نور مقدم قتل کیس: مجرم ظاہر جعفر کے چہرے پر خوف نمایاں اور اس کا جسم کانپ رہا تھا

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


چوبیس فروری بروز جمعرات، وفاقی دارالحکومت کی ضلع کچہری میں صبح سے ہی حالات غیر معمولی دکھائی دے رہے تھے۔ پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی ایک بڑی تعداد صبح سے ہی کچہری کے احاطے میں موجود تھی اور یہ سب اس لیے تھا کیونکہ آج سابق سفارت کار شوکت علی مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔

جب نور مقدم قتل کیس کی سماعت سے متعلق ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت کے اہلمد نے مقدمے کی آواز لگائی تو پہلے ان آٹھ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا جنھیں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ ان میں مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی بھی شامل تھیں۔


ان ملزمان کی حاضری لگوانے کے بعد ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے انھیں جانے کی اجازت دی اور پھر کچھ دیر کے بعد اس مقدمے کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر سمیت چار ملزمان کو عدالت میں طلب کیا گیا۔ ایڈشنل سیشن جج نے عدالتی عملے کو حکم دیا کہ وہ ملزمان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں لہذا تمام افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے۔


عدالتی حکم کی تعمیل میں ایسا ہی ہوا اور 20 منٹ سے زیادہ وقت تک ایڈشنل سیشن جج نے ان ملزمان سے گفتگو کی جس کے بعد ان ملزمان کو بخشی خانے میں واپس بھیج دیا گیا۔


عدالت نے نور مقدم قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنانے کا وقت جمعرات کی دوپہر ڈیڑھ بجے رکھا تھا لیکن کمرہ عدالت ایک گھنٹہ پہلے ہی بھر چکا تھا جس میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی اور ان میں اکثریت خواتین وکلا کی تھی۔


اس مقدمے کے پراسیکیوٹر رانا حسن عباس بھی جب کمرہ عدالت میں پہنچے تو عدالت کے جج نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ خیریت ہے کہ وہ وقت سے پہلے آگئے کیوں کہ ابھی تو فیصلے میں کافی وقت پڑا ہے۔ رانا حسن عباس نے جواب دیا کہ مائی لارڈ رش کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے انھیں روسٹم تک پہنچنے کے لیے جگہ نہ ملے۔


عدالتی فیصلہ سننے کے لیے ملزمان کی طرف سے کوئی بھی وکیل کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔


اس کمرہ عدالت میں 20 سے 30 افراد کی گنجائش ہے جبکہ نور مقدم کے قتل کا فیصلہ سننے کے لیے اس چھوٹے سے کمرے میں اس سے کئی گنا زیادہ افراد موجود تھے جن میں صحافیوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد شامل تھی۔


مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر
مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر

جج عطا ربانی کمرہ عدالت میں لوگوں کی گفتگو کا شور پہلے تو کچھ دیر برداشت کرتے رہے لیکن اس کے بعد وہ اپنے چپمبر میں چلے گئے اور انھوں نے عدالتی عملے کو حکم دیا کہ وہ کمرہ عدالت میں موجود لوگوں کو خاموش کروائیں۔ عدالتی عملے نے اپنے تئیں لوگوں کو چپ کروانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔


فیصلہ سنانے سے پہلے عدالتی عملے نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کو جج کی کرسی کے بائیں جانب جانے کا کہا جبکہ دائیں جانب ملزمان کے لیے جگہ مختص کر دی۔

اسی دوران ایک خاتون وکیل نے آواز لگائی کہ جو لوگ اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ’حمایتی‘ ہیں وہ جج صاحب کی بائیں جانب آجائیں۔ خاتون کے اس فقرے پر کچھ لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔

عدالتی فیصلہ سنانے کے لیے جب ایڈشنل سیشن جج ایک بج کر 25 منٹ پر کمرہ عدالت میں آئے تو پہلے انھوں نے اس مقدمے کے شریک ملزمان کو جن میں ظاہر جعفر کے والدین بھی شامل تھے، طلب کیا اور ان کی حاضری لگائی۔




اس کے بعد ٹھیک ڈیڑھ بجے فیصلہ سناتے ہوئے پہلے تھراپی سینٹر کے مالک سمیت چھ ملازمین کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ بری ہونے کا لفظ سننے کے بعد ان ملازمین نے اونچی آواز میں نعرہ لگایا جس پر عدالتی عملے نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ بری ہونے کی آواز سن کر تھیراپی ورکس کے مالک سمیت دیگر ملازمین کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔


اس کے بعد عدالت نے مرکزی ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔


ظاہر جعفر

عدالت نے اس کے بعد مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو موت کی سزا سنائی۔ اس مقدمے کے ملزمان کو کمرہ عدالت سے باہر لے جانے کے بعد مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جج کے سامنے پیش کیا گیا۔


جب مجرم ظاہر جعفر کو جج کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے چہرے پر خوف نمایاں تھا اور اس کا جسم کانپ رہا تھا اور وہ عدالتی فیصلے کے بعد عدالت سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن پولیس کے اہلکار انھیں زبردستی روسٹم سے کھینچ کر بخشی خانے میں لے گئے۔


نور مقدم کے والد
نور مقدم کے والد شوکت مقدم

مقتولہ نور مقدم کی والدہ بھی اپنی بیٹی کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سننے کے لیے پہلی مرتبہ عدالت میں آئی تھیں اور فیصلہ سننے کے بعد ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ بار بار اپنے ساتھ کھڑی ہوئی خواتین کو کہہ رہی تھیں کہ ‘ماں کو کیوں چھوڑ دیا۔’ یہ کہتے ہوئے مقتولہ کی والدہ کمرہ عدالت سے باہر چلی گئیں۔


اس مقدمے کے مدعی اور مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اس فیصلے سے مطمئن ہیں یا اس فیصلے کو چیلنج کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی فیصلے کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ وکلا کی مشاورت کے بعد کریں گے۔


نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے تھوڑی دیر بعد عدالت کے باہر ایسا سناٹا چھا گیا جیسے یہاں پر کچھ ہوا ہی نہیں۔


دوسری جانب راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ متعلقہ عدالت کی طرف سے اس مقدمے کی مستند نقل ملنے کے بعد مجرم ظاہر جعفر کا لباس تبدیل کر دیا جائے گا اور اسے ڈیتھ سیل میں شفٹ کر دیا جائے گا۔



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments