برطانیہ میں ’پرتشدد سیکس‘ کو دفاع کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف قانون: ’پولیس نے کہا یہ ریپ نہیں پرتشدد سیکس ہے‘


انتباہ: اس مضمون میں گھریلو تشدد اور جنسی تشدد کی تفصیلات ہیں۔

بی بی سی تھری نے ایسی نوجوان خواتین سے بات کی ہے جن کا دعویٰ ہے ان کے ریپ کے واقعات نام نہاد ’رف سیکس‘ یا ‘پرتشدد سیکس’ کے عذر کو دفاع کے طور پر پیش کیے جانے کی وجہ سے کبھی بھی عدالت میں نہیں پہنچ سکے۔

پیر کو انگلینڈ اور ویلز میں باہمی رضا مندی سے ‘پرتشدد جنسی عمل’ کے عذر کو قتل کے مقدمات میں صفائی یا دفاع کے طور پر پیش کرنے پر پابندی کے لیے گھریلو تشدد کے قانون میں اراکین پارلیمان نے ترمیم کی منظوری دے دی ہے اور اسے اب قانون میں شامل کیا جائے گا۔

اراکین پارلیمان، اس حوالے سے مہم چلانے والے اور متاثرین انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

23 سالہ لوسی (اصل نام نہیں) ایک ایسی ہی ایک متاثرہ خاتون ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پر تشدد کرنے والے سابق ساتھی کے خلاف پولیس میں ریپ کی شکایت لے کر جانے سے پہلے وہ کئی ماہ تک پریشان رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’باہمی رضا مندی سے پرتشدد سیکس کے عذر کو تسلیم نہیں کیا جائے گا‘

سیکس کے دوران ’اس نے میرا گلا دبانے کی کوشش کی‘

’میری اہلیہ نے مجھے دس سال تک جنسی ہوس کا نشانہ بنایا‘

بیٹی کا باپ پر ریپ کا الزام: ’شوہر کو بطورِ ثبوت برہنہ ویڈیو بھیجنی پڑی‘

انٹرنیٹ پر تلاش کے دوران انھوں نے اس بات پر کافی تحقیق کی کہ بطور ایک متاثرہ خاتون قانونی عمل کیا ہوگا۔ ایک تلاش کے نتیجے نے انھیں واقعی متاثر کیا جس میں لکھا تھا:

’پرتشدد جنسی فعل کے عذر کو (جسے 50 شیڈز ڈیفینس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) دفاع کے طور پر بعض ایسے ملزم استعمال کرتے ہیں جن پر اپنے سیکس پارٹنر کے قتل یا تشدد کر کے زخمی کرنے کا الزام ہوتا ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ باہمی رضامندی سے کیے گئے سیکس کے دوران یہ موت واقع ہوئی یا چوٹیں آئیں۔‘

لُوسی کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک پولیس افسر کو بتایا کہ وہ اس بات سے زیادہ پریشان ہیں کہ ‘پرتشدد سیکس’ کو عدالت میں ان کے خلاف دفاع کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

‘انھوں نے کہا کہ اس کی فکر نہ کریں۔ انھوں نے مجھے بہت زیادہ امید دلائی۔ اس سے پہلے تو اس معاملے کو اٹھانے کے بارے میں ہی میرے بہت سے خدشات تھے۔’

لُوسی نے اپنا فون پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس پر لوسی کے اور ان کے سابقہ ساتھی کے درمیان سیکس کی ویڈیوز موجود تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے سابقہ ساتھی کو ان کے درمیان سیکس کی فلمبندی کا ‘جنون’ تھا اور وہ کہتا تھا کہ اگر انھوں نے انکار کیا تو وہ اس سے رشتہ توڑ دے گا۔

‘ریپ سے پہلے ہمارے درمیان تکرار ہوئی تھی کیونکہ میں نے ایک مرد کے انسٹا گرام پوسٹ پر تبصرہ کیا تھا۔ وہ بولا ‘اچھا تم اگر دوسرے مردوں کے بارے میں سوچتی ہو تو تم مجھ سے پیار نہیں کرتی۔’

‘میں نے معافی مانگنے کی کوشش کی اور ہم وہاں دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ پھر میں نے وہاں سے جانے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے مجھے جانے نہیں دیا۔ وہ سزا کی طور پر لگاتار چار پانچ گھنٹے تک سیکس کرنا چاہتا تھا۔‘

’اس رات کی ویڈیو میں میں کہہ رہی ہوں کہ میں یہ نہیں کرسکتی، میں یہ نہیں کرنا چاہتی۔’

‘آپ اُسے یہ کہتا سن سکتے ہیں کہ ‘اس سے پہلے کے میں غصہ ہو جاؤں تمہیں ایسا کرنا پڑے گا، بس تم کرو‘۔ میں چیخ رہی ہوں، رو رہی ہوں، دور ہونے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اور پھر اس نے مجھے بہت زور سے مارا۔’

لُوسی کا کہنا ہے کہ چھ ماہ بعد پولیس نے انھیں بتایا کہ وہ اس معاملے میں مزید کوئی کارروائی نہیں کریں گے اور یہ معاملہ کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کو نہیں بڑھایا جائے گا کیونکہ اس معاملے میں ‘پرتشدد جنسی عمل’ کو دفاع کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

‘پولیس نے کہا کہ میرے فون پر موجود دیگر ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہم نے باہمی رضامندی کے ساتھ پرتشد سیکس کیا اور اس لیے میرے سابقہ ساتھی کو یہ پتا نہیں چل سکا ہوگا کہ میں اس بار ایسا نہیں چاہتی تھی۔’

کسی عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی پولیس کے اس فیصلے نے ان کے سب سے بڑے خدشے کی تصدیق کر دی۔

اب لُوسی جیسی متاثرہ خواتین، اس حوالے سے مہم چلانے والے اور اراکین پارلیمان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سی پی ایس اور پولیس فورسز سے کہیں کہ وہ ان تمام جنسی تشدد کے واقعات پر نظرثانی کریں جو کہ ‘پرتشدد سیکس’ کے دفاع کی وجہ سے مسترد کر دیے گئے تھے۔

ترمیم منظور ہو چکی ہے اور ‘پرتشدد سیکس’ کے دفاع پر پابندی لگا کر اسے گھریلو زیادتی کے بل میں بطور قانون شامل کیا جائے گا۔

قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کرنے والی لیبر پارٹی کی ہیریئٹ ہرمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘پرتشدد سیکس’ کو دفاع کے طور پر استمعال کیے جانے کی وجہ سے جو کیسز مسترد کر دیے گئے ان پر نظر ثانی انصاف کے نظام کے لیے ‘انتہائی اہم’ اگلا قدم ہوگا۔‘

انھوں نے کہا ‘میں پبلک پراسیکیوشنز کے ڈائریکٹر سے ملاقات کرنا چاہ رہی ہوں کیونکہ انھیں مقدمات کو آگے لے جانے کے لیے نئے رہنما اصول جاری کرنے کی ضرورت ہوگی۔ میرے خیال سے انھیں پہلے کے واقعات پر نظر ڈالنی چاہیے کیونکہ ایسے معاملات کے کافی شواہد موجود ہیں جہاں سی پی ایس نے کسی حد ‘پرتشدد سیکس’ کے دفاع کو دیکھ کر ہی مزید کارروائی نہیں کی۔‘

‘پورا نظام متاثرین کو مایوس کر رہا ہے۔ ریپ اتنہائی سنگین جرم ہے جو خواتین کو جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے۔ (ایسے میں) یہ ضروری ہے کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔’

اس قسم کے معاملات پر نظرثانی کا موقع ان متاثرین کے لیے انصاف کی ایک نئی لہر کا سبب بن سکتا ہے جن کے معاملات کبھی عدالت تک نہیں پہنچ سکے۔

مہم ‘وی کانٹ کنسینٹ ٹو دِس’ یعنی ‘ہم اس کے لیے رضا مند نہیں ہو سکتے’ نے ‘پرتشدد سیکس’ کے دفاع کو کالعدم قرار دینے کی مہم چلائی۔ ان کے مطابق پچھلی دہائی کے دوران برطانیہ میں 60 خواتین مردوں کے ہاتھوں قتل ہوئيں جنہوں نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ خواتین نے پر تشدد سیکس کے لیے ‘رضامند’ دی تھی۔ 45 فیصد معاملات میں اس دفاع کی وجہ سے اسے غیر ارادی قتل یا جرم ہی قرار نہیں دیا گیا۔

‘پرتشدد سیکس’ کو عموماً خواتین کے قتل کے کیسز میں دفاع کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے جیسا کہ بیک پیکر گریس میلانے کے قتل میں، اس کے علاوہ شدید تشدد کے کیسز میں بھی اسے دفاع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

بی بی سی تھری نے 2020 میں ایسے چار کیسز ڈھونڈے ہیں جن میں ’باہمی رضا مندی سے پرتشدد سیکس‘ کے عذر کو ریپ اور جنسی تشدد کے الزامات کے مقدمات کوں دفاع کے طور پر استعمال کیا گیا۔ گذشتہ پانچ برس پر اگر نظر ڈالیں تو ان کیسز کی تعداد 17 تھی۔

’ہم اس کی اجازت نہیں دیتے‘ کے نام سے کام کرنے والے فلاحی ادارے کا کہنا ہے کہ عدالتی نظام یہ نہیں بتا سکے گا کہ کتنے کیسز کو ‘پرتشدد سیکس’ کے دفاع کی وجہ سے خارج کیا گیا۔ ان کا موقف ہے کہ مستقبل میں کراؤن پراسیکیوشن سروس اور پولیس ایسے کیسز کا ریکارڈ رکھے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ’صرف ہم پر نپیں چھوڑا جا سکتا۔‘

لُوسی کو جب یہ بتایا گیا کہ ان کا ریپ کیس ‘پرتشدد سیکس’ کے دفاع کی وجہ سے خارج کیا جارہا ہے تو اس واقعے سے ایک سال پہلے انھیں پولیس کی طرف سے ایک فون کال آئی۔ پولیس کو تشویش تھی کہ وہ ایک پر تشدد رشتے میں ہیں۔ لوسی نے پولیس کو بتایا کہ وہ اور ان کا بوائے فرینڈ اب ساتھ نہیں ہیں۔ انھوں نے پولیس کو تفصیلاً یہ بھی بتایا کہ ان دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی اور یہ سلسلہ کس طرح آگے بڑھا۔

لُوسی نے بتایا کہ جب ان کے رشتے کی شروعات ہوئی تو انھوں نے ایک دن مذاق میں کہا کہ وہ سیکس کے دوران آرگیزم کے بارے میں جھوٹ بول رہی تھیں۔ لوسی کے مطابق اس کے بعد ان دونوں نے سیکس کیا تو ’اس نے مجھے اتنا چوک کیا (گلا دبایا) کہ میں بیہوش ہونے کے قریب تھی اور کہا کہ آئندہ میں نے جھوٹ بولا تو وہ اس سے بھی زیادہے کر سکتا ہے۔

لوسی بتاتی ہیں کہ اس کے بعد جسمانی تشدد جاری رہا اور وہ یہ دیکھتا رہا کہ وہ یہ سب کتنی حد تک سہہ سکتی ہیں اور ان کا ردِعمل کیا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

’میرے ریپ کی ویڈیو فحش ویب سائٹ پر لوڈ کر دی گئی‘

بچوں پر جنسی تشدد، سرعام پھانسی کی قرارداد منظور

لُوسی کہتی ہیں کہ انھیں بھی کہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ یہ رویہ ٹھیک نہیں کیوں کہ انھوں نے سنیپ چیٹ پر ہونے والی چیٹ کو اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کردیا تھا۔

پولیس نے یہ میسجز دیکھے اور اس طرح ریپ والی بات کا ذکر شروع ہوا۔

ایک میسج میں لکھا تھا ‘اگر تم نے میرے ساتھ صحیح سلوک نہیں رکھا تو میں تمھیں ریپ کروں گا۔‘

اسی طرح ایک اور میسج میں ان کے بوائے فرینڈ نے لکھا کہ ’میں تمھارے جسم کے ساتھ جو چاہے کرسکتا ہوں۔‘

لُوسی کے مطابق ان کے ریپم کے دو دن بعد انھیں پیغام ملا کہ ’اب تم ریپ ہوچکی ہو، واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔‘

ریپ کو رپورٹ کرنے سے متعلق غیر محفوظ محسوس کرتے ہوئے لُوسی نے دھمکی آمیز پیغامات کی شکایت کر دی۔

اس کے بعد لوسی نے پولیس کی جنسی تشدد پر کام کرنے والے یونٹ سیکشوئل اسالٹ ٹیم کے سامنے بیان ریکارڈ کروایا۔ انھوں نے خوف کی وجہ سے ریپ کا چارج نہیں لگایا اور صرف یہ الزام عائد کیا کہ انھیں دھمکی آمیز پیغام بھیجے گئے ہیں۔

ان کے سابقہ بوائے فرینڈ نے قبول کیا کہ ریپ کی دھمکی سمیت اس نے دیگر پرتشدد پیغامات بھیجے تھے۔ اس کے بعد لُوسی کو حوصلہ ملا اور انھوں نے ایک اور مقدمہ درج کروایا۔

لوسی کہتی ہیں کہ پولیس نے جس طرح اس دوسرے چارج کے بارے میں ان سے ذاتی سوال پوچھے، اس سے انھیں شرم اور تکلیف محسوس ہوئی۔

’پولیس کا یہ کہنا کہ ‘پرتشدد سیکس’ کو دفاع کے طور پر پیش کیا جانا اس بات کی وجہ ہے کہ وہ میرے ریپ کے کیس میں مزید ایکشن نہیں لیں گے۔ اور وہ بھی اس کے بعد جب میں نے پولیس والوں کو اس کی ویڈیو بھی دکھائی۔ صرف ایک نہیں بلکہ کئی پولیس والوں نے سیکس کی ویڈیو دیکھی اور یہی جواب دیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں انصاف نہیں ملا۔

خواتین کی عدالتی معاملات میں مدد کے لیے کام کرنے والا ادارہ سینٹر فار ویمن جسٹس کہتا ہے کہ انھوں نے ایسے کئی کیسز کے خلاف اپیل کی ہے جہاں پر تشدد سیکس کو دفاع کے طور پر استعمال کیا گیا اور کیس خارج کردیا گیا۔

پولیس اور کراؤن پراسیکیوشن سروس کی طرف سے ایسے کیسز میں دیے گئے فیصلوں کے خلاف متاثرین کے پاس اپیل کا حق ہوتا ہے، جو کہ انھیں تین ماہ کہ اندر اندر دائر کرنی ہوتی ہے۔ لیکن غیر معمولی کیسز میں اس مدت میں توسیع بھی کر دی جاتی ہے۔

ادارے کے لیے کام کرنے والی انسانی حقوق کی وکیل اینا میزولا کہتی ہیں کہ اب زیادہ تر ایسے کیسز سامنے آرہے ہیں جن میں واضح شواہد ہونے کے بعد بھی کراؤن پراسیکیوشن سروس اسے مسترد کردیتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر ان کیسز پر نظرثانی کی ہدایات دی جائیں تو اس سے متاثرین کو بہت مدد ملے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایسے تشویش ناک فیصلوں کے بارے میں علم ہے لیکن یہ صرف وہ کیسز ہیں جن کا انھیں پتا ہے اور ممکن ہے کہ ایسے بہت سے دیگر کیسز بھی ہوں جو ان تک پہنچے ہی نہیں۔

تین سال پہلے ایلا (فرضی نام) کو پولیس کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں ان کی جنسی تشدد کی شکایت سے متعلق کراؤن پراسیکیوشن سروس کا فیصلہ تھا۔

کراؤن پراسیکیوشن سروس کا یہ فیصلہ تھا کہ ’اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ ملزم کو اس بات کا یقین تھا کہ آپ دونوں کے درمیان سیکس بغیر اجازت کے ہوا۔‘

ایلا کو اس فیصلے میں لکھی گئی اس سطر نے زبردست دھچکا پہنچایا۔

لوسی کے برعکس ایلا اپنے مبینہ حملہ آور سے پہلے کبھی نہیں ملی تھیں۔ وہ دونوں ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ پر ملے اور اس کے بعد ایک ریسٹورانٹ میں ملنے کے لیے حامی بھری۔

انھوں نے کہا کہ ان کی ملاقات اچھی چل رہی تھی لیکن اس دن اچانک لندن برج پر شدت پسندی کا واقعہ پیش آیا اور گھر واپس جانے والی تمام ٹرینیں منسوخ ہوگئیں۔ اس لڑکے نے انھیں اپنی طرف رکنے کی پیشکش کی اور انھوں نے دوسرا راستہ نہ ہونے کی وجہ سے حامی بھر لی۔

انھوں نے کہا کہ باہمی رضامندی سے سیکس شروع ہونے کے بعد اچاناک اس لڑکے نے انھیں شدید تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ‘اس نے میرا گلا گھوٹنا شروع کر دیا اور میرے پورے جسم، میری ٹانگیں، میرا گلا ہر جگہ تشدد کرنے لگا۔‘

’تھوڑی دیر بعد میں وہاں پڑی سوچ رہی تھی کہ میرے ساتھ ایک بہت بڑا واقع پیش آیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے فلیٹ واپس جا کر بہت روئیں اور اپنی دوستوں کو بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ ابھی پولیس میں رپورٹ درج کروانے کے لیے تیار نہیں تھیں اور انھیں ان کے دوستوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جائیں تاکہ ان کو لگنے والی چوٹوں کا ریکارڈ رکھا جاسکے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس واقعے کے بعد ان کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی اور وہ ہر وقت روتی رہتی تھیں۔ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ رپورٹ درج کروائیں گی۔

ایک پولیس اہلکار ان سے ملنے آیا اور انھوں نے ان سے سب سے پہلے ‘پرتشدد سیکس’ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد ان سے سوالات کیے گئے۔

وہ کہتی ہیں کہ پولیس کے سوالات سے ایسا لگا کہ انھیں پرتشدد سیکس اور سیکس کے دوران تشدد میں فرق معلوم نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں ان سوالات کی وجہ سے بے عزتی محسوس ہوئی اور ایسا تب ہو رہا تھا جب وہ اتنے بڑے سانحے سے گزر رہیں تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر اس لڑکے پر فردِ جرم عائد کردی جاتی اور اسے سزا ہوجاتی تو انھیں ایک لحاظ سے سکون اور انصاف کی فراہمی کا احساس ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اب انھیں پوری زندگی اس فیصلے کے ساتھ رہنا ہوگا۔

گذشتہ برس بی بی سی کی ایک تحقیق میں پتا چلا کہ برطانیہ میں 37 فیصد خواتین ایسی ہیں جنھیں رضامندی کے ساتھ سیکس کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک تہائی کا کہنا ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کا گلا دبایا گیا۔ فلاحی اداروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج تشویش ناک ہیں اور سیکس کے دوران تشدد عام ہوتا جارہا ہے۔

سائکو تھیراپسٹ سلوا نیویز کہتے ہیں کہ لوگ اکثر محفوظ انداز میں ’پرتشدد سیکس‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور وہ اس میں باہمی رضامندی ک اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

‘بی ڈی ایس ایم کے بارے میں عام طور پر غلط تاثر ہے کہ اس عمل سے تکلیف ملتی ہے۔ باہمی رضامندی کا مطلب ہے کہ دونوں فریقین وہ چیزیں واضح طور پر ایک دوسرے کو بتائیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی جس سے انھیں تکلیف ہوگی۔ دونوں فریقین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کریں گے اور اگر کسی کو کوئی چیز پسند نہیں آئی تو آپ اسے روک سکتے ہیں۔ اگر کسی کو سیکس کے دوران کوئی سنجیدہ نوعیت کی چوٹ لگتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بی ڈی ایس ایم کا عمل درست انداز میں نہیں کر رہے یا پھر وہ آپ پر جنسی عمل کے دوران تشدد کر رہے ہیں اور بی ڈی ایس ایم کو دفاع کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ غلط ہے۔‘

لوسی کہتی ہیں کہ اپنے سابقہ بوائے فرینڈ سے پہلے انھوں نے کبھی بھی پر تشدد سیکس نہیں کیا نہ ہی کسی نے ان کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں یہ پسند نہیں۔

ان کے سابقہ بوائے فرینڈ کے خلاف جب ان کی ’ریسٹریننگ آرڈر‘ حاصل کرنے کی درخواست مسترد ہوئی تو ان پر اتنا زیادہ ذہنی دباؤ تھا کہ اس سے ان کے کام پر اثر پڑنے لگا۔

ریسٹریننگ آرڈر کی درخواست عموماً تب دی جاتی ہے جب آپ کو یہ ڈر ہو کہ آپ نے جس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی ہے اس سے آپ کو خطرہ ہے۔ اس آرڈر کی منظوری کی صورت میں وہ شخص آپ کے آس پاس ایک مقررہ فاصلے تک نہیں آسکتا۔

’مجھے ایسا لگا کہ جس کے خلاف تفتیش کی جارہی ہے وہ میں ہوں۔ مجھے اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں ابھی بھی اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔‘

ہوم آفس کے اعداد و شمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں درج کیے جانے والے ریپ کے کیسز میں سے صرف ایک عشاریہ سات فیصد کیسز عدالت میں جاتے ہیں۔ فلاحی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ رپورٹ کیے گئے کیسز انتہائی کم ہیں اور یہ جرم زیادہ تر صورتوں میں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔

ایلا اور لوسی چاہتی ہیں کہ حکومت ان کے اور ان جیسے بہت سے دوسرے کیسوں پر نظر ثانی کرے، انھیں امید ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کیسز عدالت میں ضرور جائیں گے تاکہ مقدمہ چلایا جاسکے۔

لوسی کہتی ہیں کہ انھیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ پولیس ویڈیو دیکھنے کے بعد یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ یہ ریپ نہیں ہے۔

ڈپٹی چیف پولیس کانسٹیبل سارا کرو نیشنل ہولیس کونسل میں ریپ اور پر تشدد سیکس کے ڈپارٹمنٹ کی سربراہی کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘ریپ بہت گھنوانا جرم ہے اور اس کے متاثرین پر اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔ ہم ان کے لیے انصاف حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔‘

’پرتشدد سیکس کے لیے رضامندی ظاہر کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ ریپ کے لیے حامی بھر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس سے آپ کی ساکھ یا آپ کی شخصیت کے بارے میں سوالات اٹھیں گے۔ پولیس کیس کی ابتدا سے ہی اس بات کو ذہن میں رکھتی ہے کہ اس کا اثر کیس پر نہ پڑے۔ ہم اس وقت سی پی ایس کے ساتھ مل کر تحقیقاتی ٹیم اور استغاثہ کے ارکان کے ساتھ ایک نئے ٹریننگ کورس پر کام کررہے ہیں۔‘

‘مجھے امید ہے اور اس بات کی توقع ہے کہ متاثرین پولیس کو ایک مستحکم کیس تیار کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ اور میں ان کی اس بات پر حوصلہ افزائی کروں گی کہ اگر وہ پولیس یا سی پی ایس کا فیصلہ چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہماری وکٹم رویو سکیم کو استعمال کریں۔‘

وزارتِ قانون سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ ان کیسز پر نظرثانی کریں گے یا نہیں تو انھوں نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں گیا۔

لوسی اور ایلا کی شناخت کو محفوظ کرنے کے لیے ان کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp