استقلال ۔ ایک فیمیل یورولوجسٹ کی کہانی


استقلال کا نام جتنا انوکھا تھا اتنی ہی انوکھی وہ خود تھی۔ بھلا کیا سوجھی تھی اسے یورولوجسٹ بننے کی۔ لڑکیاں گائناکالوجسٹ یا پیڈیاٹریشن بنتی ہیں یا پھر ڈرماٹولوجسٹ یا سونولوجسٹ، لیکن استقلال نے۔ ایم بی بی ایس کے بعد یورولوجی میں ہاؤس جاب کیا اور پھر اسی شعبے میں ریزیڈنسی جوائن کرلی۔ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کے یورولوجی ڈپارٹمنٹ میں بس وہی ایک خاتون ریزیڈنٹ تھی۔ مردوں کے شانہ بشانہ دن اور رات کی ڈیوٹیاں بھگتانے میں اسے کوئی عار نہ تھی۔

گردے اور مثانے کی پتھری ہو یا مردانہ غدود کا کینسر، ہر آپریشن کو تندہی سے سیکھنے کی کوشش کرتی۔ شعبے کے سربراہ اس کی دلچسپی اور محنت سے بہت متاثر تھے۔ برسوں کی شب و روز انتھک محنت کے بعد بلا آخر یورولوجسٹ کی ڈگری کا حصول ممکن ہوا۔ لاریب، وہ اس کے لئے انتہائی مسرت و انبساط کا دن تھا۔ جلد ہی اسے سرکاری نوکری بھی مل گئی۔ اور ایک پرائیویٹ سنٹر میں کلینک بھی کرنے لگی۔

بھلے سے وہ اپنے کیریئر کی منازل کامیابی سے طے کر رہی تھی لیکن بھئی والدین کے نزدیک شادی کے بغیر تو وہ نامکمل تھی پس اس کی اماں اس کی تکمیل کی تگ و دو میں لگ گئیں۔ استقلال جاذب نظر تھی۔ آنکھیں بہت کشادہ یا غلافی نہیں تھیں لیکن سیاہ کمان ابرو تلے ہیرے کی کنی سی دمکتی ذہین آنکھیں دم بخود کر دیتی تھیں۔ اور گورے رنگ کا زمانہ تو کبھی پرانا ہوتا ہی نہیں۔ لاکھ واویلا مچایا گیا کہ رنگت کا تعصب ناجائز اور غیراخلاقی بلکہ غیر انسانی ہے پر گورے رنگ کی طلب کم ہو گئی کیا؟ مشرقی معاشرے سے گورے رنگ کی کشش کم ہوجاتی تو گورا کرنے کی کریموں اور صابن بنانے والوں کی دکان نہ بیٹھ جاتی۔ بہت کیا تو پرانی شراب کی بوتل یعنی نام بدل دیا۔ نام میں یوں بھی کیا رکھا ہے۔ خریدنے والی تو جانتی ہے کس مقصد کے لئے ہے۔ خیر یہ استقلال کا مسئلہ نہیں تھا اس کا تو رنگ گورا تھا۔

حاکم علی ایک بڑے بزنس میں کا بیٹا تھا۔ بیرون ملک سے بزنس مینیجمنٹ کی تعلیم حاصل کر کے لوٹا تھا۔ اس کی اماں نے دلہن کے لئے کنویں میں بانس ڈلوائے تھے۔ اچھا خاندان، اچھی شکل صورت اور اچھی اٹھان کے ساتھ ڈگری بھی ہو تو برادری میں دھڑلے کی نمائش ہوجاتی ہے۔ امیر آدمی کی بیوی ہونے کے لئے اچھا شو پیس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر استقلال میں بھلا کیا کمی تھی سو یہ رشتہ با سہولت طے پا گیا۔ اس سنجوگ کے انتظام و انصرام کرنے والوں کو یہ خیال ہی نہیں آیا کہ نمائشی پہلوؤں سے ہٹ کر مقدم عملی معاملات پر بھی غور و خوض کر لیا جاتا، بات چیت ہوجاتی کہ شادی کے بعد کیریئر جاری رکھنے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔

کسی نے یہ جاننے کا تردد بھی نہ کیا کہ بزنس مین حاکم علی استقلال کے پیشے کی نوعیت سے بھی واقف ہے یا نہیں۔ حاکم علی کو بس یہ پتہ تھا کہ استقلال ایک ڈاکٹر ہے اور یہ فرض کر لیا گیا کہ وہ معاشرے کے عام چلن کے مطابق ماہر نسواں، ماہر اطفال یا ماہر جلد ہوگی۔ لیکن شادی کے بعد جب اسے معلوم ہوا کہ استقلال تو گردے مثانے اور جنسی اعضاء کے علم کی ماہر ہے اور اس کے مریضوں میں عورتیں ہی نہیں مرد بھی شامل ہیں۔ اور یہ کہ مردوں کے جنسی اعضاء کا معائنہ اس کے روزمرہ میں داخل ہے تو حاکم علی کے لئے یہ کڑوی گولی نگلنا مشکل ہو گیا۔ بھلے سے وہ بیرون ملک وقت گزار کر آیا تھا اور اپنے تئیں وسیع النظر سمجھتا تھا مگر بیوی تو حیادار ہی چاہیے تھی ورنہ وہیں سے کوئی گوری نہ باندھ کے لے اتا۔ حیا کے میزان پر استقلال کے پیشے کے تقاضے پورے نہ اترتے تھے۔ چلو مان لیا کہ پیشہ ورانہ معائنے کے دوران دستمالی کرتے وقت استقلال کے دل میں کوئی نامناسب خیال نہیں آتا ہو گا لیکن کیا یہ ضمانت اس کے پاس آنے والے مردوں کے لئے بھی دی جا سکتی تھی؟

جس معاشرے کے پیر و جواں بھوکے بھیڑیے ہوں وہاں معصوم سرخ ٹوپے والی، انڈوں کی ٹوکری لے کر کیوں جائے۔ خلوت میں حاکم علی کے سر پر ایک اور بوجھ سوار ہوجاتا وہ سوچتا، استقلال کے لئے پوشیدہ عضو ایک کھلی کتاب تھا۔ ایک عام عورت کا مشاہدہ اپنے شوہر تک محدود ہوتا ہے لیکن استقلال نے تو ورائٹی دیکھ رکھی تھی وہ حاکم علی کے بارے میں کس طرح سوچتی تھی شاید دل ہی دل میں تحقیر آمیز، شاید اس کے ساتھ ہوتے ہوئے کوئی اور خیال۔

حاکم علی کے لئے یہ بوجھ اٹھانا دوبھر ہو گیا تھا اس نے مطالبہ کر دیا کہ استقلال صرف خواتین مریضوں کا علاج کرے گی۔ استقلال کے لئے اپنے تعلیم یافتہ اور روشن خیال شوہر کی جانب سے یہ پابندی حیرانی کا باعث اور مایوس کنندہ تھی۔ اس نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال اس اختصاص کو حاصل کرنے میں صرف کیے تھے۔ خواتین مریضوں تک محدود کرنے کا مطلب تھا نصف یورولوجسٹ یعنی مفلوج متخصص، اور، نصف پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا ضیاع۔

حاکم علی کے مطالبے میں شدت آتی جا رہی تھی۔ اس کے گھر والے کلی طور پر اس کے ساتھ تھے۔ شادی کو دو سال ہو گئے تھے اور ابھی تک ان کے ہاں امید کے پھول نہیں کھلے تھے۔ استقلال کے اختصاص میں مردانہ بے اولادی بھی شامل تھی۔ اس لئے اس نے حاکم علی کو کچھ بنیادی لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا مگر اسے تو جیسے تتیے لگ گئے۔ یہ کہاں ہوا ہے کہ پہلے مرد بر تنقیح ہو اس نے صاف انکار کر دیا اور معاشرے کے رواج کے مطابق استقلال کو اپنی جانچ کرانے کا مشورہ دے ڈالا۔

استقلال نے اسے آنا کا۔ مسئلہ نہیں بتایا اور گائناکالوجسٹ کے پاس چلی گئی۔ معائنے، الٹراساونڈ اور ہارمونز مین کوئی کجی نہیں پائی گئی تو گائناکالوجسٹ نے بھی حاکم علی کو مائع منی کا کیمیائی تجزیہ کروانے کا مشورہ دیا۔ نارمل مادہ تولید کی رپورٹ کے بغیر خاتون پر ہارمونز کی پیشرفت اس کے نزدیک ناجائز اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے خلاف تھی۔ تعلیم یافتہ حاکم علی کا روایتی ذہن اس کے لئے راضی نہ تھا۔ اسے خوف تھا کہ اگر تجزیہ ناقص ثابت ہوا تو وہ استقلال کے سامنے نیچا پڑ جائے گا، اس کی سبکی ہو جائے گی۔ حالانکہ اسے سمجھنا چاہیے تھا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور لباس عیبوں کا امین ہوتا ہے شاتم نہیں۔

حاکم علی کے اندر گھمسان کا رن پڑا تھا وہ اپنی جیت چاہتا تھا اس کا مطالبہ اب حکم میں ڈھل گیا تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ کہ استقلال اپنی پرائیویٹ کلینک پر کسی مرد مریض کو نہیں دیکھے گی۔ اور یہ ہدایت جلی حروف میں اس کے نام کی تختی کے ساتھ چسپاں ہونا چاہیے۔ سرکاری ہسپتال کے سپریٹنڈنٹ سے مل کر انہیں اس بات پر راضی کر لیا گیا کہ استقلال کو صرف خواتین مریضاؤں کے علاج کے لئے مختص کر دیا جائے۔ استقلال شدید ذہنی و نفسیاتی عوارض کا شکار ہو چکی تھی۔

ایک طرف پیشہ ورانہ قطع و برید نے اس کے اندر کی معالج کی توڑ پھوڑ کی تھی تو دوسری طرف حاکم علی کی روز روز کی طعن و تشنیع نے ایک ناقابل وضاحت آلودگی کے احساس کو جنم دیا تھا۔ وہ مالیخولیا کا شکار ہو گئی تھی۔ کئی کئی بار ہاتھ دھو کر بھی اسے لگتا کہ اس کے ہاتھوں سے آلودگی نہیں اتری ناپاکی نہیں دھلی۔ شاید کسی طوائف کو بھی اس قدر غلاظت میں لتھڑنے کا احساس نہیں ہوتا ہو گا جو حاکم علی نے اس کے اندر اتار دیا تھا۔ دل و جان کی بے کلی حد سے بڑھی تو اپنے درد و الم کو پاتال میں چھپا کر رکھنے والی استقلال ایک دن ڈاکٹر عرفان کے آگے پھٹ پڑی۔ ڈاکٹر عرفان ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا

” اگر مذہبی نکتہ نظر سے بات کی جائے تو غیر ضروری اختلاط کی بھی اجازت نہیں تو مردانہ شرم گاہ کا معائنہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔“

”میں ایک طبیبہ ہوں اگر ایک مرد حکیم یا طبیب ایک خاتون مریضہ کا علاج کر سکتا ہے تو ایک خاتون طبیبہ ایک مرد کا علاج کیوں نہیں کر سکتی“ استقلال کے اس سوال کا کوئی مدلل جواب ڈاکٹر عرفان کے پاس نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے استقلال کی مدد کرنے کے لئے حاکم علی کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اور دونوں کو عشائیے پر مدعو کیا۔ کھانے کے دوران ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد ڈاکٹر عرفان موضوع پر آئے۔ حاکم علی کے خیالات اور استقلال کے نکتہ نظر پر مباحثے کے بعد انہوں نے کہا

”دیکھو استقلال یہ سب اسپیشیلٹی کا زمانہ ہے تم فیمیل یورولوجی یا فیمیل۔ پیلوک میڈیسن اینڈ ریکنسٹرکٹو سرجری میں فیلوشپ کرلو۔“

”اس کے لئے میں بیرون ملک فیلو شپ کا بندوبست کر سکتا ہوں“ حاکم علی اس تجویز پر پرجوش ہو کر بولا

”لیکن میں اس فیلڈ میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ مجھے اینڈ یورولوجک سرجری میں فیلو شپ کرنا ہے۔ بغیر زخم دیے یورولوجی آپریشن کرنے کی تکنیک میں کمال مہارت حاصل کرنے کا شوق ہے۔“

”کیا اس میں مرد وزن دونوں سے واسطہ پڑے گا“ حاکم علی کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔ استقلال نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نشست بے سود رہی۔ حاکم علی کا خیال تھا استقلال کی ضد اور ہٹ دھرمی حد سے تجاوز کر گئی تھی اس نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ اسے اپنے پیشے اور شادی شدہ زندگی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔

استقلال عجیب مخمصے میں پڑ گئی تھی شادی شدہ کا تاج سر پر سنبھالے یا اپنے پیشے سے محبت نبھائے اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ وہ خود سے سوال کرتی ”یورولوجی منتخب کرنے کا فیصلہ غلط تھا یا شادی کرنے میں اس سے چوک ہو گئی تھی۔ حاکم علی مشرقی عورت پر سماج کے خوف کا جال پھینک کر مچان ہر جاکر سکون سے بیٹھ گیا تھا۔ استقلال گھبرا کر دل بستگی کو والدین کے ہاں چلی آئی۔ اس کے شوہر اور سسرال والے تو اس کے پیشے کو بے حیائی گردانتے ہی تھے لیکن اب اس کی والدہ اور بہن بھائی بھی اس کے قدم مصلحتوں کی بیڑیوں میں جکڑے کے حامی تھے۔ بس اس کے والد تھے جنہوں نے تسلی سے اس کی بات سنی اور سمجھی اور اسے حوصلہ دیا کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے گی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ والد کی پشت پناہی نے اس کے بکھرے وجود کو بہت سنبھالا دیا۔

جانے کتنے دن، کتنی راتیں، کتنے گھنٹے، کتنے لمحے، اس نے اپنے مانوس کمرے میں سوچتے ہوئے گزارے۔ کبھی اس کرسی اور میز پر بیٹھ کر جہاں وہ رات دن پڑھا کرتی تھی، کبھی اس بستر پر، جس کی نرم و گرم آغوش کو ٹھکرا کر وہ امتحان کی تیاری میں لگی رہتی تھی۔ کبھی اس کھڑکی پر، جہاں پڑھائی سے وقفے میں کھڑے ہو کر وہ چائے پیٹی تھی۔ دور تک جاتی بل کھاتی سڑک کو دیکھ کر وہ سوچا کرتی تھی۔ لمبی سڑک کا موڑ کتنا غیر یقینی ہوتا ہے جانے آگے کیا ہو، شاہراہ یا بند گلی۔ آج بھی وہ چائے کا مگ تھامے کھڑکی میں کھڑی سرمئی سڑک کو تک رہی تھی۔ شادی بھی تو ایک اندھا موڑ ہوتی ہے کیا پتہ شاہراہ پر نکلے یا بند گلی میں۔ بدقسمتی سے اس کے لئے شادی ایک ایسا موڑ ثابت ہوئی جس کے پار اس کے نصیب کا اسپ شاہراہ پر ٹاپنے کی بجائے ایک بند گلی میں جا گھسا تھا۔

اس نے جیسے سڑک سے یا فضاؤں سے سوال کیا ”کوئی اگر غلطی سے بند گلی میں چلا جائے تو کیا کرے“
موڑ سے لوٹتے، فضا میں اڑتے پرندے نے رکے بغیر آسمان کی وسعتوں کا پیغام دیا

زمین پر دراز سڑک نے چھاتی پر چلنے والوں کے قدم تھامتے ہوئے فروتنی کا سبق پڑھایا۔ وہ ایک فیصلہ کرتی اور دلیل کی سیاہی سے اسے فلم زد کر دیتی۔ پھر دوسرا فیصلہ کرتی اور مصلحت کی ٹیک سے سہارا دینے کی کوشش کرتی۔ سورج ڈھل گیا اور شب کی سیاہی نے سڑک کو اوجھل کر دیا اور پرندے اپنے ٹھکانوں میں قرار پا گئے۔ اسے بھی آخر کار قرار آہی آ گیا۔ فیصلے کا پل صراط پار کر لیا۔ وہ اپنی میز کی طرف بڑھی اور حاکم علی کے نام فیصلے کا پیغام لکھنے لگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments