اولین (مادری) زبان، لسانی عصبیت اور معروضی صورت حال


پاکستان جیسے کثیر لسانی ملک میں جب بھی مادری زبان کی ترقی و ترویج کی بات ہوتی ہے، ہمارے ما بعد نوآبادیاتی دور کی ذہنیت کے حامل دانشور اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر نوکریوں کے دروازے کھولیں جائیں، تب زبان زندہ رہ سکے گی ورنہ یہ اپنی موت آپ مر جائے گی، یہ بات وہ استعماری دور کے تجربے کی بنیاد پر کرتے ہیں،

اکادمی ادبیات اسلام آباد کے حالیہ مادری زبانوں کے میلے میں ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ پاکستان میں دو درجن سے زائد مادری زبانیں اس وقت آئی سی یو میں پہنچ چکی ہیں اور جلد ہی ان کا تنفس ساتھ چھوڑ جائے گا، ضروری ہے ان کو زندہ رکھنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، ناصر عباس نیر نے کہا کہ معروضی صورتحال اور کسی بھی نظریے یا آئیڈیالوجی کی پیشکش غیر مادری زبان میں بہتر ہو سکتی ہے جب کہ دلی اور موضوعی اظہار کے لیے بہترین زبان مادری ہی قرار دی جا سکتی ہے، نورالہدا شاہ کا عمومی تاثر سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ ماؤں کی ایک ہی زبان ہوتی ہے جسے بچہ خوب سمجھتا ہے مگر جسے مادری زبان کہا جاتا ہے وہ ماں کی زبان نہیں بلکہ کسی مخصوص علاقے کے لوگوں کے باہمی بول چال کی زبان کو مادری زبان کہا جاتا ہے،

درج بالا تمام معروضات آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مادری زبانوں سے جڑے ایسے سوالات کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے ورنہ یہ مباحث تو چلتے ہی رہیں گے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عورت ہو یا مرد، وہ اپنے مافی الضمیر کو بہتر بیان کرنے میں یقینی طور پر اپنی پہلی یا اولین زبان میں سہولت محسوس کرتا ہے، یہ پہلی زبان وہی ہے جو وہ اپنی ماں کی گود میں سیکھتا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ باپ سے بھی اسی زبان کے بارے میں کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر والدین کی زبان کہنے کے بجائے مادری زبان کہنا کہاں تک درست ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد زیادہ وقت اور کمیونیکیشن ماں سے کرتا ہے اس لیے اس کی اولین زبان کو مادری زبان کہا جا سکتا ہے، اگلی بات یہ ہے کہ اگر ماں گونگی ہو تو کیا اس بچے کی کوئی مادری زبان نہیں ہو گی؟ وہ اگر باپ یا بڑے بہن بھائیوں سے زبان سیکھے گا تو اسے کیا کہا جائے گا؟ ماں اگر سرائیکی ہو باپ وسطی پنجاب یا پوٹھوہار کا رہنے والا ہو تو مادری زبان کی کیا صورت بنے گی؟

زبان کی بنیاد پر جب علاقائی یا کلچرل بنیادوں پر معاشرے میں گروپ بندی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں زبان عصبیت کو راہ دیتی ہے، یہ عصبیت تو پروفیشن اور ذات پات کی بنیاد پر ہونے والی گروہ بندیوں کے نتیجے میں بھی پھیلتی ہے تو پھر اس کے لیے ماں بولی کو ہی موردالزام کیوں ٹھہرایا جاتا ہے،

اب اس محروم طبقے کو دیکھیے جو ماں بولی کی بنیاد پر نوکریاں حاصل کرنے کا خواہاں ہے، یہ مغالطہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ سمجھ لیا جائے کہ سرکار کی زبان چونکہ انگریزی، فارسی یا اردو ہے اس لیے نوکریاں ان کو مل جاتی ہیں جن کو ان زبانوں پر دسترس ہوتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پبلک سروس کمیشن میں انٹرویو کے وقت زبان کے الگ سے مارکس کبھی نہیں رکھے گئے، معیار تعلیمی استعداد قرار پاتا ہے، سول سروس میں انگریزی کو ذریعہ اظہار بنانے والوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہاں بھی ایک مغالطہ کھڑا کر دیا گیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ ذہین لوگ ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی اہلیت نسبتاً زیادہ رکھتے ہیں، دھیان ذہانت سے ہٹا کر زبان کی جانب موڑ دیا جاتا ہے کہ جو قرین انصاف نہیں ہے،

جو لوگ دو یا دو سے زیادہ زبانوں میں اظہار کی مہارت رکھتے ہیں وہ زیادہ ذہین ہوتے ہیں ان کی سمجھ بوجھ تقابلی جائزے میں بہتر قرار پاتی ہے مگر اپنی کم اہلیت کو چھپانے کے لیے زبان کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،

یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ دماغ میں ہمیشہ اولین زبان میں خیالات پیدا ہوتے ہیں اگر دوسری زبان میں بات کرنا ہو تو اولین زبان میں پیدا ہونے والے ان خیالات کو دوسری یا تیسری زبان میں دماغ فوری طور پر ٹرانسلیٹ کر دیتا، یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ اولین زبان کے بعد ہر دوسری زبان الگ سے مہارت کا تقاضا کرتی ہے، جو جتنی مہارت حاصل کر لیتا ہے اتنا ہی دوسری زبانوں میں اظہار پر اسے قدرت حاصل ہوتی چلی جاتی ہے، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ سیکنڈ کے کم حصے میں دماغ ٹرانسلیشن کر دیتا ہے اور بات کرنے والا مدلل طریقے سے تیزی کے ساتھ اظہار کر سکتا ہے،

آخری سوال یہ ہے کہ کیا شعوری طور پر کوشش کر کے مادری یا اولین زبان کہ جس سے نہ روزگار وابستہ ہو، کو زندہ رکھنے میں معاونت مل سکتی ہے؟ یا یوں کہہ لیجیے کہ جن زبانوں میں مہارت وجہ تفاخر نہ ہو، کیا وہ بھی زندہ رہ سکتی ہیں؟ یا وقت کے ساتھ مر جاتی ہیں؟ اس سے اگلی بات یہ ہے کہ کیا زبان کے مرنے سے اس زبان کا کلچر بھی مر جاتا ہے؟ یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ زبانیں کلچر کی نشوونما اور اگلی نسلوں تک ٹرانسپورٹیشن کا فریضہ انجام دیتی ہیں، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جب زبان ذریعہ اظہار نہیں تھی، تب بھی تو انسانوں کا کلچر پیدا ہوا تھا، تو پھر ہمیں ان مغالطوں کو کس جگہ ایستادہ کرنا چاہیے؟

عالمی سطح پر زبانوں کا دن منانے کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ ہمارے دانشوروں نے زبان سے جڑے مسائل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے اور سوالوں کے کئی جوابات تلاش کیے ہیں، ایسے مباحث اور تحریریں موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو کھولتی ہیں اور نئے در وا کرتی ہیں جس سے انسانی سوچ کا سفر آگے ہی آگے چلتا ہے، مادری زبانوں کے ادبی میلہ میں پاکستان میں بولی جانے والی 70 سے زائد زبانوں میں سے دو درجن زبانوں کی تحریریں مصنفین کے اپنے لہجے اور مادری زبان میں سن کر یہ احساس ہوا کہ اس خطے کی ان تمام زبانوں کے چالیس سے ساٹھ فیصد الفاظ لہجے اور صوت کے اعتبار سے اتنی زیادہ مشابہت رکھتے ہیں کہ تھوڑی توجہ کے ساتھ مفہوم تک رسائی ہو سکتی ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ انگریزی میں لکھے گئے کئی الفاظ کے معانی نہ جاننے کے باوجود مفہوم تک رسائی ہو جاتی ہے، جو علاقے آپس میں جغرافیائی سطح پر قریب ہیں ان علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کے الفاظ میں اتنی ہی زیادہ مماثلت ہے، اور ایسا دنیا بھر میں ہے، بلکہ ذرائع مواصلات کی سہولت کے سبب دور دراز علاقوں کی زبانوں کے الفاظ بھی دیگر زبانوں میں شامل ہونے لگتے ہیں،

یہاں آخری اشارہ اس مسئلے کی جانب کیا جانا بہت ضروری ہے کہ اگر ذریعہ تعلیم ایسی زبان میں ہو گا کہ جو پوری طرح ابھی تشکیل نہیں پائی یا جس کے دامن میں الفاظ ابھی محدود ہیں، یا علم کی پیش کش عالمی سطح سے پیچھے رہ گئی ہے تو کیا ہم اس نسل کے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے؟ اسی طرح سائنسی موضوعات کی پیش کش میں جس تنگ دامنی کا سامنا کرنا پڑے گا وہ اس قوم یا کمیونٹی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی؟ یہاں کچھ دانشور یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر صرف ایک زبان پر ہی فوکس کیا جائے گا تو وہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی جائے گی، ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو مگر جدید تر تحقیقات اگر بڑی قوموں کے ہاں ہو رہی ہیں تو انہیں ترجمہ کے ذریعے ہم کس حد تک دنیا بھر کی کم بولی جانے والی زبانوں میں منتقل کر پائیں گے؟

یہ کام کس کی ذمہ داری ہو گی؟ اب جب کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، ہم ترقی یافتہ ملکوں سے باہمی تعامل کر کے زیادہ تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر سکیں گے، عالمی منڈی میں عمارتی ساز و سامان، لباس، تہذیب و کلچر اور روایات کے ساتھ اگر زبان بھی اپنا لی جائے تو اس کا کیا نقصان ہے؟ یہی ناں کہ آپ کا تشخص ختم ہوتا چلا جائے گا، وہ تو ویسے بھی مختلف علاقوں میں بسنے والی قوموں کا ختم ہوتا جا رہا ہے، تو پھر کیوں نہ وقت کی رفتار کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلا جائے، اپنی اولین زبان تک خود کو محدود نہ کیا جائے بلکہ دوسری اور تیسری اور چوتھی زبان کو سیکھا جائے اور اس میں اظہار کی مہارت حاصل کی جائے، ادب کی تخلیق بے شک اپنی اولین یعنی مادری زبان میں کی جائے اور بعد میں اسے دوسری زبانوں میں منتقل کر دیا جائے مگر دیگر علوم کے حصول کے لیے دوسری اور تیسری زبان کو اپنایا جائے،

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کہا جاتا ہے کہ 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیے جانے کے پیچھے ڈھاکہ کے اس واقعے کی بنیاد ہے کہ جب اردو کو قومی زبان قرار دیے جانے کے خلاف احتجاج میں کچھ لوگ شہید کر دیے گئے تھے، جب چار سال بعد بنگلہ کو سرکاری زبان کا درجہ مل گیا تو پھر یہ تحریک ختم ہو جانا چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا، ایک تاثر یہ بھی دیا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کا بیج بونے والے طلبا اور صحافی تھے جن کے احتجاجی مظاہروں نے اس مسئلے کو بھڑکایا اور زبان کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، دوسری بات یہ ہے کہ اگر 21 فروری کو زبانوں کا عالمی دن اس واقعے کی وجہ سے قرار دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج پاکستان میں 21 فروری کو منانے کا مطلب بنگلہ کے اس واقعے کی تائید ہے،

آج تمام مادری زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیا جا رہا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اردو کو اس وقت بھی قومی سطح پر رابطے کی زبان قرار دیا گیا تھا جسے غلط مفہوم دے کر لسانی اور سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا، اگر اس وقت اردو کو رابطے کی زبان بنا لیا جاتا تو آج انگریزی شاید یہ مقام نہ حاصل کر پاتی، اس بات کا احساس انڈس کلچرل فورم کے تحت اکادمی ادبیات میں حالیہ منعقد ہونے والے مادری زبانوں کے میلے میں ان تقریبات میں ہوا جو مادری زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں کے بارے میں اردو زبان میں تمام لکھاریوں کا اظہار تھا جسے سبھی لوگ سمجھ رہے تھے، اور گفتگو کر رہے، ایک دوسرے کے لکھے کو جان رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments