔ مولوی صاحب کے بیٹوں کی ترقی پر عطا مانیکا صاحب کا اضطراب اسی کیفیت کا عکاس ہے جو دراصل اپنے حلقے اور اپنی موروثی سیاست کے اسٹیٹس کو میں کسی ممکنہ تبدیلی پر پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم اس وقت سیکنڈ ائر کے طالبعلم تھے جب نعیم بھائی کو والدہ کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کا پتہ چلا۔ والد صاحب پہلے ہی جسمانی معذوری کا شکار تھے اور گھر کے مالی حالات علاج کے بھاری اخراجات اٹھانے سے قاصر تھے۔ ان حالات میں نعیم بھائی نے حالات کا مقابلہ کرنے اور والدہ کا علاج ممکن بنانے کے لئے بڑے بھائی کا فرض نبھانے کا فیصلہ کیا اور بڑی مشقتوں کے بعد کسی طرح جنوبی افریقہ پہنچ گئے۔ وہاں کئی سال تک مزدوری اور محنت کی لیکن ان کی والدہ اس دوران بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان ہار گئیں۔ نعیم بھائی بالا آخر چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک ایک کر کے اپنے دیگر بھائیوں کو بھی ساؤتھ افریقہ بلا لیا۔

مسلسل اور انتھک محنت، نیک نیتی اور قدرت کی مہربانی سے اب وہ ساؤتھ افریقہ کے نامور بزنس مین بن چکے ہیں اور ہزاروں لوگ ان کے مختلف کاروباری اداروں میں کام کرتے ہیں جن میں ان کے اپنے گاؤں کے سینکڑوں لوگ بھی شامل ہیں۔ اب ساؤتھ افریقہ کے علاوہ ان کے کاروباری ادارے یورپ، مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک تک پھیل چکے ہیں۔ وقت نے ایسی قلابازی کھائی کہ اب وہی گاؤں جہاں دو وقت کی عزت کی روٹی کا حصول ایک وقت میں مشکل تھا وہ نہ صرف اس گاؤں بلکہ پورے علاقے کے سب سے بڑے زمیندار ہیں۔

لیکن مانیکا صاحب کے برعکس وہ اپنی سینکڑوں ایکڑ زمین پر کاشت ہونے والی فصل کو اپنی فیملی کی ضروریات کی حد تک استعمال کرتے ہیں جبکہ باقی تمام فصل اپنے علاقے کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ مولوی صاحب کے لئے مختص گاؤں کے جس کچے گھر میں نعیم بھائی کا گھرانا رہتا تھا اسی جگہ انھوں نے امام صاحب کے لئے اب شاندار رہائش تعمیر کر کے ان کے حوالے کر دی ہے اور اب مولوی صاحب کا گھر گاؤں کا سب سے بہترین گھر نظر آتا ہے۔

نعیم بھائی اور سلیم بھائی نے مٹی کا قرض اتارنے اور علاقے کی سماجی فلاح و بہبود کے لئے اپنے والد کے نام سے نذر اینڈ نذر فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جبکہ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے بیرون ملک قیام پذیر ہیں اور یہاں صرف لاہور والے گھر میں کبھی کبھار آنا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اپنے لوگوں اور اپنے علاقے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں اپنے تمام کاروبار جن میں زرعی زمینوں، فلور ملز، آئس ملز، پٹرول پمپس، شادی ہالز اور دیگر کاروباری ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مکمل طور پر فلاحی کاموں کے لئے وقف کر رکھا ہے۔

مولوی صاحب کے بیٹے این اینڈ این کے پلیٹ فارم سے جدید آلات سے آراستہ ایمبولینسز، میڈیکل کیمپس، سو گھروں کی تعمیر، سو واش رومز کی تعمیر، ہزاروں افراد میں راشن کی تقسیم، پانچ ہزار گرم شالوں اور گرم کپڑوں، ضعیف العمر مرد و خواتین کے لئے ماہانہ وظیفوں، درجنوں لوگوں کو حج و عمرہ کروانے، سو غریب خاندانوں کی بچیوں کی شادی، کڈنی سنٹر کی تعمیر، سٹریٹ لائٹس، کھیلوں کے گراؤنڈز کی تعمیر اور تزئین و آرائش، ایک ملین پودوں کی شجر کاری اور ووکیشنل اداروں کے قیام جیسے منصوبوں پر کام چکے ہیں اور علاقے کے غریب عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔

ان سماجی خدمات کی وجہ سے پورے علاقے میں ان کی نیک نامی پھیل چکی ہے جس سے مانیکا صاحب اور علاقے کے دیگر نام نہاد سیاسی لیڈروں اور اجارہ داروں کو تکلیف ہے۔ ذاتی لحاظ سے نعیم بھائی اور دیگر نذر برادران انتہائی سادہ اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں کہ وہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والد صاحب نے علاقے کے لئے دینی خدمات انجام دیں اور اللہ نے انھیں علاقے کی سماجی خدمت کا موقع عطا کیا ہے۔

ایک مرتبہ نعیم بھائی نے فون کر کے کہا کہ انھیں بہت اہم مشورہ کرنا ہے اگرچہ وہ اس حوالے سے اپنا ذہن پہلے ہی بنا چکے ہیں۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ اللہ میاں نے انھیں اتنا نواز دیا ہے کہ جو ان کی سات پشتوں کے لئے بھی کافی ہے اور اب وہ تمام کاروبار سے دستبردار ہو کر صرف تبلیغی جماعت اور عبادت کے لئے خود کو وقف کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر میں نے انھیں کہا کہ ہمارا دین بہت لچک دار ہے اور ایک اچھا اور ایماندار بزنس مین بھی کسی ولی اللہ سے کم نہیں ہوتا جبکہ آپ کی بدولت اللہ کے ہزاروں بندوں کے چولہے جل رہے ہیں اور انھیں روزگار مل رہا ہے۔

یہ بڑی نعمت اور سعادت ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ کی بدولت ہزاروں نہیں بلکہ اللہ کے لاکھوں بندوں کے لئے آسانیاں پیدا ہوں۔ مسلمانوں کو اس وقت عبادت گزاروں سے کہیں زیادہ اچھے بزنس مین، سائنسدانوں، سوشل لیڈرز اور دانشوروں کی بھی ضرورت ہے۔ مانیکا صاحب کو ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے منفی اور سطحی تنقید سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ وہ ایک معزز اور قد آور شخصیت، علاقے کے سرکردہ سیاسی راہنما، صاحب ثروت اور بڑے جاگیردار ہیں۔

پاکستان پر کسی اجارہ داری نہیں، یہ ہم سب کا ملک ہے۔ قانون کے مطابق ہر پاکستانی کو آگے بڑھنے اور سماجی و سیاسی سطح پر خدمت کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔ ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی دولت اور وسائل کس طرح خرچ کرتا ہے لیکن بعض اوقات کچھ خرچ کیے بغیر محض آپ اچھے لفظوں کے انتخاب اور حوصلہ افزائی سے ہی دوسروں کے دکھوں کا مرہم اور مداوا بن سکتے ہیں، مانیکا صاحب اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کے لئے افسوس ہی کیا جاسکتا ہے جنھیں اس کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ اگر ایسے لوگ بدقسمتی سے لوگوں کے راہنما کا درجہ حاصل کر لیں تو پھر میرے خیال میں قوم کو بھی اپنی اداؤں پہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments