ارج، دیباج، میں اور ہماری تربیت


ماں کی گود کو پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے کیونکہ بچے کا سب سے زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔ وہ کیا کرتی ہے؟ کیسے کرتی ہے؟ کب کرتی ہے؟ کیوں کرتی ہے؟ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو بچوں کی تربیت بنتی ہیں۔ ماں کا زندگی کو لے کر چلنے کا انداز، مختلف واقعات پر اس کا ردعمل اور بچے سے اس کا برتاؤ بچے کی شخصیت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہر عورت اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں اور اس میں کچھ خواتین بہت با صلاحیت ہوتی ہیں اور اس کی وجہ ان کی تعلیم اور ان کا گھریلو ماحول اور تربیت ہوتی ہے۔ میری مما کہتی ہیں کہ ماں بچے کو صرف چلنا، پھرنا، بولنا، لکھنا، پڑھنا ہی نہیں سکھاتی بلکہ اسے خواب دیکھنا بھی سکھاتی ہے۔ ہارنے کا فن اور جیتنے پہ خوش ہونا، حسد سے بچنا اور خاموش قہقہوں کا راز بتاتی ہے۔

کتاب کو پڑھنا، اور وقت نکال کر اردگرد لوگوں، رنگوں، پھولوں، پہاڑوں اور کائنات کے پوشیدہ رازوں کے بارے میں سوچنا سکھاتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ سب لوگ اچھے اور سچے نہیں ہوتے اور نہ ہر سنی ہوئی بات سچی ہوتی ہے مگر ہاں ہر بات میں کچھ نہ کچھ سچائی ہوتی ہے تو اس سچ کو کیسے کشید کیا جاتا ہے، آنسوؤں کو کیسے پیا جاتا ہے، اور اداسی میں خوشی کی امید کیسے آتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں سب سہولیات کے باوجود ہماری ماں نے ہمیں لاڈلا ہونے سے بچانے کے لئے کچھ اقدامات کیے ۔ چھٹے فلور پر پانی کا پریشر نہ ہونے کا بہانہ کر کے ڈش واشر کو ایک عرصے تک محض سٹینڈ کے طور استعمال کیا گیا تاکہ ہمیں برتن دھونا آ جائیں۔ ہمارے ہاتھوں سے بنی عجیب و غریب روٹی کھا کر ہماری جھوٹی تعریفیں کر کے ہمیں یقین دلایا کہ ہم روٹی بنا سکتے ہیں اور اسی طرح کے کئی اور چیزیں غیر محسوس طریقے سے سکھا ڈالیں۔

ہمیں بتایا کہ کندن بننے کے لئے بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمیں ہمت، صبر اور حوصلے جیسے جذبات سے متعارف کروایا۔ خود پر یقین رکھنا سکھایا کیونکہ وہ کہتی ہیں کہ خود پر یقین انسانیت پر یقین کی طرف لے کر جاتا ہے۔ خوشامدی اور چاپلوس لوگوں سے بچ کر اپنی محبت اور روح کو انمول رکھنا سکھایا اور بتایا کہ محبت کو محبت ہی سمجھنا ہے کیونکہ اول انسان کے پاس اس کے اظہار کے لئے الفاظ ہی ہوتے ہیں لہٰذا اس خزانے کو شک یا بدگمانی سے کبھی نہیں گنوانا۔

لوگوں کے دھوکہ دہی کے برتاؤ سے اپنے اندر کی اچھائی کو مرنے نہیں دینا کہ جو لوگ مخلص نہیں ہوتے زندگی بھی ان کے ساتھ کبھی مخلص نہیں ہوتی اور ہو سکتا ہے ہم اپنے ساتھ دھوکہ کرنے والوں سے بدلہ لینے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں مگر ایسے لوگ قدرت کی گرفت سے نہیں بچ پاتے۔ تو بس ہمت، صبر اور حوصلے سے زندگی میں چلتے جانا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ آپ کی ذات سے کسی کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے اور کچھ نقصان تو مالی نقصان سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں جیسا کہ جذباتی یا روحانی کیونکہ اس کے بعد انسان کسی پہ بھروسا نہیں کر پاتا جبکہ زندگی قدم قدم پر بھروسے کی محتاج ہے۔

ہماری چھوٹی بہن کوئی پانچ یا چھے سال کی ہوگی اور اس نے کہیں سے ایک گالی سن لی اور وہ ہر چھوٹی بات پر گالی دینے لگی تو مما کو لگا کہ اسے دلیل سے بات سمجھانا تو ممکن نہیں تو انہوں نے کالے رنگ کے انک پیڈ سے سیاہی انگلی پر لگا کر اسے کہا کہ یہ ناک پہ کیا لگا ہوا ہے اور جیسے ہی اس نے آئینے میں دیکھا تو گھبرا گئی تو بس پھر جب وہ گالی دیتی مما یہی عمل دہرا کر کہتیں کہ جو بچے گالیاں دیتے ہیں ان کی ناک کالی ہو جاتی ہے اور اگر اس عادت کو نہ چھوڑیں تو کالی ہونے کے بعد گر بھی سکتی ہے تو پھر آپ کیسی لگو گی؟ چند ہی دنوں کے بعد اسے وہ لفظ بھول گیا۔

سوشل میڈیا پر میرے اردگرد علم کے ڈھیروں سورجوں میں سے ایک ڈاکٹر رضوان اسد بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں سے کی گئی بات چیت کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے ایک ایسی روشن ضمیری کا ثبوت دیا جس کی ہمارے معاشرے میں اشد ضرورت ہے۔ ہم نے مذہب کے نام پر جو خود ساختہ معیار لڑکیوں کے لئے بنا رکھے ہیں ان کا تو بیان بھی ممکن نہیں اور کجا ڈاکٹر صاحب کی اپنی شہزادیوں سے ایک ایسے موضوع پر گفتگو وال کا حصہ بنانا جس کو کرنا ہی ہمارے کچھ نام نہاد مفتیان ممنوع سمجھتے ہیں۔ میں نے ان کی تحریر کو ان کی اجازت سے اپنے آرٹیکل کا حصہ بنایا ہے۔

ہم میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ چلو، فی الحال (جی، جی، خوش فہمی والا) ، اگر مجھے مفتی طارق مسعود صاحب کے فرمودات پر عمل کرنے کی اجازت، ہمت اور توفیق نہیں بھی ملتی تو کم از کم ہم اپنی بیٹیوں کی تربیت ہی اس طرح کر لیں کہ کل کو انہیں اپنے شوہر کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہ ہو۔

سو آج 9 سال ارج اور 7 سالہ دیباج سے گفتگو شروع ہوئی۔
ام دیباج: بٹیا، کیا آپ اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دو گی؟
دیباج: (جھٹ سے ) نہیں۔ بالکل بھی نہیں
ام دیباج: وہ کیوں؟
دیباج: (بلا توقف) کیونکہ مجھے اس سے جیلسی ہو گی۔
ام دیباج: (بمشکل ہنسی روکتے ہوئے ) لیکن بیٹا، اللہ نے تو انہیں اجازت دی ہے
ارج: (بیچ میں کودتے ہوئے ) لیکن پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر تو نہیں کر سکتے نا۔
ہم دونوں : (دل ہی دل میں ) ۔ برا ہو پاکستان کے قانون اور بچوں کی انفرمیشن کا!

مابدولت: (پیچ و تاب کھاتے ہوئے ) لیکن بیٹا، یہ تو ہمارے ملک کا غلط قانون ہے، اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں۔

ارج: لیکن قانون تو قانون ہے۔
مابدولت: (دل ہی دل میں، خادم رضوی سٹائل میں )
قانون دی پین دی سری۔
ام دیباج: اچھا یہ بتاؤ، کیا آپ کے بابا دوسری شادی کر لیں؟
دونوں (پیاری سی) چڑیلیں، بیک زبان: بالکل بھی نہیں
مابدولت (اخیر جھلا کر) : وہ کیوں؟
دیباج: (اس چلاکو ماسی کی عمر دوبارہ نوٹ فرما لیں )

جب میں نے آپ سے Nintendo مانگی تھی تو آپ نے کہا تھا کہ گھر میں پہلے سے PlayStation موجود ہے۔ اس لیے ننٹینڈو میری ضرورت نہیں ہے، بس میرا دل چاہ رہا ہے لینے کو۔ اور ہر چیز، جس کا دل چاہے، وہ لینا ضروری نہیں ہوتا۔ اور آپ نے کہا تھا کہ یہ میری Need نہیں بلکہ Want ہے۔

اسی طرح آپ کے پاس ماما ہیں نا۔ آپ کو دوسری بیوی کی ضرورت نہیں، بس آپ کا دل چاہ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے دوسری بیوی بھی آپ کی Need نہیں، Want ہے!

”تربیت“ کرنے کی بجائے، 7 سالہ بچی سے خود کی کروا کر ہم دونوں اتنا ہنسے، اتنا ہنسے کہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

(سو فیصد سچا واقعہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments