ایاز مورس جدید میڈیا کا سفیر


Dr Shahid M shahid

ہر انسان کا الگ تشخص اور کردار ہوتا ہے۔ جس کی مرہون منت اسے معاشرتی پہچان ملتی ہے۔ یہ کامیابی اسے ایک پل میں ہی نہیں مل جاتی بلکہ اس کے پیچھے کئی سال کی ریاضت ہوتی ہے۔ جس میں لگن و محنت، تحقیق و جستجو، وقت و دولت، والدین کی دعاؤں کا بخور، اور خدا کی محبت جیسے عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ جن کی بدولت انسان کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے۔

آج میں ایک اپنے ہم عصر دوست کو جس پر رشک و تحسین کیا جا سکتا ہے۔ ان کی زندگی کے کئی دلچسپ پہلو ہیں جس نے انہیں انفرادیت کے رتبے پر فائز کیا ہے۔ ان پر لکھنا اپنا قلمی استحقاق سمجھتا ہوں۔ ان کی ذاتی لگن اور محنت نے انہیں آج ایک ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں انہیں معاشرتی مقام بھی ملا ہے اور اپنی کامیابیوں کا گوشوارہ بھی۔ فاضل دوست بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان کی ابتدائی زندگی بڑی دلچسپ ہے۔ ظاہر ہے جب تک بچپن میں ایسی چیزوں کی استعداد قبولیت نا ہو تو خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے تعلیم و تربیت حاصل کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ کامیابی کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ انہوں نے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ طبیعت میں علم و ادب کا میلان پیدا کیا۔ جس کی بدولت ان کا شوق و جذبہ آگے بڑھتا گیا۔ دلچسپی بھی کیا چیز ہے جو حیرتوں کا جہان آباد کر لیتی ہے۔ اس کی بدولت انسان زندگی میں ایسے ایسے کام کر جاتا ہے جو اسے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

ایاز مورس پیشے کے اعتبار سے موٹیویشنل اسپیکر، ٹرینر، جرنلسٹ، ادیب اور میڈیا پرسن ہیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے کئی اداروں سے پروفیشنل سرٹیفکیٹ اور تربیت حاصل کی۔ وہ منجھا ہوئے ادیب اور ایک دانشور ہیں۔ قومی سطح کے اخبارات جیسے ایکسپریس ( سنڈے میگزین) میں لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن اخبارات و جرائد میں اپنا لوہا منوایا ان میں ماہنامہ فیتھ فکشن ( آن لائن) کینیڈا، ہفت روزہ آگاہی، روزنامہ کندن لاہور، نوائے مسیحی، ہم سخن برطانیہ اور کرسچن وائس جیسے انگریزی اخبار شامل ہیں۔

وہ اپنے مضامین میں نوجوانوں کو باصلاحیت بنانے کے لئے ایسی تراکیب، تجزیے، ماہرین کی آراء، اور ذاتی تجربات و مشاہدات کی آواز عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد حیات اپنے لئے تو ہے۔ لیکن دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کے کام بھی شامل ہیں۔ ان کی شخصیت میں ذاتی عنصر سے لے کر عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے شامل ہیں۔ وہ اپنی قابلیت اور ذہانت کے بل بوتے ایسی تخلیقی اور فنی مہارتیں تیار کرتے ہیں تاکہ ایک نوجوان اس سے استفادہ کرے۔

آج کل وہ کارپوریٹ کمیونیکیشن کنسلٹنٹ، اور ڈیجیٹل میڈیا سٹریٹیجی ایکسپرٹ کے طور پر اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔ وہ صحافت میں عبادت کی طرح اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ مکالمہ اور ہم سب ویب سائٹ پر لکھ رہے ہیں۔ کیونکہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر یقین رکھتے ہیں جو ان کی تحریروں کو دیر تک زندہ رکھے گا۔ وہ ایک خاص مقصد کے تحت اپنی آنے والی نسلوں کے لیے مشعل بن کر جل رہے ہیں۔

اس کے علاوہ حق نیوز، آج ٹی وی، قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن، ایم ایم ٹی وی نیوز، پی ٹی وی ورلڈ، 92 ملٹی میڈیا ٹی وی، نیوز پاکستان، آواز ٹی وی، ریڈیو پاکستان کراچی، پاک یونٹی سویڈن ریڈیو، ایف ایم 6۔ 88 پر بطور مہمان آ چکے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ شگفتہ، حالات حاضرہ پر سیر حاصل شدہ گفتگو، جدید دور میں نوجوان کی ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع سخن گفتگو کا حصہ ہوتے ہیں۔ جو اثر انگیزی کے ساتھ ساتھ تربیت سے بھی لیس ہوتے ہیں۔

ان کے منشور میں زندگی کی وہ تمام باتیں شامل ہیں جو دوسروں کے لئے سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ وہ تواتر و تسلسل کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ خدمات کو نہایت ایمانداری کے ساتھ بانٹ رہے ہیں۔ ان کا یہ عمل انہیں دیر تک زندہ رکھے گا۔ وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ ان کی زندگی میں آگے بڑھنے کی جستجو ہے۔ جیسے وہ خود ایک کامیاب ٹرینر اور موٹیویشنل سپیکر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح وہ کئی نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر دینا چاہتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنی زندگی اور مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔ وہ ماسٹر ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔ انہوں نے کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک شخصیت ہیں۔ مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ شعور و آگاہی ان کی زندگی کا اولین مقصد ہے۔ اس کے علاوہ ایاز مورس نے اپنے یوٹیوب چینل پر پانچ سو سے زیادہ ویڈیو اپلوڈ کر رکھی ہیں۔ جو ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور دلچسپی کا آئینہ ہیں۔

ان کا مشہور پروگرام ”باتوں باتوں میں“ جس میں انہوں نے پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں۔ انہوں نے شعبہ تعلیم، ٹیچر ٹریننگ پروگرام، سماجی اور مذہبی شخصیات کے تقریباً ایک سو چالیس سے زائد انٹرویو کیے ہیں۔ جس سے ان کی محنت، لگن، اور تعلقات و روابط کے حدود اربعہ کا پتہ چلتا ہے۔ وہ نوجوانوں کو متحرک رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے نوجوانوں کو معاشرے کا ایک کارآمد فرد دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں اپنے ہم قلم بھائی کے لیے نیک تمناؤں کے ساتھ اس کے بہتر مستقبل کا خواہاں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments