وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب، اور ہمارے سوالات


وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کیا اور اس کے بعد سوشل میڈیا میں اس خطاب کے حوالے سے دلچسپ تجزیے سننے کو مل رہے ہیں۔ اپوزیشن خطاب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے غلط اعداد و شمار پیش کیے۔ جبکہ حکومتی پارٹی اس خطاب کو عوام کے لئے ایک بہت بڑا ریلیف قرار دے رہے ہیں۔ حکومتی پارٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر کے عوام کو ریلیف دیا۔

وزیراعظم نے خطاب میں 5 روپے فی یونٹ بجلی بھی سستی کرنے کا اعلان کیا جبکہ یہ بھی کہا کہ آئندہ بجٹ تک پٹرول، ڈیزل اور بجلی مزید مہنگی نہیں کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے۔ دنیا میں روس یوکرائن جنگ کے پس منظر میں جو حالات چل رہے ہیں ایسے میں کیا وزیراعظم اپنی بات پر قائم رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں غلط خارجہ پالیسی بنائی گئی، جب سے سیاست شروع کی تو خواہش تھی پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی ہو۔

انہوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا، ہمیں امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ بدقسمتی سے وہ فارن پالیسی پاکستانیوں کے فائدے کے لیے نہیں تھی، 80 ہزار پاکستانیوں کی جانیں گئیں۔ اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے ملک میں خارجہ پالیسی بناتا کون ہے؟ سیاستدان یا ایک ادارہ؟

اور اگر ایک ادارہ ہماری خارجہ پالیسی بناتا ہے تو کیا ماضی میں اپ ان کی پالیسیوں کو غلط کہ رہے ہیں؟ آزادی صحافت پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ آزادی صحافت پر پابندی لگائی جا رہی ہے، آزادی صحافت پر پابندی کی بے بنیاد باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پیکا 2016 میں منظور ہوا، ہم تو اس میں صرف ترمیم لا رہے ہیں۔ اس کا آزادی صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پیکا ترمیمی آرڈیننس کا دفاع کرتے ہوئے عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’ہم اس قانون کے ذریعے پاکستان کے سوشل میڈیا پر آنے والے گند کو روکنا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کی چیزیں نہیں آتیں جو ہمارے سوشل میڈیا پر آ رہی ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک صحافی نے لکھا کہ عمران خان کی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی، وزیراعظم کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے تو سوچیں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا۔ ماضی میں جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اس وقت وہ اپوزیشن کے لئے کیسے الفاظ اور القابات استعمال کرتے تھے؟ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر غیر ملکی اخبار اس طرح کی بات لکھتا تو اس پر اتنا جرمانہ لگتا کہ اخبار ہی بند ہوجاتا۔

اب سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ ماضی میں جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو کہا تھا کہ سوشل میڈیا کنٹرول کرنے والا سب سے بڑا بے وقوف ہو گا، پہلے جس پیکا قانون کے اپ خلاف تھے، اب وہ قانون بہترین کیسے ہو گیا ہے؟ وزیراعظم کیا بتانا پسند کریں گے کہ فیک نیوز پر جھوٹے الزامات پر کس میڈیا ہاؤس پر برطانیہ میں سب سے زیادہ جرمانے ہوئے ہیں؟ اور وہ چینل حکومت کا سب سے پسندیدہ کیوں ہے؟ پیکا قانون بھی نیب کی طرح ہی ہے الزام ثابت ہو یا نہ ہو ایف آئی اے کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ گرفتار کرے تفتیش کرے جس طرح نیب کر رہی ہے جمہوری معاشروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

اگر ہر معاملے میں آزادی اظہار پر پابندی لگائی جائے گی تو جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ سیاست دانوں کو اپنی بات عوام کے سامنے لانے کا حق حاصل ہونا چاہیے تاکہ عوام خود سچ جھوٹ کو سمجھ سکے۔ آمرانہ رجحانات رکھنی والی کوئی بھی حکومت آزاد میڈیا اور تنقید کو پسند نہیں کرتی ایسی حکومتوں کو صرف ایسا میڈیا اچھا لگتا ہے جو ہر وقت حکمرانوں کے قصیدے پڑھے اور لکھے۔ ریاستی ادارے ایسے صحافیوں اور میڈیا کو پسند کرتے ہیں جو ان کے بیانیے اور سوچ کو جوں کا توں آگے پھیلائیں۔

ان کے بیانیے پر سوالات نہ کریں اور ماضی کی پالیسیوں اور تجربات کو زیر بحث نہ لائیں۔ آج اپ تنقید سے گھبرا گئے ہیں تھوڑا سا ماضی میں جائیں جب اپ اپوزیشن میں تھے تو کیسی زبان استعمال کرتے تھے اپ تو سول نافرمانی کی بات کرتے تھے۔ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ سب کو یاد ہے۔ سب کو یاد ہے کیسے ایک پولیس افسر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ شور مچایا گیا کہ بڑی مہنگائی آ گئی ہے اس حکومت کو گرا دو، پیپلز پارٹی کے دور میں 2008 سے 2012 تک 13.6 فیصد مہنگائی رہی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں 71 سے لے کر 77 تک 13.9 فیصد مہنگائی ہوئی جبکہ دوسرے میں 8.3 فیصد اور تیسرے دور میں 11.6 فیصد مہنگائی ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت سے متعلق انہوں نے کہا کہ نون لیگ کے پہلے دور میں 10.7 فیصد مہنگائی ہوئی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ساڑھے 3 سال میں 8.5 فیصد مہنگائی ہوئی۔ عمران خان کا قوم سے خطاب میں مہنگائی کے حوالے سے اعداد و شمار پر بہت سے سوالیہ نشان ہے۔

خطاب کے فوراً بعد پاکستان مسلم لیگ کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیر اعظم عمران خان کے اعداد و شمار کو چیلنج کیا اور کہا کہ جب 2014 میں جب پیٹرول 96 ڈالر بیرل قیمت تھی اس وقت حکومت پیٹرول عوام کو 82 روپے مہیا کر رہی تھی آج اسی قیمت پر اپکی حکومت 160 روپے پر عوام کو پیٹرول دے رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو چیلنج دیتے ہیں کہ وہ اعداد و شمار کو ٹھیک ثابت کرے اگر نہیں تو میں اس کے دیے گئے اعداد و شمار پر کسی بھی فورم پر ان کے ساتھ مناظرہ کر سکتا ہوں۔

وزیر اعظم صاحب قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس بلیک منی ہو تو کوئی بھی کاروبار کریں اپ سے پیسوں کے متعلق کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ دوسری طرف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس والے کہتے ہیں مذہبی شدت پسند افراد اور دہشت گرد افراد پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں اس حوالے سے قوانین سخت کریں۔ ان سے معلوم کریں پیسے کہاں سے آ رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے نئے ایکشن پلان کے نکات میں اہم نکتہ یہ تھا کہ ثابت کیا جائے کہ ملک میں غیر مالیاتی کاروبار اور پروفیشنل افراد جیسے ریئل سٹیٹ ایجنٹس، جو ہرات کے ڈیلرز، وکلا، اکاؤنٹنٹس اور دوسرے پیشہ ور افراد کے حوالے سے لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے ایسے افراد کی نگرانی اور ان کے خلاف ایکشن کا طریق کار موجود ہے۔ غیر مالیاتی کاروبار اور پروفیشنل افراد کی نگرانی بنایا جائے۔ کیا آپ کے اس بیان سے پاکستان کا کیس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں کمزور نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم کا خطاب عوام کو وقتی طور پر خوش کرنے کے بجائے قومی مفاد اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments