یورپ کی بریڈ باسکٹ روس کے شکنجے میں


یوکرین دنیا میں گندم برآمد کرنے کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں چودہ ممالک ایسے ہیں جہاں یوکرین سے درآمد کی جانے والی گندم کی شرح کل کھپت کے دس فیصد سے زیادہ ہے۔ صدیوں سے یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اسی لئے یورپ والے یوکرین کو اپنی بریڈ باسکٹ کہتے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ کے بعد اب یورپ کی بریڈ باسکٹ روس کے شکنجہ میں آ گئی ہے جس کے متعلق فرانس کے صدر عمانوئل ماکروں کا کہنا ہے کہ ”جنگ ایک بار پھر یورپ لوٹ آئی ہے، روس اور یوکرین کی جنگ طویل ہوگی جس کے زراعت کی دنیا پر اثرات ناگزیر ہیں۔“

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے ابتدائی دنوں میں نیٹو کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کے بیانات سامنے آتے رہے لیکن اب نیٹو اتحاد کی خفیہ سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ نیٹو اس جنگ کا براہ راست نہ سہی لیکن خفیہ طور پر یوکرین کی حمایت میں اس جنگ کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ روس کی فوج جس وقت یوکرین میں فوجی آپریشن کر رہی تھی اس وقت نیٹو اپنی ایک رسپانس فورس بنا رہی تھی اس کے علاوہ نیٹو نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں اپنی فوجیں بھی اکٹھی کرلی ہیں جنھیں خاص طور پر روس کے خلاف ٹرپ وائر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، نیٹو نے بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی فضائی پولیسنگ کو بھی بڑھا دیا ہے۔

دوسری جانب امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین میں اپنی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ شاید اس لئے کہا گیا ہے کہ یوکرین نیٹو اتحاد کا رکن نہیں ہے لیکن یوکرین نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے لئے مغرب سے امید لگائے بیٹھا ہے جس پر روس نے نیٹو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کو اپنے اتحاد میں کبھی قبول نہ کرنے کی پابندی کرے لیکن نیٹو کے رکن ممالک نے اس مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ نیٹو اتحاد ”دروازہ کھلا“ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

نیٹو اتحاد میں شامل نہ ہونے کے باوجود امریکہ اور برطانیہ یوکرین کو جنگی ہتھیار فراہم کر رہے ہیں بلکہ امریکہ نے نیٹو اتحاد کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے میں مدد دیں کیونکہ جب امریکہ نے یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کو انخلا ء کی پیش کش کی تھی تو یوکرینی صدر نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو یہ پیغام دیا تھا کہ ”بھاگنے کے لئے سواری نہیں بلکہ لڑنے کے لئے اسلحہ چاہیے۔“ اگر جنگی ہتھیاروں کا موازنہ کیا جائے تو یوکرین کے مقابلے میں روس کے پاس جدید جنگی ہتھیاروں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، روس کی فوج، ٹینک، میزائل اور جنگی طیارے بھی یوکرین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ روس کی فوج سے مقابلہ کرنے کے لئے یوکرین نے اپنے شہریوں کو پٹرول بم بنانے کے لئے کہا ہے بلکہ اس حوالے سے یوکرین کے ایک ٹی وی چینل پر پٹرول بم بنانے کی ترکیب بھی بتائی گئی تاکہ شہریوں کو جنگ میں شامل کیا جا سکے۔

روسی فوج مختلف اطراف سے یوکرین پر حملہ کرتے ہوئے پیش قدمی کر رہی ہے اور کئی شہروں میں داخل بھی ہو چکی ہے اب تک کی اطلاعات کے مطابق روسی فوج یوکرین کے دارالحکومت کیف میں بھی داخل ہو چکی ہے جہاں روسی ٹینکوں نے یوکرین کے سب سے بڑے اسلحہ ڈپو کو تباہ کر دیا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجہ میں گندم اور پٹرول کی قلت اور تیسری جنگ عظیم شروع ہونے کے خدشہ کے پیش نظر آج یورپ کو جنگ بندی کا خیال شدت سے آ رہا ہے لیکن کل تک انھیں اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی جارحیت سے کس طرح ہر روز معصوم مسلمان کشمیری شہید ہو رہے ہیں، کس طرح انڈیا نے کئی مرتبہ خطہ کا امن داؤ پر لگایا ہے۔ روس کا یوکرین پر حملہ حقیقت میں کسی علاقے پر قبضہ جمانے کے لئے نہیں بلکہ یورپ کے مشرقی خطہ پر قبضہ جمانے کے منصوبے کو چکنا چور کرنا ہے جس میں انڈیا بھی شامل ہے۔ بہرحال امن، سلامتی اور خوشحالی کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کو اپنے تنازعات جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments