بالآخر تھر دیکھ لیا


کئی سال پہلے، شکار پور سندھ میں اپنے مہربان دوست رحیم بخش جعفری سے کہا کہ میں نے آج تک بلوچستان نہیں دیکھا۔ وہ بولے ابھی دکھا لاتے ہیں پھر وہ مجھے سندھ کی سرحد سے پار بلوچستان کے ایک شہر لے گئے جہاں ان کے ایک دوست نے وہاں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری بہترین ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔

اسی طرح 2019 میں میں نے اپنے ایک اور سندھی دوست حسین سومرو سے تقاضا کیا کہ مجھے تھر کا علاقہ دکھائے۔ وہ خاص طور پر حیدرآباد سے آیا اور مجھے کراچی سے لے کے چلا مگر شہر سے نکلتے ہی میرا نزلہ شدید ہو گیا اور حیدر آباد ان کے گھر پہنچتے پہنچتے مجھے ہلکا بخار بھی ہو گیا۔

مجھے چونکہ چند روز بعد بھائی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہونا تھا اس لیے احتیاطاً جانا ملتوی کر دیا کہ پھر کبھی جائیں گے۔ اس کے بعد پہلے کورونا سے احتیاط نے نکلنے نہ دیا پھر میں ماسکو چلا گیا۔

اس بار آنے سے پہلے میں سومرو کو تو مطلع نہ کر پایا البتہ جعفری کو لکھا کہ میں پہنچ رہا ہوں، مجھے اگر تھر نہیں تو کوئٹہ دکھانے لے جائے۔ وہ بوجوہ نہ آ سکے اور حسین اپنے کاموں میں الجھا تھر روانگی کو ٹالتا رہا۔ چونکہ ایک دوست کوئٹہ میں ایک اعلی عہدے پر مامور ہیں اور انہوں نے فون پر یہ بھی کہا کہ آ جائیں مگر اکیلے اور دس گھنٹے کے سفر کی ہمت نہ کر پایا

مایوس ہو کر گزشتہ پیر یا منگل کے روز سرائیکی وسیب کو روانگی کا عہد کیے ہوئے تھا کہ گزشتہ اتوار کو ایک اور دوست عابد چنا کچھ اور دوستوں کے ہمراہ ملنے تشریف لے آئے۔ جب میں نے تھر نہ دیکھنے کے دکھ کا ذکر کیا تو بولے کہ یہ کام ہمیں ہی کرنا ہو گا۔

ان کے ساتھ ان کے دوست ظفر خواجہ بھی تھے جن سے انہوں نے مجھے جمعہ کے روز تھر لے جانے کو کہا۔ وہ سرکاری افسر ہیں پھر بھی اپنی مصروفیات سے وقت نکالنے کی انہوں نے ہامی بھر لی۔

یوں وہ جمعہ کے روز میرے کہنے پر بعد از نماز جمعہ اپنی کار پر تشریف لائے اور ہم روانہ ہو گئے۔

چنا صاحب نے شناختی کارڈ ساتھ رکھنے کی تلقین کی تھی جس کا اعادہ بعد کے دو روز میں ظفر خواجہ نے بھی کیا تھا مگر میں عجلت میں بھول گیا مگر شکر ہے کوئی پانچ کلومیٹر کے بعد ظفر نے پوچھا تو مجھے یاد آیا کہ بھول آیا ہوں، خیر لوٹے اور اپنے پاکستان اوریجن کارڈ کے علاوہ چھوٹے بھائی کا اوریجنل شناختی کارڈ بھی ساتھ لے لیا۔ سڑک بہت اچھی تھی۔ ہم نے بدین کے باہر رک کے چائے پی اور روانہ ہوئے۔ آگے کچھ سڑک خراب آئی تو ظفر کو شک ہوا کہ یہ وہ سڑک نہیں۔ کسی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک پل کی تعمیر کے دوران بھاری مشینری لائے جانے کی وجہ سے سڑک کا تھوڑا سا حصہ خراب ہوا ہے۔

آگے سارے راستے نہ کوئی گھر یا جھونپڑی موجود پائی اور نہ ہی ہماری کار کے علاوہ کوئی اور گاڑی دکھائی دی۔ اوپر سے فون کے سگنل بالکل بند۔ تھوڑی دیر کو میں گھبرایا بھی کہ کار چاہے نئی ہے لیکن اگر کوئی خرابی ہو جائے تو اس ویرانے میں کیا کریں گے۔

ہم آٹھ بجے کی بجائے کوئی پونے نو بجے مٹھی پہنچے۔ راستے میں میرے لیے ایک ہی چیز مختلف تھی وہ ہندوانہ ناموں کی دکانیں جیسے دلیپ ہریانہ سٹور، پرکاش میڈیکل سٹور وغیرہ۔

عابد چنا ہمارے استقبال کو موجود تھے۔ ان کے ساتھ نوجوان عباس فقیر تھے جن سے متعلق ظفر بتا چکے تھے کہ عابد صاحب نے گلوکار عباس فقیر کے ہاں عشائیہ رکھا ہے جس کے بعد عباس آپ کے لیے گائیں گے۔

ہمیں عباس کی فلور میٹرس اور ایر کنڈیشنر سے مجہز بیٹھک میں لے جایا گیا۔ جہاں میں نے اپنے مہم پر جانے کی خاطر پہننے اور اتارنے میں دشوار جوتے اتار کے کچھ استراحت کی پھر باتھ روم کا پوچھا، مجھے چپلیاں دی گئیں اور ہم سیڑھیاں چڑھ گئے۔ ایک بڑے اور ہوادار کمرے میں دسترخوان پر کھانا چنا جا رہا تھا۔

میں نے صاف ستھرے کموڈ والے باتھ روم میں جا کے مثانہ ہلکا کیا۔ ٹونٹی سے نکلتے پانی اور نئے صابن سے ہاتھ دھوئے مگر لگتا تھا کہ صابن کی چکنائی ویسلین بن گئی ہو۔ خیر نکلا تو عابد چنا کی این جی او سوکار فاونڈیشن کے چند اہلکار کمرے کے سامنے صحن میں کھڑے تھے۔ تعارف کروایا گیا کہ یہ ہیں گلاب جو مینیجر ہیں ان کے چہرے پر مسکان منجمد تھی۔ یہ ہیں نند لال اکاؤنٹنٹ جو سنجیدگی اور افسردگی کی مجسم تصویر تھے اور یہ ہیں شبینہ ہماری سوشل کنسلٹنٹ جو خوش گفتار اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔

پھر سب نے مزیدار کھانے پر ہاتھ صاف کیے۔ کھانے میں ظفر کی فرمائش پر خاص طور پر سانگھڑ سے منگوائی گئی ایک نئے نام کے دریا کی مچھلی جس کا سالن بھی تھا اور جو تلی بھی گئی تھی۔ مٹن قورمہ اور بریانی تھی۔ میں نے اور ظفر نے مچھلی پر اکتفا کیا۔

کھانے کے بعد عباس فقیر نے اپنی پاٹ دار آواز میں سندھی، پنجابی، سرائیکی اور اردو زبانوں میں گیت سنائے۔ عباس فقیر کو شادی کی ایک تقریب میں گانے کے لیے جانا تھا۔ ہم سب دو گاڑیوں میں گڈی بھٹ نام کی ایک اونچی تفریحی جگہ پہنچے جہاں سے صرف پچاس ہزار کی آبادی والا جگمگاتا ہوا تھر کا مرکزی ضلعی مرکز مٹھی بہت حسین دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں ہم نے بہت سی تصاویر بنائیں اور پھر ہم شب بسری کو سندھ ٹورسٹ ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ماروی ریسٹ ہاؤس پہنچے جہاں ایک ہال سے موسیقی کے ساتھ گانے کی آوازیں آتی سنائی دیں تو ہم سیدھے وہاں جا داخل ہوئے۔

کمرے کے اطراف میں صوفے اور میزیں تھیں۔ سامنے چاندنی پر بیٹھے ایک معمر عینک والے اور تین جوان سازندے اور گلوکار راجستھانی پگڑیاں پہنے فن پیش کر رہے تھے۔ ہم تھوڑی دیر رکے۔ پھر کمروں میں جا، تازہ دم ہو کے ایک بار پھر وہاں پہنچے اور ان کے راجستھانی گیتوں سے محظوظ ہونے کے بعد وسیع صحن میں کرسیاں رکھوا کے بیٹھے۔ چائے پی اور باتیں کیں۔

صبح ساڑھے آٹھ بجے تیار ہو کے نو بجے سلام کوٹ کے لیے نکلنے کا طے کر کے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں وضو کر کے قضا نمازیں پڑھنے کے بعد بستر پر دراز ہوا تو مجھے لگا جیسے کھڑکی کے پردوں کے پیچھے سے چھپکلی کی چک چک چک کی آواز آ رہی ہے اور چھپکلی سے میری کراہت خوف کی حد تک ہے۔ کبھی آواز اتی، کبھی بند ہو جاتی۔ پردہ مارے ڈر کے میں ہٹاؤں نہ کہ کہیں فٹ بھر کی چھپکلی برآمد ہو گئی تو جان ہی نکل جائے گی۔

کمرہ فور سٹار ہوٹل کا سا تھا مگر بلند دروازے کے اوپر لگے مستطیل شیشے سے برامدے کی چھت میں جگمگاتے بلبوں کی روشنی اندر آ رہی تھی۔ مجھے نہ تو اندھیرے اور سکوت کے بن نیند آتی ہے اور نہ ہی تھک جانے کے بعد ۔

پہلے برآمدے میں جا کے بلب بجھانے کو بٹن ڈھونڈے جو نہ ملے تو کمرے میں لوٹ کر، آنکھوں پہ سیاہ پٹی باندھ کے پائنتی کی جانب تکیے رکھ کے سونے کی کوشش کی مگر اضطراب تھا۔ اگرچہ مسکن قرص نگل چکا تھا مگر ذہن کا فتور کہ نیند نہیں آئے گی نے آنکھیں کھلی رکھیں۔

پھر سے برامدے میں نکلا۔ بجلی کے بٹن تلاش کیے اور کئی چمکدار بلب بجھائے۔ کہیں دو بجے نیند آئی۔ صبح سوا چھ بجے آنکھ کھل گئی۔ پرندوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سوچا طلوع آفتاب کا منظر اور مور دیکھوں۔ طلوع آفتاب تو دیکھ لیا مگر مور کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔

جب میں سورج طلوع ہوتے دیکھ چکا تو میری توجہ کسی کمرے میں کسی شخص کے بری طرح کھانسنے کی جانب مبذول ہوئی۔ اتنے میں پہلی منزل کے جس صحن کی دیوار کے پردے کے ساتھ کھڑا میں سورج کی جانب دیکھ رہا تھا، وہیں ایک دروازہ کھلا جس میں شلوار قمیص میں ملبوس ایک مدقوق جوان شخص وائپر سے صفائی کر رہا تھا۔ جب میں برآمدے میں پہنچا اور کمرے کی جانب جاتے ہوئے کسی کے قدموں کی چاپ سن کے پیچھے کی جانب دیکھا تو ہلکے آسمانی کپڑوں میں وہی صفائی کرنے والا شخص تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بھئی چائے ملے گی کیا؟ مجھے فوج میں گزرے دنوں کے زمانے سے ہی بیڈ ٹی پینے کی عادت ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہیں تو بہت کھانسی ہے۔ بولا جی اس پہ میں نے کہا کہ ماسک پہنو۔

اس نے برآمدے سے صحن کی جانب کھلنے والے دروازے کے سامنے بچھے صوفے پہ لیٹے شخص کو جگایا اور چائے بنانے کو کہا۔ میں نے مڑ کر جاگ کے اٹھنے میں مشغول شخص سے پوچھا کہ کیا نہانے کو گرم پانی ہے۔ اس نے کہا جی ہے۔ پوچھا کیا ٹونٹی سے نکلتا ہے۔ کہنے لگا جی نہیں ہم گرم پانی کی بالٹی آپ کے غسل خانہ میں لا کے رکھ دیں گے۔

میں نے کمرے میں داخل ہو کر کے وضو کیا اور فجر کی قضا پڑھنے کو نیت باندھی ہی تھی کہ دروازہ کھٹک گیا۔ مجھے نماز توڑنا پڑی۔ وہی کھانسنے والا شخص ماسک پہنے ہاتھ میں چائے کی ٹرے پکڑے کھڑا تھا۔ اس نے ٹرے میز پر رکھ کے چائے بنانے سے پہلے میری کعبے کی سمت درست کروائی اور چائے بنانے لگا۔ میں نے اسے روک دیا اور خود چائے میں شکر ملا کے چائے کی دوسری پیالی سامنے کے کمرے میں ظفر کو پہنچانے کو کہا۔

چائے پی کر کے میں نماز سے فارغ ہوا تو وہی شخص گرم پانی کی بالٹی لایا اور غسل خانے میں دھری چھوٹی بالٹی میں انڈیل کر جانے لگا تو میں نے کہا کہ دوسری بالٹی بھی چھوڑ جاؤ۔ مجھے بالٹیوں کی صفائی میں شک تھا پھر بھی میں نہا لیا۔ گرم پانی سے نہانے سے طبیعت بحال ہوئی۔ میں نے تیار ہو کر کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ تھوڑی دیر میں عابد چنا صاحب اپنے کمرے سے تیار ہو کر آ گئے۔ ظفر ابھی کمرہ بند کیے تیار ہو رہے تھے۔

میں بیڈ پہ نیم دراز ہو کے عابد چنا کا شکریہ ادا کرنے لگا تو وہ بولے، ”ڈاکٹر صاحب نظام کی تبدیلی میں مگن سب لوگ دنیا کے کاموں میں الجھ کر رہ گئے ہیں آپ جیسے چند لوگ تو نایاب لوگ ہیں جن سے مل کر خوشی ہوتی ہے۔“ انکسار اور وضعداری کا تقاضا تھا کہ میں چپ رہتا مگر میں نے فوراً اتفاق کیا کہ جی میرے جیسے ہیں تو نایاب لوگ کیونکہ یہ سچ ہے کہ مجھ ایسے لوگ جو کمانے اور حیثیت اور جائیداد بنانے میں ملوث نہیں ہوئے وہ ہیں تو نایاب ہی۔

اتنے میں ظفر بھی تیار ہو کر کمرے سے نکلے اور ہم ناشتہ کرنے نیچے پہنچے۔ دو چار مسافر اور بھی بیٹھے پہلے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ یقیناً عابد پہلے سے فرمائش کر چکے تھے چنانچہ ہمیں عام ناشتہ دینے کی بجائے چار تہی روٹی کے ساتھ اصلی شہد اور تازہ مکھن دیا گیا۔ اضافی آملیٹ بھی رکھ دیے گئے تھے۔ ناشتہ بہت اچھا لگا۔ ہم باہر نکل کر عابد صاحب کی ائرکنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کے ان کی این جی او کے دفتر پہنچے جہاں انہوں نے مجھے باقی عملے سے ملوایا اور وہ شعبے دکھائے جن میں وہ کام کر رہے تھے۔ لوگوں کو بجلی کا کام سکھانے سے لے کر کمپیوٹر ٹریننگ دینے تک جس کے لیے آٹھ دس لیپ ٹاپ اوپر تلے دھرے تھے۔ گوٹھ گوٹھ نلکے لگوانے اور پانی کے ٹینک تعمیر کروانے سے علاقے میں گدھوں کے تحفظ اور گدھوں کی صحت کا خیال رکھے جانے تک کے بارے میں بریفنگ دی۔

گرین ٹی پینے کے بعد ہم ایک بار پھر کار سوار ہوئے۔ اس بار طویل قامت اور جسیم بڑی بڑی ڈھلکی ہوئی مونچھوں والے ڈرائیور امان اللہ کے ساتھ والی نشست ظفر نے سنبھالی تاکہ میں اور عابد باتیں کر سکیں۔ شہر سے نکل کر عابد صاحب نے ڈرائیور کو ایک چڑھائی چڑھنے کو کہا۔ ایک جگہ سے کار آگے نہیں جا سکتی تھی۔ اس سے آگے کچھ تفریحی تعمیرات تھیں اور کچھ ابھی زیر تعمیر تھیں۔ عابد صاحب نے بتایا کہ یہ نیا گڈی بھٹ تعمیر کیا گیا ہے اور رات کو نہ صرف یہاں کی فضا پرکیف ہوتی بلکہ شہر کا منظر بھی پرانے گڈی بھٹ سے نظر ٓنے والے منظر سے زیادہ دلفریب ہوتا ہے۔ اس کا حال ہی میں سندھ کے وزیراعلی مراد علی شاہ نے افتتاح کیا تھا چنانچہ یہ ظفر کے لیے بھی نئی جگہ تھی۔

دھوپ کھل اٹھی تھی۔ ہم تھوڑی دیر وہاں گھومے۔ تصویریں بنائیں۔ یہاں سے دن میں مٹھی شہر ایک سویا ہوا خاموش شہر دکھائی دے رہا تھا۔ سڑکیں یورپ کے معیار کی تھیں جن پر لگے شہروں اور فاصلے سے متعلق معلوماتی بورڈوں پر پاکستان اور چین کے پلاسٹک سے ڈھلے مستقل جھنڈے بھی آویزاں تھے۔ عابد صاحب نے بتایا کہ چینیوں نے صحرا میں جدید بستیاں بسائی ہوئی ہیں جہاں دنیا کی ہر سہولت موجود ہے۔ ان بستیوں میں کچھ چینی تو اپنی بیویوں اور بہت چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی مقیم ہیں۔ وہاں داخل ہونے کی خاطر خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔

اگر سہولتیں ہوں۔ مشاہرے مناسب ہوں۔ آنے جانے کی باعزت اور مناسب سواریاں دستیاب ہوں تو لوگ نہ صرف ویرانے کو بارونق علاقہ میں بدل سکتے ہیں بلکہ وہاں کام کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے البتہ اس کے برعکس اگر کوئی سہولت نہ ہو پھر بھی لوگوں سے کہا جائے کہ ایسے مقامات پر جا کے کام کریں تو بھلا کون جاتا ہے، جھوٹی حاضری لگوا کے بس تنخواہ وصول کرنے کی بدعنوانی ہی کریں گے اور عام لوگ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم رہیں گے۔ اب دیکھیے جو کام ہم ستر برس میں نہ کر سکے وہ چار پانچ برس پہلے ایک دو سال میں چینیوں نے نہ صرف کر دکھایا بلکہ وہاں رہ کر کے کام بھی کرنے لگے ہیں۔

میرے ذہن میں تھر کا تصور محمد خالد اختر کی تھر یاترا کے سفرنامہ والا تھا جو ساٹھ برس پہلے لکھا گیا تھا جب انہوں نے اونٹوں اور بہت برے راستوں پر چلنے والے قدیم طرز کے پرانے ٹرکوں، جنہیں مقامی لوگوں نے کیکڑا نام دیا تھا، بیٹھ کر تھر یاترا کی تھی، اسی لیے میں بند بوٹ پہن کر آیا تھا کہ مجھے ریت کے ٹیلوں پہ چڑھنا اور چلنا ہو گا مگر اب نہ اونٹ تھے نہ کیکڑا۔

چینیوں کی تعمیر کردہ بہترین سڑک پر آگے بڑھے تو چینیوں کا ہی تعمیر کردہ کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر دکھائی دیا۔ اس کے قریب جانے کی تو اجازت ہمارے پاس نہیں تھی اوپر سے میں غیرملکی، تبھی تو میں اپنا پی او سی اور بھائی کا این آئی سی کارڈ جیب میں لیے گیا تھا چنانچہ ہم نے بلکہ میں نے صحرا میں بنے اس بجلی پیدا کرنے کے کارخانے کے سامنے سڑک پر کھڑے ہو کر تصویر بنوائی۔

عابد صاحب سے پوچھا کہ کتنے میگا واٹ کا ہے یہ بجلی گھر تو بے دھیانی میں بولے گیارہ لاکھ کا۔ وہ غلطی سے گیارہ ہزار واٹ کو گیارہ لاکھ کہہ بیٹھے تھے۔ میں نے اور ظفر نے ہم زبان ہو کر کہا کہ گیارہ لاکھ تو بہت ہی زیادہ ہیں، ہمارے ملک کی مجموعی ضروریات سے بھی زیادہ تو انہوں نے بجلی کے چھوٹے کھمبوں کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ کم بجلی تو ان تاروں کے ذریعے جا رہی ہے اور بڑے نئے کھمبوں میں زیادہ۔ تب میں نے کہا کہ آپ وولٹ اور واٹ میں گڑبڑ کر رہے ہیں۔ بولے اوہو اچھا تو یہ چھ سو میگا واٹ کا بجلی گھر ہے۔

میں نے استفسار کیا کہ کیا کوئلہ کی کانیں ویسے ہی قدیمی اور تحفظ کے بغیر ہیں جیسے بلوچستان کے چاغی ڈسٹرکٹ میں۔ انہوں نے بتایا کہ اوپن پٹ یعنی کھلے گڑھے ہیں۔ اچھا جیسے ہیرے نکالے جاتے ہیں پیچواں راستے والے بڑے گڑھے سے۔ بولے ہاں، میں نے خود دیکھے ہیں، دو سو میٹر گہرائی والے۔ اچھا تو آپ اترے ان میں۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو میں نے حیران ہو کے پوچھا یعنی آپ دو سو میٹر گہرائی میں پیدل اترے اور چڑھے؟ عابد بھائی مسکرائے اور کہا ڈاکٹر صاحب ایسی ہی سڑکیں بنی ہوئی ہیں جیسی پہ ہم جا رہے ہیں۔ شاباش ہے بھئی چینیوں کو، میں بولا۔

اگر کوئلے کی کان دیکھنے کی اجازت نہیں تو آخر ہم کہاں جا رہے ہیں، میں نے پوچھا۔ آپ کو قدیمی جین مندر دکھانے لے جا رہے ہیں۔ کئی کلومیٹر مزید چلنے کے بعد ایک جانب کو پاکستانیوں کی بنائی سڑک پہ مڑے۔ چونکہ تھر میں بیشتر لوگوں کی رہائش گول اور گنبد نما جھونپڑیوں میں ہے جو اس سڑک کے دونوں جانب بھی تھیں۔ عابد صاحب نے بتایا کہ ان جھونپڑیوں کو چونہرا کہتے ہیں۔ جن کا کلس لنبوترا ہے وہ ہندووں کی ہے اور جو مسطح ہیں وہ مسلمانوں کی لیکن ایسا ہونا ضروری بھی نہیں۔ یہ بھی اضافہ کیا کہ یہ چونہرا اندر سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں نے ایسی کسی جھونپڑی کے اندر جانے کی خواہش کی تو وہ بولے لے جائیں گے آپ کو۔ ان جھونپڑیوں کے باہر علامتی مندر دھرے تھے۔

پھر ایک جگہ پہنچ کر سڑک کے ایک کنارے پر بورڈ لگا تھا جس پر سندھی اور انگریزی زبان میں ”گوری جین مندر“ لکھا ہوا تھا۔ گاڑی ادھر کو مڑی اور ایک درخت کے سائے میں روکی گئی۔ ایک بن پتوں کے گھنی جھاڑی کی اوٹ میں تین آدمیوں کی منڈلی بیٹھی شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام گا رہی تھی۔ سامنے مندر تھا جو عام زمیں سے ذرا نیچے تھا۔ اس مندر کے گنبد مندروں جیسے نہیں بلکہ ترکی طرز کی مساجد کے گنبدوں ایسے تھے۔ مندر میں داخل ہونے کی سیڑھیوں تک پہنچنے سے پہلے چٹان کے کاٹے ہوئے غیر متناسب ٹکڑے ایک سیدھ میں رکھے تھے، جو شاید یونہی رکھ دیے گئے تھے۔ ایک جانب پتھروں کی تعمیر سے بنایا ایک گڑھا تھا جس کے ایک جانب جیسے اندر جانے کا تنگ راستہ تھا۔

عابد صاحب نے بتایا کہ یہ سرنگ تھی جو کہنے کے مطابق بہت لمبی تھی اور علاقے میں تعمیر دوسرے جین مندروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اب یہ سرنگ مسدود ہو چکی ہے۔ مندر کے بارے میں حتمی تو معلوم نہیں مگر اندازہ ہے کہ اسے لگ بھک 1375 عیسوی میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ جودھ پوری پتھر، جو سنگ مرمر سے مماثل ہے کے ستونوں پہ کھڑا کیا گیا یہ مندر اندر سے باہر کی نسبت ٹھنڈا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصے پر نقش و نگار اب تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر ایک تنگ سنگی دروازے سے گزر کر ایک ہال ہے جس کے ایک جانب چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں تھیں جن کی پشت کی جانب بلند چبوترا تھا۔

مندر کی نگرانی کرنے والے بھیل ہندو نے جو مسلسل ہاتھ باندھے ہمارے ساتھ ساتھ تھا نے بتایا کہ یہ کوٹھریاں عبادت گزاروں کے لیے تھیں جو ان میں بیٹھ کر تپسیا کیا کرتے تھے۔ میں نے بھی ایک چبوترے پر بیٹھ کے تپسیا کے انداز میں تصویر بنوائی۔ باہر نکلنے کے لیے مجھے باہر سیڑھیوں پر مشکل سے اتار کر دھرے اپنے بوٹ نکالنے سے زیادہ محنت کر کے پہننے پڑے تھے۔

جاتے جاتے عابد چوکڑا مار کر گائیک منڈلی کے ساتھ بیٹھ گئے اور ان کے مقابلے میں گا کے بھٹائی کے اشعار پڑھنے لگے۔ ہماری اگلی منزل معروف داستانی کردار ماروی کا کنواں تھی جسے حکومت سندھ نے ٹورسٹ سپاٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔

واپس مٹھی کی جانب چل پڑے اور کئی کلو میٹرز کے بعد سڑک کے دوسری طرف پھر سے ایک پاکستانی سڑک پہ مڑ لیے۔ یہ راستہ ماروی جو کھوہ یعنی ماروی کے کنویں کی جانب جاتا تھا۔ ایک جگہ چہار دیواری کے نزدیک پہنچے۔ گاڑی جا کے دروازے سے ادھر روک دی گئی۔ دروازے کے مخالف راستے کے اس پار کوئی پچیس قدم دور بنے ایک دیہاتی ڈھابے سے ایک نوجوان کار دیکھتے ہی چل پڑا تھا، جونہی ہم اترے اس نے چائے، بوتلوں کی پیشکش کی۔

ہم دروازے سے اندر داخل ہو گئے۔ سامنے ایک کنواں تھا جس کے ایک جانب ایک آدمی بوکے سے کنویں کا پانی نکال کر لیے کھڑا ہولے ہولے بہا رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی کہا، پانی چیک کریں سائیں۔ میں نے انکار کر دیا۔ ایک راہداری جس کے اطراف میں درختوں والے خالی قطعے تھے اور راہداری کے پہلووں پر سبز بیلیں چڑھی ہوئی تھیں اندر کی طرف جاتی تھی۔ باہر ہی سے دیوار کے پیچھے اندر بنے بڑے بڑے اور اونچے چونہرا دکھائی دیتے تھے۔

راہداری ایک جگہ ایک کمرے پہ ختم ہوئی۔ کمرہ پختہ تھا جس پر باہر کی جانب چونہرا کا ڈیزائن بنایا گیا تھا مگر اندر عام لینٹل والی چھت تھی البتہ کمرہ ٹھنڈا تھا۔ ایک جانب کرسی پر شہزادہ عمر سومرو کا مجسمہ پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا دوسری طرف ماروی ایک سہیلی کے ہمراہ زمیں پر بیٹھی تھی، یعنی دونوں مجسموں کی صورت۔ لوگ پہلے ہی ان کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے، جب وہ نکل گئے تو میں نے بھی باری باری ان دونوں مجسموں کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔

اطراف میں دو اور کمرے تھے جو اگر باہر دوری سے دیکھے جائیں تو چونہرا ہی دکھائی دیں گے مگر اندر سے وہ عام جدید کمرے ہیں جن میں ایک پرانے برتنوں اور دوسرا سندھی ہینڈی کرافٹس سے سجایا ہوا ہے۔ ہم برآمدہ عبور کر کے آئے تو عابد چنا صاحب پھسکڑا مار کے گانے والی منڈلی کے ساتھ بیٹھ گئے اور مجھے بھی بیٹھ جانے کو کہا۔ میں اپنے مشکل سے اتارے جانے والے بوٹ نہیں اتار سکتا تھا۔ ان کے ساتھ ہی دری پر بیٹھ گیا۔ یہ وہ چونہرا تھا جس میں عابد صاحب مجھے بٹھانا چاہتے تھے مگر میں اس سے باہر ہی رہا اس لیے اندازہ نہیں کر سکا کہ وہ اندر سے خنک ہے یا موسم کی طرح نیم گرم۔

سامنے ہی مجھے روہیڑا کا درخت نظر آیا جس پہ نارنجی پھول تھے۔ عابد چنا صاحب نے بتایا تھا کہ روہیڑا کے پھول کسی درخت پر نارنجی تو کسی پر سرخ ہوتے ہیں۔ یہ درخت چالیس سال میں پل کر بڑا ہوتا ہے جب اس کی لکڑی بہت مضبوط اور کارآمد ہوتی ہے۔ یہ درخت کاٹنا انگریز کے دور سے ہی منع ہے مگر لوگ دروازے کھڑکیاں بنوانے کے لیے کاٹ ہی لیتے ہیں۔ اس کے پھول بہت حد تک گڑھل کے پھولوں سے مشابہ ہیں لیکن گڑھل کا پودا ہوتا ہے اور یہ قامت اور موٹائی میں درخت۔ میں نے اس درخت تلے کھڑے ہو کر تصویر بنوائی اگرچہ سامنے سورج کی وجہ سے میری آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔

اب ہمارا شہر سے باہر کا دورہ تمام ہو گیا تھا اور ہمیں سلام کوٹ جانا تھا۔ سلام کوٹ میں سنت آنند آشرم ہے جو عابد چنا صاحب مجھے دکھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس آشرم میں روزانہ دس من اجناس پرندوں کو ڈالی جاتی ہیں۔

میں چونکہ ماسکو میں بچوں کو بتا چکا تھا کہ میں ایسی جگہ جا رہا ہوں جہاں مور آزاد گھومتے ہیں۔ میں انہیں ان موروں کی وڈیو دکھانا چاہتا تھا۔ اگرچہ آشرم میں پرندے بہت تھے مگر کوے کبوتروں کے علاوہ مور کہیں نہیں تھے۔ عابد صاحب کے استفسار پر بتایا گیا کہ وہ گرمی کی وجہ سے درختوں میں چھپے ہوں گے۔ اب بھلا انہیں کون ڈھونڈتا۔

اس وسیع و عریض آشرم میں ایک ستونوں پر کھڑی کی گئی چھت کے تلے بہت سے چولہوں پر بہت سی بڑی بڑی دیگچیاں پڑی تھیں جو وہاں دیگ کہلاتی ہوں گی۔ ان سے کھانا نکال نکال کر اس کے سامنے بنے وسیع اور اونچی چھت والے شیڈ کے نیچے سیمنٹ کے فرش پر بے ترتیب بیٹھے لوگوں کو کھلایا جا ریا تھا۔

باہر نکلنے لگے تو کچھ راجستھانی عورتیں آ رہی تھیں جنہوں نے پہنچہ سے شانہ تک پلاسٹک کے چوڑے چڑھائے ہوئے تھے۔ اس بارے میں عابد صاحب نے بتایا کہ اگر چوڑے شانے تک ہوں تو وہ کنواری ہوگی اور اگر کہنی تک ہوں تو بیاہتا۔ اگر چوڑے محض کلائی میں ہوں تو وہ ودھوا۔

باہر کار میں ڈرائیور انتظار کر رہا تھا۔ سامنے کے احاطے میں بہت زیادہ گائیں، کچھ بکریاں اور چند اونٹ اکٹھے تھے۔ آشرم ان مویشیوں کو بھی دن بھر مفت چارہ دان کرتا ہے۔ انسانوں، پرندوں اور مویشیوں کے لیے رزق عشروں سے فراہم کیا جا رہا ہے۔ اب میں نے ڈرائیور کے ساتھ نشست سنبھال لی کیونکہ مجھے گرمی لگنے لگی تھی اور عقبی نشست دیر کے بعد ٹھنڈی ہوتی۔ بکتے ہوئے بیروں کو دیکھ کے میں نے بیروں کا تقاضا کر دیا۔ مہربان عابد کار سے اتر کر بیر خرید لائے۔ میں نے کہا کہیں بیٹھ کر کھائیں گے۔ تقاضا تو میں نے رات سے کوئی میٹھی چیز کھلائے جانے کا بھی کیا تھا چونکہ عابد صاحب کو ذیابیطس لاحق ہے اور ظفر کو لاحق ہونے کا خدشہ، چنانچہ عابد صاحب نے رات آئس کریم کھلانے کا وعدہ کیا تھا جو ہم دونوں بھول چکے تھے۔

دوپہر کا کھانا اکاؤنٹنٹ ٓنند لال کے ہاں تھا۔ عابد صاحب نے تو مجھے روایتی کھانے کھلانے کی ہامی بھری تھی مگر وہاں وہی گوشت چاول وغیرہ تھے۔ بھوک لگی ہوئی تھی میں تو ٹوٹ پڑا۔ کھانے کے بعد پھل لائے گئے، وہ بھی کھائے۔ ظفر نے طے کیا ہوا تھا کہ چار بجے بہرحال واپسی کے لیے نکلنا ہے لیکن مجھے راستے میں سٹور دکھائی دیا تو میں نے پھر آئس کریم خریدنے کی بپتا ڈال دی۔ عباس فقیر کار سے اتر کر تین مینگو آئس کریم کی ڈبیاں خرید لایا۔ ہم پھر سے عباس فقیر کی بیٹھک میں پہنچے جہاں میں نے بوٹ اتار دیے، پہلے عباس نے گیت سنایا پھر میں نے گلوکار اور دوستوں کی سمع خراشی کا جتن کیا مگر توقع کے خلاف انہیں میری گلوکاری پسند آئی اور عباس فقیر نے تکریم میں ستائش کر ڈالی۔

میری اولیں سابقہ اہلیہ ہوٹل کے بستر کی چادر دیکھ کر ڈبل بیڈ کی دو روایتی چادریں اور رلی لانے کی فرمائش کر چکی تھی۔ دکان عباس کے گھر کے پاس کہیں تھی۔ ہم عباس کو الوداع کہہ کر دکان پہ پہنچے تو دکان بند تھی مگر عابد بھائی میزبانی میں پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے مالک کا در جا کھٹکھٹایا۔ وہ نکلا تو عابد صاحب نے کہا دکان کی چابی لے آؤ۔ وہ گھر سے چابی لے کے ہمیں دکان میں لے گیا جو ایرکنڈیشنر کی وجہ سے خنک تھی۔ لانے والا بتانے لگا کہ دکان میں چھوٹا بھائی کام کرتا ہے اور میں اسلام آباد میں سروس کرتا تھا اب چینیوں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔

اتنے میں اس کا بھائی آ گیا تو بڑا بھائی گھر چلا گیا۔ یہ نوجوان بہت اچھا سیلز مین تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم بلاک پرنٹنگ گھر میں کرواتے ہیں۔ لون کے سوٹوں پہ ہاتھ دھر کے بتایا کہ سبز رنگ نیم کے پتوں سے اور زرد ہلدی سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دوسرے رنگوں کے اجزا بھی قدرتی ہیں مگر ہمیں تو چادریں لینی تھیں سو لیں۔ یہاں بھی عابد صاحب نے مجھے ادائیگی نہ کرنے دی۔

ہم عابد صاحب کی این جی او کے دفتر پہنچ گئے۔ آئس کریم اور دھلے ہوئے بیر آ گئے۔ عابد صاحب نے دونوں میرے ساتھ کھائے مگر ظفر نے اجتناب کیا۔ اس دوران عابد صاحب مجھے اپنے استاد حمید اختر خان صاحب سے متعلق بتانے لگے۔ میں نے پھر تقاضا کیا کہ آپ نے کسی مقامی مٹھائی کا ذکر کیا تھا۔ لو جناب عابد صاحب نے وہ بھی منگوا لی۔ سوہن حلوہ ایسے مگر اس سے مختلف حلوہ سے، جس میں کشمش اور بادام تھے، کھانے سے ظفر گریز نہ کر سکے اگرچہ اس میں شکر آئس کریم کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھی، اس لیے کہ وہ لذیذ بھی تھا اور ظفر کو پسند بھی۔

تھر سے متعلق قریب قریب تمام تقاضے پورے ہو گئے تھے مگر ابھی مور دیکھنے کا تجسس برقرار تھا۔ ڈرائیور امان اللہ نے بتایا تھا کہ دوسرے پٹرول پمپ پر مور ہوں گے۔ ہم پانچ بجے روانہ ہوئے جو ظفر کے متعین وقت سے ایک گھنٹہ زیادہ تھا۔ دوسرے پمپ پہ جا کے گاڑی روکی، ظفر نے سامنے ٹیلے پر دیکھ کے کہا کہ ایک مور تو وہاں بیٹھا ہے۔ آپ اتر کے دیکھ لیں شاید اس طرف موجود ہوں۔ مور تو کہیں نہیں تھے البتہ پمپ کے احاطے کے اس جانب سے ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور آ کے ہاتھ پھیلا دیا۔

ظفر نے موروں کے متعلق پوچھا تو بولا، بھجی ویو یعنی بھاگ گئے ہیں۔ ظفر نے اسے کچھ پیسے دیے اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ اس سے اگلے پٹرول پمپ کے پاس واقعی کوئی دس مور تھے جن میں آٹھ سرمئی مور اور دو رنگین لمبی مگر کم گھنی دموں والی مورنیاں۔ ظفر نے کار کا دروازہ کھول کر موبائل فون سے وڈیو لینا شروع کی۔ میں نے کہا نکل کے آگے جا کے بناؤ۔ ظفر نے کہا کہ ڈر کے اڑ جائیں گے، مگر یہ کہہ کے نکل کے کھڑا ہوکے وڈیو بنانے لگا۔ میں دروازہ کھول کے موروں کے قریب چلا گیا۔ وہ ڈرے تو نہیں البتہ مورنیاں منہ موڑ کر دوسری جانب چلی گئیں جبکہ مور سڑک عبور کر گئے۔ پھر مورنیاں بھی ان کے تعاقب میں نکلیں۔ ایک گاڑی سے گھبرا کے ایک مورنی نے اڑان بھری جو وڈیو میں محفوظ ہو گئی۔ یوں یہ مقصد بھی پورا ہوا اور ہم واپسی کے سفر پر چل نکلے۔

ظفر نے اس بار میر پور خاص والا راستہ اختیار کیا تھا کیونکہ وہاں اسے اپنے ایک سکول کے ہم جماعت فضل حق چانڈیؤ سے ملنا تھا جو وہاں ڈی ایس پی تھے، راستے بھر ظفر یہی کہتا رہا کہ رات کو مجھ سے گاڑی نہیں چلتی اگر ہم چار بجے نکل آتے تو ٹھیک ہوتا۔ خیر ان کے دوست سے مختصر ملاقات کی جنہوں نے وہاں کی سوغات پستہ حلوہ کا ایک ایک ڈبہ ہماری نظر کیا چونکہ میں ان سے پوچھ چکا تھا کہ میرپور خاص کی کیا شے مشہور ہے۔

ہمیں حیدر آباد سے گزرنا تھا۔ یہ مناسب نہ ہوتا اگر میں اپنے دیرینہ دوست حسین سومرو کو بعد میں بتاتا کہ ہم تیرے پہلو سے گزر کے نکل گئے۔ میں نے اسے فون کر کے بتا دیا کہ ہم تیرے شہر سے گزر رہے ہیں۔ دیر ہونے کی وجہ سے ملاقات نہیں کر سکوں گا۔ بولا ٹھیک ہے لیکن اگر آ جاؤ تو چائے پی لیں گے۔ میں نے ظفر سے پوچھا تو انہوں نے لوکیشن بھیجنے کو کہا۔ سفر پھر بھی 25 منٹ کا تھا۔ ایک بار پھر حسین نے کال کی اور کھانے سے متعلق پوچھا۔ میں نے کہا جو گھر میں ہو گا کھا لیں گے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو گھر کی خواتین تکلف میں پڑ گئیں۔

میں نے حسین کو بتایا کہ تم تو لے نہیں گئے میں پھر بھی تھر ہو آیا ہوں۔ اس نے طنز کیا کہ تم تھر کو ہاتھ لگا کے آ گئے ہو۔ بارہ سوا بارہ بجے اسے خدا حافظ کہا اور کوئی سوا دو، اڑھائی بجے صبح گھر پہنچا۔ میں نے بالآخر تھر دیکھ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments