ایک ناقابل یقین خواب اور اُس کی ناقابل یقین تعبیر


اس کہانی میں بنیادی کردار ایک خواب نے ادا کیا اور اس کی ابتدا، سہولتوں اور وسائل سے محروم، کرائے پر حاصل کی گئی، شہر سے دور ایک غیر اہم اور نام کی ڈسپنسری سے ہوئی۔ بے سروسامانی سے دوچار، ارادوں کو یقین تھا کہ تہی دستی اپنی جگہ، آنکھوں سے چسپاں اس خواب کو ایک نہ ایک دن حقیقت کا نقش بننا ہو گا۔ خواب پالنے والے، پر خار، راستوں سے کب گھبرائے ہیں، ان کے تلووں پر ابل آنے والے آ بلے، مسافت کی نشاندہی تو کرتے ہیں مگر ان کے آگے بڑھنے کے جذبے کو داغ دار نہیں کر سکتے۔ منزل کی سمت پہلا قدم اٹھانے کے بعد ، منزل تک نہ پہنچنے کا خوف اور اندیشہ کیسا۔

زاد راہ میں جب لالچ، خود نمائی، ذاتی مفاد اور دکھاوا، کچھ بھی شامل نہیں، تو کم مائیگی کاہے کی۔ یہ وہ خواب تھا جس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ اسے خود بھی اپنے وجود پر فخر ہوا ہو گا کہ ایسی پاکیزگی، طہارت، خوبصورتی، نور اور تقدس، ہر خواب کے نصیب میں کہاں۔ اور پھر وہی ہوا۔

ایسے خواب کی سچائی، بھلا کب تک اوروں سے اوجھل رہ سکتی تھی سو جب ایک مخیر نے جذبے کے عقب میں کارفرما، نیت کو بھانپتے ہوئے، وہ اسباب فراہم کیا جو اس سفر میں پہلی ایمبولینس کے حصول کا ذریعہ بنا، تب یہ طے ہو گیا کہ عمل کی یہ رفتار اب کبھی نہ رک سکے گی۔

یہ الگ بات کہ ہر مرحلہ اب بھی کٹھن اور ہر لمحے ایک نئے امتحان کا متقاضی تھا۔ کسی کے گمان میں بھی ایسا منظر نہ تھا کہ، خود سے بے نیاز، اپنے آپ سے بے خبر، اوروں کی آسانی، بے سہاروں کی دل جوئی اور ٹھکرائے ہووں کی حمایت کے لئے، سڑکوں پر کھڑا، اپنی جھولی پھیلائے، سب سے مدد کا طلب گار ہو گا۔

خلوص دل کی یہ صدا کب تک، ان سنی جاتی، جن راستوں پر اکیلے قدموں کے نشان تھے، وہاں آوازوں سے آوازیں ملنے لگیں۔ بنا چھت کا پڑاؤ، اب، اور سایہ دار چھتوں کے وجود کی وجہ بننے لگا۔ اور یوں رفتہ رفتہ، غیر محسوس طریقے سے خواب، تعبیر کی صورت، شکستہ دل اور مایوس چہروں کی امید میں ڈھلنے گا۔

یہ اسی خواب کی تعبیر تھی کہ

دیکھنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تاریخی میٹھا در سے محبت کا ایسا دریا پھر رواں ہوا جس کی مٹھاس قریہ قریہ، گلی گلی اور شہر شہر ہوتے ہوئے، سارے ملک میں محسوس کی جانے لگی۔

اور اس کے بعد جو ہوا، وہ سب کی توقع، یقین اور قیاس سے کہیں آگے کی بات تھی۔ باتیں اور صرف باتیں کرنے والوں کے درمیان وہ چہرہ ابھرا، جسے عمل اور صرف عمل کرنا آتا تھا۔ بھانت بھانت کے دعوی کرنے والوں کی بھیڑ میں وہ انفرادیت دکھائی دی جس کا صرف ایک دعوی تھا کہ میں نے اپنی پہچان انسانیت بنائی۔ اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور روکھے پھیکے لہجے نے تصنع اور بناوٹ سے سجے لفظوں اور نرگسیت زدہ لہجوں کو اپنے اندر نگل لیا۔ دوسروں سے خود کو برتر اور افضل جتانے والوں کے حصار کو توڑ کر، خود کو کم تر جانتے ہوئے، انسانی عظمت کی ساری بلندیاں سر کر ڈالیں۔

ایک شخص جس نے اپنی ذات کو بھلا کر، دوسروں کی نگہداری کی وہ مثال قائم کی جس کا بدل پیش کرنے سے وقت، جانے کب تک قاصر رہے گا۔ اپنی زندگی محدود کر کے جس نے خود کو ضرورت مندوں کے لئے لامحدود بنا لیا۔

خود کو کفایت شعاری کی قید میں ڈال کر دوسروں کو دکھوں سے آزادی دلانے کے لئے اپنا سب وقف کر دیا۔ سڑک، گلی، ویرانہ، ہر جگہ پھیلی بے بسی کو سمیٹنا چاہا اور چارسو بکھری بے حسی کے خلاف مسلسل نبرد آزمائی کی۔

بیماروں، لاچاروں اور بے سہاروں کے لئے اپنی زندگی کا ہر لمحہ، دان کر دیا۔ چالیس سال جب بھی سڑک پر گاڑی دوڑائی، وہ صرف ایک ہی گاڑی تھی اور وہ تھی ایمبولینس!

ایمبولینس کے سوا، کبھی کسی اور نوعیت گاڑی کو چلانے کا نہ موقع ملا نہ وقت اور شاید، نہ ایسی خواہش ہوئی۔

28 فروری ( 1928 ) وہ مبارک تاریخ ہے، جب ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں ایک عظیم ماں کے گھر اس بچے نی آنکھ کھولی جسے اس کی ماں نے جیب خرچ دیتے ہوئے ہمیشہ یہ تلقین کی کہ جتنا بھی ہو، آدھا دوسروں پر خرچ کرنا ہے اور اس طرح اس بچے کی آنکھوں نے یہ خواب دیکھا کہ زندگی صرف اپنے لئے جینے کا نام نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments