سیلاب، ہیڈ پنجند اور الٹی زقند


ستمبر 1992 کا پہلا عشرہ تھا۔ میں ان دنوں ڈپٹی کمشنر بہاولپور تعینات تھا۔ عید میلاد النبی کی تعطیل کا روز تھا۔ بہاولپور ضلع میں عید میلاد النبی بہت یکجہتی اور دل بستگی کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ میں اطمینان سے محو خواب تھا۔ آج میرا معمول سے ایک دو گھنٹے زیادہ سونے کا دل تھا۔ آٹھ بجے صبح ٹیلیفون آپریٹر نے مجھے جگا دیا کہ کور ہیڈ کوارٹر سے ضروری فون ہے۔ دوسری طرف بریگیڈیئر چیف آف سٹاف تھے۔ کہنے لگے، ڈی سی صاحب آپ سو رہے ہیں؟

میں چونکا۔ شاید ضلع میں کوئی بھاری بھر کم حادثہ ہو گیا ہے۔ میں نے تشویش اور حیرانی سے پوچھا، بریگیڈیئر صاحب خیریت! وہ بولے، خیریت نہیں ہے۔ کیا آپ کو اطلاع نہیں کہ سیلابی پانی کے حد سے زیادہ دباؤ کی وجہ سے منگلا ڈیم کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے نصف شب کے بعد ہنگامی طور پر اس کے تمام دروازے کھول دیے گئے ہیں اور اس وقت سیلابی پانی جہلم شہر کی چھتوں کے اوپر سے گزر رہا ہے۔ سیلابی ریلے کا اندازہ 9 لاکھ کیوسک کا ہے اور یہ جہلم دریا کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے۔

میں بستر میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ گزشتہ چند روز میں بہاولپور ضلع میں بھی موسلا دھار بارشیں ہوئی تھیں۔ ایک آدھ چھوٹی نہر بھی ٹوٹ گئی تھی جس کو تو جلد ہی سنبھال لیا گیا تھا۔ میں نے خود موقع معائنہ کیا تھا، کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا لیکن بارشوں سے بہت سارے کچے مکان گر گئے تھے۔ بہاولپور کے قدیمی علاقوں میں عام رواج یہ ہے کہ کاشتکار خاندان اپنی زمینوں پر ہی چھوٹی سی بستی بسا لیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہر طرف سے مکانات گرنے کی اطلاعات تھیں۔

حکومت کی ہدایت پر انتظامیہ کی طرف سے معاوضے کے لیے سروے کیا جا رہا تھا۔ صوبے کے بالائی حصوں اور مزید اوپر کشمیر میں بارشیں اور بھی زیادہ شدت سے ہوئی تھیں۔ منگلا ڈیم والی بپتا سمجھ میں آ رہی تھی۔ بریگیڈیئر صاحب نے بات جاری رکھی، دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر اس وقت اخراج آٹھ لاکھ کیوسک ہے۔ یہ دونوں انتہائی بڑے سیلابی پانی ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر اکٹھے ہوں گے۔ اب دعا ہے اور بچت کی کچھ صورت بھی یہی ہے کہ دونوں سیلابی ریلے آگے پیچھے اس سنگم پر پہنچیں ورنہ صورتحال اس مقام سے آگے کسی کے بس میں نہیں رہے گی۔ میں تقریباً بھاگتے ہوئے اٹھا اور منہ ہاتھ دھوکر کیمپ آفس کھول لیا۔

کچھ ہی دیر میں لاہور کے صوبائی دفاتر سے ٹیلیفون کالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چیف منسٹر ہاؤس، چیف سیکرٹری ہاؤس، بورڈ آف ریونیو اور محکمہ انہار سے آنے والی تمام کالیں تشویش سے لبریز تھیں۔ میں نے کمشنر صاحب کو پچھلے ایک گھنٹے میں آنے والی تمام کالوں کا خلاصہ بتایا اور اپنے مجوزہ عملی اقدامات کا ابتدائی خاکہ پیش کیا۔ اب اگلے کئی دن مجھے فلڈ ایریا میں گزارنا تھے اور ان سے رابطہ خال خال ہونا تھا۔ اسی دوران میں ڈی سی آفس کھلوا کر سیلاب کے انتظامات سے متعلقہ تمام سرکاری محکموں کے ضلعی سربراہان کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا۔

محکمہ انہار، زراعت، تعلیم، پولیس، صحت، انتظامیہ اور دیگر محکموں کے چیدہ سرکاری افسران گہری فکر کے عالم میں اجلاس میں شریک تھے۔ اگست 1973 کے بڑے سیلاب میں دریائے چناب کا بایاں پشتہ ٹوٹ گیا تھا اور سیلابی ریلہ اچ شریف شہر کو نقصان پہنچاتا ہوا 120 کلومیٹر دور رحیم یار خان تک چلا گیا تھا۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر خان پور، جو نشیب میں واقع ہے اور خان پور کٹورہ کہلاتا ہے، میں سیلابی پانی بہت سے گھروں میں روشن دانوں سے داخل ہوا تھا۔

زمانہ طالب علمی کے اخبارات کی شہ سرخیاں مجھے یاد آ گئیں۔ کراچی لاہور والی قومی شاہراہ اور ریلوے لائن جگہ جگہ سے ٹوٹ گئی تھیں۔ پورا ملک شدید مشکلات کا شکار ہوا تھا۔ مواصلات کا نظام بحال ہونے میں کئی ہفتے لگ گئے تھے۔ یہ درست تھا کہ پچھلے بیس سالوں میں سیلاب سے بچاؤ والے حفاظتی بند کو خاصا مضبوط اور بلند کر دیا گیا تھا لیکن اچ شریف شہر کے شمال مشرق میں اس ٹوٹ جانے والی جگہ میں اب بھی بہت بڑا خطرہ پوشیدہ تھا۔

دراصل اس طرف کو دریا کا قدرتی بہاؤ تھا جس کو سال 1925 سے 1929 میں ہیڈ پنجند بناتے وقت موڑ کر موجودہ گزر گاہ میں لے جایا گیا تھا۔ طوفانی موج میں آیا ہوا دریا کسی بھی وقت اپنی قدیمی گزر گاہ کا رخ کر سکتا تھا۔ اور جو سیل عظیم اس وقت چل پڑا تھا اس کا سامنا اس جگہ کا حفاظتی بند، جواب ایک گولائی میں محفوظ کیا گیا تھا، شاید ہی کر سکتا۔ کئی گھنٹوں کی سوچ بچار اور بحث و تکرار کے بعد سب سرکاری محکمے اپنی اپنی ذمہ داریاں سمجھ چکے اور انہیں سنبھالنے پر پوری رضامندی سے تیار ہو چکے تھے۔ ضلعی انتظامیہ بھی اس پوزیشن میں آ گئی تھی کہ سیلاب پر قابو پانے کا باقاعدہ منصوبہ جاری کر سکے۔

اولین ترجیح ان ہزاروں انسانوں اور مویشیوں کا مکمل انخلا تھا جو بند کے اندر دریا کی طرف آباد تھے۔ ان میں سے اکثر لوگوں نے تو قیمتی سامان اور مویشیوں کے ساتھ بند کے باہر کی طرف بسنے والے اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو جانا تھا لیکن ایک بہت بڑی تعداد کے لیے کیمپوں کا انتظام سرکاری عمارتوں خصوصاً سکولوں میں اور پھر بند کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے یا درختوں کی چھاؤں میں ہونا تھا۔ انخلاء کا کام محکمہ مال مناسب تشہیر و منادی، ترغیب و تحکم اور معززین کی مدد سے بخوبی کر سکتا تھا۔

کیمپوں کا قیام محکمہ تعلیم اور مقامی لوگوں کے تعاون سے بطریق احسن ہو سکتا تھا۔ محکمہ صحت اور محکمہ لائیو سٹاک کی موبائل ٹیمیں پورے فلڈ ایریا میں بند کے اندر اور باہر کی طرف حفاظتی ٹیکے لگا سکتی تھیں۔ پہرے کے رضاکارانہ انتظام، ٹھیکری پہرہ اور پولیس کی اضافی نفری کی مدد سے کیمپوں میں اور خالی کی گئی آبادیوں میں چوری چکاری کا تدارک کیا جا سکتا تھا۔ یہ سب کام نئے نہ تھے، ہر پانچ دس سال میں اس طرح کی افتاد آن پڑتی تھی۔ مگر جو آفت اب کے درپیش تھی اس کا حجم تاریخی یادداشت سے بڑھ کر تھا۔ پھر بھی اس کا مقابلہ جواں مردی سے کیا جاسکتا تھا۔ اور اس مقابلے میں کامیابی کے امکانات روشن تھے۔

اصل مسئلہ اس جگہ کا تحفظ تھا جہاں 1973 کے سیلابی ریلے میں حفاظتی بند ٹوٹ گیا تھا۔ یہ مقام دریا کی قدیم گزر گاہ تھا، جب دریا اچ شریف کے کناروں کو چھوتا ہوا بہتا تھا۔ بیس سال پہلے کی تباہ کاریوں کے بعد حفاظتی بند کو بہت اونچا، چوڑا اور مضبوط کیا گیا تھا اور خاص طور پر اس جگہ پر پتھروں کی مضبوط بھرائی کی گئی تھی۔ پھر بھی اس کے چپے چپے کی نگرانی اور مزید مضبوطی ضروری تھی۔ چند سال پہلے ہیڈ پنجند سے ایک اضافی نہر عباسیہ لنک نکالی گئی تھی جو تاحال چلی تو نہیں تھی لیکن اچ شریف شہر کے لیے ایک طرح کا حفاظتی حصار بن گئی تھی۔

چونکہ اس میں پانی ابھی تک نہیں چلا تھا اس لیے اس کے دونوں کنارے موٹے اور چوڑے ہونے کے باوجود بھر بھرے سے تھے اور ان کو مضبوط کیا جانا اشد ضروری تھا۔ اس کام کے لیے عملہ اور مزدور مطلوبہ تعداد میں محکمہ انہار اور مقامی انتظامیہ مہیا کر سکتے تھے لیکن درکار مشینری یعنی بلڈوزر تو محکمہ زراعت اور محکمہ شاہراہ کے پاس ہی تھے۔ محکمہ شاہراہ کے بلڈوزر تو گنے چنے تھے اور مختلف سڑکوں پر کام کر رہے تھے اس لیے آسانی سے دستیاب تھے جبکہ محکمہ زراعت کے بلڈوزر تھے تو بڑی تعداد میں مگر 160 کلومیٹر کے طول و عرض والے وسیع ضلع کے مختلف دور افتادہ دیہات میں بکھرے ہوئے کھیتوں میں ہمواری کا کام کر رہے تھے اور ان کی نقل و حمل کے لیے مخصوص لوڈر ٹرک صرف ایک تھا۔ اس لیے انہیں مارچ کروا کر ان کی بیزار کن آہستہ رفتار کے ساتھ بند اور نئی نہر پر پہنچانا تھا۔

بند ٹوٹ جانے کی صورت میں تحصیل احمد پور شرقیہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی۔ سیلابی پانی کی رو سے ادھر اور دریا کے پاٹ کے ادھر کے درجنوں دیہات ایک جزیرے کی شکل اختیار کر لیتے۔ اس علاقے کے مکینوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی اور مویشیوں کی ضروریات کے لیے دو ہفتے کا سامان ذخیرہ کر لیں۔ سیلابی ریلے کی زد میں آنے والی آبادیوں اور دیہات میں تباہی سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ قیمتی جانوں اور اشیاء کو وہاں سے بروقت نکال لیا جائے اور قریبی محفوظ مقامات پر منتقل کر لیا جائے۔ رہے کھیت کھلیان اور عمارتیں اور مکان تو وہ تو مکمل طور پر سیلابی پانی کے رحم و کرم پر ہوتے۔

ہیڈ پنجند کی تنصیبات کو ہر قیمت پر بچایا جانا تھا۔ یہ ساڑھے چھ لاکھ کیوسک پانی گزارنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا اور ہر خطرہ مول لے کر سات لاکھ کیوسک تک پانی گزارا جا سکتا تھا جبکہ ہیڈ پنجند کو اپنے ڈیزائن سے دگنے سے بھی زیادہ پانی کے خطرے کا سامنا تھا۔ اس لیے اوپر کے پانی کو دائیں کنارے پر نشان زدہ جگہوں سے بند توڑ کر Escape Channel (ہنگامی راستے ) سے گزارا جانا تھا۔ کسی بھی ہیڈ ورکس پر اس طرح کے بچاؤ کے راستے کو اس طرح بنایا جاتا ہے کہ اضافی سیلابی پانی ادھر سے نکل کر کھلے علاقوں میں سے ہوتا ہوا ہیڈ ورکس سے کچھ کلومیٹر نیچے دوبارہ دریا میں آ گرے۔

اس ہنگامی راستے میں موجود پکی سڑکوں کو بھی مناسب مقامات پر توڑا جانا تھا تاکہ اضافی سیلابی پانی جلد سے جلد نکل جائے اور اکٹھا ہو کر کوئی نئی مصیبت پیدا نہ کرے۔ ہیڈ پنجند کی تنصیبات اور مشینری کی دیکھ بھال کے لیے محکمہ انہار کے سینئر افسروں کو اور اس کی حفاظت کے فیصلوں کے لیے چیف انجینئر صاحب اور مجھے وہاں پر بر وقت موجود ہونا تھا۔ ہیڈ پنجند کو کچھ ہو جاتا تو پورا ضلع رحیم یارخان اور ضلع بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کا کافی حصہ، جو ادھر سے نکلنے والی دو بڑی نہروں پنجند اور عباسیہ نہر سے سیراب ہوتے تھے، دوبارہ ریگ زار بن جاتے اور صوبے اور ملک کی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس علاقے میں زندگی تلپٹ ہوجاتی۔

چھٹی کا دن ختم ہو گیا۔ سارے سرکاری دفاتر کھل گئے اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیل کانٹے سے لیس ہو نا شروع ہو گئے۔ دریائے جہلم کا بلند ترین سیلاب اگلے ضلع منڈی بہاوالدین میں بھی انہی تباہ کاریوں میں مصروف تھا جبکہ دریائے چناب کا بلند ترین سیلاب اب گوجرانوالہ اور گجرات کے اضلاع میں مار دھاڑ کر رہا تھا۔ صورتحال گمبھیر تھی لیکن ہمارے لیے حوصلے کی ایک صورت یہ تھی کہ سیلابی ریلے کو ہمارے پاس آتے آتے کم از کم ایک ہفتہ لگ جانا تھا۔

دن رات ایک کر کے ہم مقابلے کی سطح پر آ سکتے تھے۔ میں نے سیلاب سے متاثر ہونے والے ممکنہ علاقوں کا ہنگامی دورہ کیا اور ایک بار پھر حفاظتی بند اور اچ شریف شہر کا حصار بنانے والی نئی نہر کے پشتوں کا معائنہ کیا اور مقامی او ر ضلع بھر کے اضافی افسران اور اہل کاروں میں ڈیوٹیاں بانٹ دیں۔ کیمپوں کی جگہیں بھی دیکھ لیں جہاں صفائی اور دیگر انتظامات شروع ہوچکے تھے۔ ہیڈ پنجند پر محکمہ نہر کے سینئر افسران کے عارضی دفتر کا انتظام ہو گیا جہاں وہ اوپر سے آنے والے پانچوں دریاؤں کی فلڈ ڈسچارج رپورٹ بہت باقاعدگی سے لے رہے تھے اور اپنی جمع تفریق کرتے جا رہے تھے۔

قومی اخبارات فلڈ کے تیسرے دن اپنی ایک روزہ تعطیل کے بعد چھپ چکے تھے اور ان کے صفحات کا زیادہ حصہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق تھا۔ پی ٹی وی کے، جو اس وقت واحد ٹی وی چینل تھا، خبرناموں کا زیادہ وقت بھی سیلاب سے متعلقہ خبروں پر صرف ہوتا۔ دونوں دریاؤں کی بپھری ہوئی طغیانی ایک طرف سرگودھا اور خوشاب اور دوسری طرف سرگودھا اور حافظ آباد کے اضلاع میں قیامت ڈھا رہی تھی۔ عامتہ الناس اور سرکاری لوگوں کو صورتحال کی سنگینی کا بخوبی ادراک ہو رہا تھا۔

اس عمومی فضا میں سارے محکمے اپنی تحریک سے یا ہماری ترغیب اور ہلکی پھلکی تشدید سے اپنا اپنا کام سرگرمی سے شروع کر چکے تھے، ما سوائے محکمہ زراعت کے جس کا کر دار کلیدی تھا لیکن اس کا ضلعی افسر اپنے بلڈوزروں کو زمینداروں کے کھیتوں سے نکالنے پر آمادہ نہ ہو رہا تھا۔ بظاہر استدلال یہ تھا کہ ان زمینداروں کی باری بہت مشکل اور کافی انتظار کے بعد آئی تھی۔ بات معقول مگر بے موقع تھی۔ علاوہ ازیں ضلعی انتظامیہ کے پاس بلڈوزروں کے گھنٹوں کی الاٹمنٹ میں پسند نا پسند کی شکایات بھی آتی رہتی تھیں۔ اس تاخیر سے میرے اوپر وحشت سوار ہو رہی تھی کہ مجھے چند کھیت سنوارنے کے برعکس لاکھوں کھیت ڈوبتے نظر آرہے تھے۔ نتیجتاً میں نے ان کے ساتھ انتہائی سخت انتظامی زبان استعمال کی جس کا مجھے بعد میں افسوس بھی ہوتا رہا لیکن اس کے بغیر بلڈوزر مطلوبہ تعداد میں نشان زد جگہوں پر پہنچ نہیں سکتے تھے۔

اوپر کے اضلاع میں شدید نقصان کرنے کے بعد اب دونوں دریاؤں کی طغیانی ضلع جھنگ میں اپنے مقام اتصال پر حشر برپا کر رہی تھی۔ خدا کا کرم ہوا کہ دونوں طوفانی ریلے اکٹھے وہاں نہیں پہنچے لیکن ان کی تند خو موجیں حفاظتی بندوں کو توڑ کر دیہات میں دور دراز تک پھیلتی چلی جا رہی تھیں۔ اس طرح سترہ لاکھ کیوسک کے ابتدائی خدشے سے گھٹ کر اب یہاں پر طغیانی کی بلند ترین سطح بارہ لاکھ کیوسک پر آ گئی تھی۔ لیکن اب اس بارہ لاکھ کا سامنا تن تنہا ہیڈ تریموں کو کر نا تھا۔

لہٰذا اس کو بچانے کے لیے دونوں اطراف کے بند توڑ دیے گئے۔ ضلع جھنگ ایک جھیل کی شکل اختیار کر تا جا رہا تھا۔ میں ڈپٹی کمشنر جھنگ سے ہر رات رابطہ کرتا۔ اعتزاز الرشید خان ایک کہنہ مشق اور نیک نام افسر تھے۔ درپیش صورتحال میں حوصلہ مندی اور دانشمندی سے کیے گئے ان کے اقدامات سے میں اپنے لائحہ عمل میں ضروری رد و بدل کر تا۔

ضلع جھنگ میں سیلاب کی تباہ کاریاں شدید ترین تھیں۔ دریائے چناب اپنے بارہ لاکھ کیوسک کے ریلے کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا اور اپنے کناروں پر دور دور تک دیہاتی اور شہری آبادیوں کو ملیا میٹ کر تا چلا آ رہا تھا۔ سدھنائی سے دریائے راوی نے دو لاکھ سے زائد کیوسک کے ساتھ اور بہاولپور سے دریائے ستلج نے بھی اتنے ہی پانی کے ساتھ اس طوفان کو اور بڑھاوا دینا تھا۔ ہیڈ پنجند تک ان طغیانیوں کو پہنچنے میں اب صرف تین یا چار روز لگنے تھے۔

پنجاب حکومت نے اچ شریف شہر کو خالی کروا نے کا حکم دے دیا۔ سب سے پہلے تمام بینک بالخصوص نیشنل بینک کو ، جو مقامی خزانہ بھی تھا، خالی کیا جانا تھا۔ میں نے تحصیل انتظامیہ اور سارے سرکاری دفاتر کے ساتھ مل کر تفصیلی حکمت عملی ترتیب دی اور رات کو احمد پور شرقیہ میں کینال ریسٹ ہاؤس میں رک کر اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا رہا۔ میں اگلے روز انتظامی اقدامات کے اثرات کو دیکھنے کے لیے نکلا۔ راستے کے منظر نے مجھے ساکت کر دیا۔

احمد پور شرقیہ سے اچ شریف کے پچیس کلومیٹر کے سفر میں میری جیپ واحد گاڑی تھی جو اچ شریف کی طرف جا رہی تھی۔ دور دور تک کوئی گاڑی نہ مسافر، نہ آگے نہ پیچھے۔ میں نے سائیڈ والے شیشوں میں جھانکا، آگے جھک کر پچھلے شیشے میں اور پھر پیچھے پلٹ کر دیکھا۔ میں، میرا ڈرائیور اور وائرلیس آپریٹر ہی ادھر کے مسافر تھے۔ اچ شریف سے آنے والے رخ پر بیسیوں قسم کی گاڑیاں تھیں ؛ کاریں، جیپیں، ٹرک، بسیں، ویگنیں، ٹریکٹر ٹرالیاں، تانگے ریہڑے، گدھا گاڑیاں، سائیکل، موٹر سائیکل، پیدل لوگ سروں پر گٹھڑیاں اٹھائے اچ شریف کی حدوں سے ہر کوئی دور نکل رہا تھا۔

میں ہجرت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ من کی آنکھیں تقسیم ہند والی ہجرت کا منظر دیکھنے لگ گئیں جب سیدھے رستے سے یا کسی سواری پر اپنے مال اسباب کے ساتھ یا اپنے پیاروں کے ہمراہ یا پھر اپنی جان ہی کی سلامتی کے ساتھ پاکستان پہنچنا ناممکن ہو گیا تھا۔ دیر تک میرا دل اس خونچکاں ہجرت پر روتا رہا لیکن پھر پر عزم ہو گیا کہ اس عارضی ہجرت کو ہم نے ہر ممکن طریقے سے محفوظ اور کم تکلیف دہ بنانا ہے۔

سیلابی پانی ضلع بہاولپور کی حدود میں پہنچنا شروع ہو گیا۔ دریائے ستلج کے سیلاب کا رنگ مٹیالہ تھا، دریائے راوی کا سیلابی رنگ لاہور شہر اور پھر اردگرد کی صنعتوں کے فضلے کی وجہ سے سیاہی مائل تھا جبکہ دریائے چناب کا رنگ باقاعدہ سرخی مائل تھا۔ تین لاکھ کیوسک پر پانی کناروں سے چھلکنا شروع ہو گیا اور ہیڈ پنجند سے نکلنے والی دونوں نہریں ان کی تنصیبات کو بچانے کے لیے بند کر دی گئیں۔ چار لاکھ کیوسک پر پانی باقاعدہ باہر نکل آیا۔

ہیڈ پنجند کے اوپر اور نیچے کے دیہات سے انخلاء کی مہم تیز تر کر دی گئی۔ میں نے ان دیہات کو دیکھ رکھا تھا۔ کھیت تو تقریباً سارے کے سارے کچھ فرق کے ساتھ دریا کے کناروں کی سطح کے برابر ہی تھے لیکن آبادیاں اونچی جگہوں پر بنائی گئی تھیں۔ کچھ آباد یاں تو باقاعدہ ٹیلوں پر تھیں۔ ان لوگوں کا سیلابوں سے نمٹنے کا صدیوں اور نسلوں کا تجربہ تھا اور وہ اپنی آبادیاں چھوڑنے پر آسانی سے آمادہ نہ ہوتے تھے۔ چھوٹے موٹے سیلاب پر تو وہ باقاعدہ خوش ہوتے تھے کہ اس کی چھوڑی ہوئی مٹی سے ان کے کھیتوں کی زرخیزی میں اضافہ ہو گا اور ان کے کنوؤں اور ٹیوب ویلوں میں پانی کی سطح اوپر اور نزدیک آ جائے گی۔

مجھے 9 سال پہلے 1983 کا شجاع آباد ضلع ملتان کا منظر یاد آ گیا جب میں بطور اسسٹنٹ کمشنر اسی دریائے چناب کے سیلاب سے نمٹ رہا تھا۔ اس سال سیلابی پانی کے دو تین ریلے آئے تھے۔ پانی کناروں سے باہر نکلتا تو لوگ بھاگ اپنی اونچی جگہوں پر چلے جاتے۔ ایک بڑھیا جس کا کچا کمرہ دریا کے کنارے صرف دو فرلانگ دور تھا اپنی چھت پر چلی گئی اور ہماری پوری کوشش کے باوجود اپنا ٹھکانہ چھوڑنے پر راضی نہ ہوتی۔ ہم بے بسی سے ادھر تقریباً تین فرلانگ دور حفاظتی بند پر کھڑے اسے دیکھتے رہے۔

پانچ لاکھ کیوسک تک کے ریلے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تیسرے ریلے پر ، جو صرف چار لاکھ کیوسک کا تھا، اس نے دہائی دینا شروع کر دی۔ اور لوگ بھی اس کے ساتھ تھے کہ ہمیں نکالو۔ ہم نے انہیں نکال تو لیا لیکن حیران بہت تھے۔ پھر عقدہ کھلا کہ جو ہم نہیں دیکھ پا رہے تھے انہیں واضح طور پر نظر آ رہا تھا کہ دریا کے پانی کا رخ ان کی طرف ہو گیا تھا اور وہ کٹاؤ کر کے بڑھیا کے مکان کو دریا برد کر سکتا تھا۔

اس سابقہ تجربے کی روشنی میں مقامی لوگوں سے مشورہ ضروری تھا۔ انہوں نے جو اباً انتہائی پتے کی بات کی۔ کہنے لگے، ہم چوبیس گھنٹے اپنے ریڈیو کھلے رکھتے ہیں، ہمارا صرف ایک کام کر دیں۔ ریڈیو پر یہ نہ بتا یا جائے کہ انتہائی اونچے درجے یا درمیانی درجے کا سیلاب ہے۔ سیلاب کو کیوسک میں بتا یا جائے کہ کتنے لاکھ کتنے ہزار کیوسک ہے۔ ہم نے ہر لاکھ کیوسک کے علیحدہ نشان لگا رکھے ہیں اور اس کے حساب سے ہم حفاظتی تدابیر اختیار کر لیتے ہیں۔ ہاں چھ لاکھ کیوسک سے پانی زیادہ ہو گیا تو ہم خود بھی نکل آئیں گے اور آپ کی مدد کے بھی طلب گار بھی ہوں گے۔ ریڈیو نشریات کے متعلق ان کی بات اوپر تک پہنچا دی گئی۔

اگلے دو روز میں پانی پانچ لاکھ اور پھر چھ لاکھ کیوسک سے اوپر چلا گیا اور انخلاء مکمل ہو گیا۔ بچے کھچے لوگ فوجی امدادی کشتیوں پر اور لڑکے بالے اپنی گائے بھینسوں کی دمیں پکڑ کر ان کے ساتھ تیر کر باہر آ گئے اور ہزاروں لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئے۔ سینکڑوں ہمارے قائم کردہ کیمپوں میں آ گئے اور سب سے بڑی تعداد حفاظتی بند پر آ بیٹھی۔ بائیس میل کی لمبائی میں تقریباً اتنے ہی ہزار لوگ آ بسے۔ کیمپوں میں مقیم لوگوں کے لیے بہت اچھی سپلائی لائن آج کے مشہور کالم نگار راؤ منظر حیات صاحب نے بنا دی جو ضلعی انتظامیہ میں بطور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل میرے نائب تھے۔

ان کا عوامی بہبود والے شہریوں اور اداروں سے بہت موثر رابطہ تھا۔ انہوں نے تقریباً دو ہفتے کے اس کٹھن وقت میں ضروریات زندگی کی کوئی کمی نہیں ہونے دی، جس پر حکومت کی لاگت کبھی کبھی اور محض واجبی حد تک تھی۔ ہمیں علم تھا کہ سیلاب کے دوران میں ایک ستم ظریفی یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے لیکن پینے کا صاف پانی نہیں ملتا جس سے متعدد بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ ہم نے بند کے ساتھ ساتھ مناسب وقفوں پر اور کیمپوں میں سو سے زائد نلکے لگا دیے۔

دریائی علاقہ تھا۔ پینے کا صاف پانی بیس تیس فٹ کی گہرائی پر ہی دستیاب ہو گیا۔ وبائی امراض کے ٹیکے لگ گئے۔ مناسب فاصلوں پر عارضی میڈیکل کیمپ قائم ہو گئے۔ سانپ اور کتے کے کاٹنے کی دوائی پر خاص توجہ دی گئی۔ اگلے روز کمشنر بہاولپور، مشہور شاعر جناب مرتضیٰ برلاس اور ڈی آئی جی جناب رفیق حیدر، جو بعد میں پنجاب کے آئی جی بنے، اکٹھے تشریف لائے۔ برلاس صاحب ایک دبنگ افسر تھے۔ ان کا خاندان تحریک پاکستان میں شمولیت کا پس منظر رکھتا تھا اور حکومتی حلقوں میں ان کا بہت اثر رسوخ تھا۔

جناب رفیق حیدر بولتے بہت کم تھے لیکن جانتے اور سمجھتے بہت زیادہ تھے۔ میرے ان سے خاندانی مراسم استوار ہو گئے تھے۔ ہمارے انتظامات کو سراہا گیا اور ہمارا حوصلہ بڑھایا گیا۔ ڈی آئی جی صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ تمھارے سب انتظامات بہت اچھے ہیں لیکن یہ ساری آبادی جب ادھر ہی موجود ہوگی تو اگر کسی عورت کے بچہ جننے کا وقت آ گیا تب تم کیا کرو گے۔ میرا دھیان واقعی اس طرف نہیں گیا تھا۔ فوری انتظامات کر دیے گئے۔

سچ ہے سنجیدہ تجربے کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ سیلاب کے ہفتے عشرے کے دورانیہ میں ایک بچے اور ایک بچی کی پیدائش ہوئی۔ ان کے ماں باپ نے ان کے کیا نام رکھے تھے یہ تو اب یاد نہیں مگر میں اس سیلاب خاں اور سیلابی بی بی کی کامیاب پیدائش پر خدا کا بہت شکر گزار اور بر وقت نصیحت پر ڈی آئی جی صاحب کا بہت مشکور ہوا تھا۔

سیلاب زدگان کی امداد پوری تفصیل کے ساتھ روبہ عمل تھی۔ بند پر مقیم سامنے کے دیہات کے لوگ انتظامیہ کی آنکھ بچا کر گھروں کا چکر لگانے میں کامیاب ہو جاتے اور صاف کپڑے اور کچھ ضروریات کا سامان مکانوں کی اوپری منزل سے نکال لاتے۔ وہ تیرنے کے لیے ٹریکٹروں کی ٹیوبوں اور گڑ بنانے والے بڑے پھیلاؤ والے کڑاہوں کا استعمال کرتے۔ لیکن اصل سوال ان کے طعام کے انتظام کا تھا اور پھر یہاں ضلع بہاولپور میں تاریخ رقم ہو گئی۔ ایثار و اخوت کی ایسی مثال قائم ہوئی کہ اپنی قوم کے زندہ وجود اور دھڑکتی انسانیت پر اپنے آخری سانس تک کے لیے میرا بھروسا قائم ہو گیا۔

چوہدری نجم الدین ایڈووکیٹ حکمران جماعت مسلم لیگ کے ضلعی جنرل سیکرٹری تھے۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر اور انتہائی مخلص اور سرگرم سیاسی کارکن تھے۔ درویش صفت وزیر اعلیٰ جناب غلام حیدر وائیں نے انہیں ضلعی احتساب بورڈ کا سیکرٹری بھی بنا رکھا تھا۔ چوہدری صاحب نے شادی نہیں کی تھی۔ ان کی زندہ تمنا بس پاکستان تھا جو ان کے قلب و روح کو گرماتا اور تڑپاتا رہتا اور انہیں پوری شخصیت کے ساتھ پورے وقت کے لیے سرگرم رکھتا تھا۔

میرا ان سے تعلق خاطر تھا۔ ان کی سربراہی میں تحصیل یزمان کے لوگوں نے کمال کر دیا۔ دریائی علاقے سے ساٹھ ستر کلومیٹر دور یزمان کے چکوک نے بیس پچیس ہزار کے اس انبوہ کے لیے، جو تیس پینتیس کلومیٹر دور تک پھیلا ہوا تھا، دو وقت کھانے کا انتظام اپنے ذمے لے لیا۔ ہر روز صبح نو دس بجے اور پھر شام چھ سات بجے بانٹی گئی باری کے مطابق یزمان کے دو دو دیہات اپنے ٹریکٹر ٹرالیوں پر پچاس ہزار روٹیاں، اچار، گڑ، میٹھے چاول اور کبھی کبھار خشک سالن لے کر بند پر پہنچتے اور اپنے ہاتھوں سے لنگر بانٹ کر شاداں و فرحاں واپس لوٹ جاتے۔ انتظامیہ کا عمل دخل صرف یہ تھا کہ ہم چھینا جھپٹی نہ ہونے دیں اور ان کی آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ من و سلویٰ کی یہ رسد آفت زدہ لوگوں کی گھروں کو واپسی تک پورے بارہ روز جاری رہی۔ عظمت و ایثار کی اس منظم مثال کے آگے میرے الفاظ گنگ رہیں گے۔

پانی اب سات لاکھ کیوسک فی سیکنڈ کے حساب سے پہنچنا شروع ہو گیا تھا۔ اوپر ملتان شہر کو اور دریا پر ریل اور سڑک کے پلوں کو بچانے کے لیے دائیں کنارے پر مظفر گڑھ ضلع کے بند کو کئی جگہ سے توڑ دیا گیا تھا۔ پانی مظفر گڑھ شہر میں داخل ہو گیا تھا اور وہاں کا ڈی سی ہاؤس بھی ڈوب گیا تھا۔ بہاولپور کے چیف انجینئر میاں حفیظ اللہ صاحب ہیڈ پنجند پر مقیم ہو کر چیف انجینئر ملتان سے مسلسل رابطے میں تھے۔ میاں صاحب مرحوم مرنجاں مرنج اور اپنے شعبے سے شغف رکھنے والے شخص تھے۔

تین چار دن پہلے کورکمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل جہانگیر کرامت، جو ایک دل آویز شخصیت رکھتے تھے، ہیڈ پنجند کا دورہ کر کے سب سے بریفنگ لے چکے تھے۔ ہیڈ پنجند کی حفاظت اور امدادی کاموں پر مامور فوجی یونٹ پوری طرح فعال تھا۔ دریا پر بنے سڑک کے پل کے اوپر سے میں نے گزرتے پانیوں پر جھانکا۔ ہیڈ کے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے تھے اور سیلابی پانی بہت تیز رفتاری کے ساتھ مہیب آوازیں پیدا کر تا گزر رہا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ فرش کی زور دار رگڑائی ہو رہی ہے اور دیواروں کو غصیلی ٹکریں ماری جا رہی ہیں۔

اس پل کے متوازی دریا کی آمد کی جانب بیس پچیس فٹ اونچا لکڑی کے تختوں والا دو طرفہ ریلنگ والا دو منزلہ آہنی پل بنا ہوا تھا۔ اس کے اوپر آہنی رسوں والی چرخیاں وقفے وقفے سے نصب تھیں جن سے ہیڈ کے دروازے، جنھیں ویئر کہتے ہیں، کھولے اور بند کیے جاتے تھے۔ میں ہمت کر کے اوپر کے تختے پر جا چڑھا اور دور تک چلتا گیا۔ ہر طرف پانی تھا۔ سہ پہر کے سورج کی روشنی میں اس بلندی سے دور دور تک منظر صاف نظر آ رہا تھا۔ میلوں دور سے آتا دریا اپنے پاٹ میں بھی میلوں تک پھیل گیا تھا اور حفاظتی بندوں سے ٹکرا رہا تھا۔

دریا کے اپنے کناروں کا کوئی اتا پتہ نہ تھا۔ اس وسیع بہاؤ کے کہیں درمیان میں ایک دھارا اپنی تندی اور اٹھان کی وجہ سے منجدھار کا پتہ دیتا تھا۔ ہیڈ پنجند کے قریب آتے ہوئے یہ منجدھار اور بھی اونچی اور تند ہوجاتی تھی۔ پانی کا رنگ سرخی مائل ہو رہا تھا۔ لگتا تھا دریا کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے اور پوری طاقت سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ منظر پر شکوہ مگر ہیبت ناک تھا۔ رومانی داستانوں کے محبوب دریا چن آب کے تیور قطعاً اچھے نہ تھے۔ میں نے سہم کر الٹی سمت دیکھا۔ ہیڈ سے تیز رفتاری سے گزرنے کے بعد کچھ آگے جاکر دریا وسیع اور فراخ ہو تا دکھائی دے رہا تھا اور کچھ اور دور جا کر نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا۔ اس سے طبیعت میں کچھ سکون ہوا اور میں اپنے حفاظتی بند کی تازہ خبر کے لیے روانہ ہو گیا۔

حفاظتی بند کی نگرانی کا بہت موثر نظام قائم کیا گیا تھا۔ اس کی اولین ذمے داری تو محکمہ انہار کی تھی لیکن اس میں کلیدی کر دار ضلع پولیس کے سربراہ ایس ایس پی جناب شاہد اقبال نے ادا کیا۔ شاہد اقبال ساتویں کامن میں میرے بیچ میٹ تھے۔ اس سال وہ کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ میں آئے تھے۔ تعلیمی پس منظر فلسفہ میں ایم اے کا تھا۔ لیکن عادات و اطوار خالص دیہاتی جٹ کے تھے۔ حلیہ بھی کچھ ایسا ہی بنا رکھا تھا۔ یار لوگ چھیڑ سے انہیں پروفیسر کہتے تھے۔

سول سروسز اکیڈمی میں دوران تربیت بہت سے کھیلوں اور دوسرے مشاغل میں وہ میرے پارٹنر بنتے۔ جیت ہار تو ہوتی رہتی لیکن ان کی موجودگی سے ماحول خوب دھماکہ خیز رہتا۔ اگلے سال وہ اپنی افتاد طبع سے مطابقت والے محکمہ پولیس میں منتخب ہو گئے۔ میرا ان سے گہرا دوستانہ تھا۔ ایک دو ماہ قبل جب بہاولپور کے ایس ایس پی کا تبادلہ ہوا تو وہ مظفر گڑھ ضلع میں پولیس کپتان کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ میں نے ان سے بہاولپور آ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے رضامندی ظاہر کر دی۔

مرحوم چوہدری سردار صاحب اس وقت پنجاب کے آئی جی پولیس تھے۔ معاشرے کے نشیب سے اٹھ کر انہوں نے زندگی میں اپنی قوت ارادی اور قوت عمل سے یہ مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا۔ وہ تعصبات اور الجھنوں سے پاک ایک دلنشیں اور ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ بہاولپور آنے سے پیشتر میں بطور ڈپٹی سیکرٹری پولیس محکمہ داخلہ پنجاب میں پورے دو سال تعینات رہا تھا۔ اس ونگ میں ایڈیشنل سیکرٹری کی پوسٹ نہیں تھی اس لیے جناب ہوم سیکرٹری اور محکمہ داخلہ کی طرف سے محکمہ پولیس کے ساتھ تمام امور کی انجام دہی میں میرا بہت اہم حصہ ہوتا تھا۔ اس حوالے سے اور ان کی مربیانہ شخصیت کی وجہ سے میرا چوہدری سردار صاحب سے گہرا رابطہ رہا تھا۔ نیاز مندی اب تک قائم تھی۔ میں نے ان سے فرمائش کر ڈالی۔ دو تین روز میں شاہد اقبال صاحب کچھ خوش کچھ حیران بہاولپور پہنچ گئے۔

حفاظتی بند کے پر خطر حصہ کی لمبائی تقریباً بیس میل تھی۔ ہم دونوں نے مل کر انتظامیہ، پولیس اور دیگر محکموں سے چالیس جیپیں اکٹھی کیں اور بیس بیس گاڑیوں کے قافلے کچھ وقفے سے دونوں طرف سے چلا دیے، کچھ اس طرح کہ بند کے ہر ٹکڑے اور جگہ پر ہر ایک منٹ کے بعد ایک گاڑی کا گزر ہوتا۔ اس گاڑی میں پولیس کے جوان نکروں اور بنیانوں میں کدالوں، بیلچوں ؛ سیمنٹ، ریت، بجری وغیرہ کے ساتھ موجود ہوتے۔ رات کے اندھیرے کے لیے سرچ لائٹوں کا انتظام کیا گیا؛ کچھ مارکیٹ سے اور کچھ ضلع بھر کے شکاریوں سے حاصل کر کے ہر جیپ کے اوپر لگادی گئیں۔

اس طرح بند کا چپہ چپہ ایک ایک منٹ کے بعد روشن ہو کر صاف دکھائی دے جاتا۔ بند ویسے تو بہت مضبوط تھا لیکن چوہوں اور دوسرے حشرات الارض کے کیے سوراخوں سے پانی رس کر دوسری طرف نکل سکتا تھا جس سے شدید مسائل جنم لے سکتے تھے۔ مختلف وقتوں میں ان قافلوں کی سربراہی ہم خود کرتے۔ جناب شاہد اقبال گاڑی چلاتے اور میں ان کے ساتھ بیٹھ کر وائر لیس پر جملہ امور نمٹاتا رہتا۔ ڈی سی اور ایس ایس پی کی اس یگانگت کی وجہ سے نہ تو اس پورے علاقے میں اس پورے عرصہ میں چوری کی کوئی واردات ہوئی اور نہ ہی کوئی اہلکار اپنی ڈیوٹی سے غافل ہوا۔

جناب شاہد اقبال ریٹائرمنٹ کے بعد اب اپنا زیادہ وقت امریکہ میں بچوں کے پاس گزارتے ہیں۔ سال دو سال میں ان سے ملاقات ہوجاتی ہے تو انتہائی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ دور ہی سے اٹھلا کر باقاعدہ سلیوٹ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں، سر آپ کا ڈرائیور حاضر ہے۔ میں بھی اسی تپاک سے اس دوستانہ سلیوٹ کا جواب دیتا ہوں اور اپنے دوست کے اٹھے ہوئے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر سینے سے لگا لیتا ہوں۔

بند کی سخت حفاظتی نگرانی جاری تھی۔ ان پچھلے کئی دنوں میں گاڑیوں کی مسلسل آمدورفت سے اور پانی کے چھڑکاؤ سے بند مضبوط تر ہو تا جا رہا تھا۔ دوسری طرف سے بلڈوزر بھی اپنا کام کر رہے تھے۔ جہاں ذرا سا بھی شک ہوتا فوری مرمتی کام کر دیا جاتا۔ بروقت اطلاع کا انتظام گاڑیوں میں وائر لیس کی شکل میں موجود تھا۔ لیکن آج دو پہر سے دریا کے تیور کچھ اور ہی تھے۔ اس سے پہلے پانی بند کے قریب اونچا اور گہرا تو ہوتا جاتا لیکن لہروں کا بہاؤ دور رہتا اور بند کے قریب کا پانی ساکت سا ہوتا۔

لیکن اب سیلابی لہریں بند کو چھوتی ہوئی چل رہی تھیں۔ حفاظتی بند اب دریا کے کنارے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ لوگ بھاگ سب دہل کر بند کی دوسری طرف چلے گئے تھے۔ لہریں تیز اور اونچی ہوتی جا رہی تھیں، اس کے ساتھ ہماری سانسیں بھی۔ خطرے کا وقت آ گیا تھا اور فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ واپس ہیڈ پنجند پہنچے۔ تین اطراف میں لگی گیج پر خطرے کے نشانات اب ڈوب رہے تھے۔ پانی سر سے اوپر ہوا چاہتا تھا۔ چیف انجینئر ملتان سے بات کی گئی۔

ملتان شہر کے بالمقابل دائیں کنارے کے بند میں جگہ جگہ شگافوں کے باوجود ملتان ضلع کی آخری حدود میں پانی کا دباؤ ابھی کم نہ ہوا تھا۔ ہر طرح کی جمع تفریق اور تفصیلی سوچ بچار کے بعد چیف انجینئر، ایس ایس پی اور فوجی یونٹ کے کرنل کمانڈر کے مشورے سے میں نے فیصلہ کر لیا کہ مزید تاخیر تباہ کن ہو گی اور اب مقررہ جگہ سے دائیں پشتے کو توڑنا لازم ہو گیا تھا۔ 1973 کے سیلاب میں اس طرف کے بڑے زمینداروں نے اپنے مکانات اور فصلیں بچانے کے لیے ہنگامی نکاس کی طے شدہ سکیم روبہ عمل نہ ہونے دی تھی۔

اگرچہ اب اس قسم کا سیاسی دباؤ نہ تھا تاہم مقامی لوگوں کی ممکنہ مزاحمت سے بچنے کی خاطر فجر کی اذان سے ذرا پہلے کا وقت اس کام کے لیے طے کر دیا گیا۔ طے شدہ وقت پر بریچنگ سیکشن میں پہلے سے بھرے ہوئے بارود کو فوجی جوانوں نے چلا دیا اور پشتے کو بھک سے اڑا دیا۔ بند میں ایک طویل و عریض شگاف پڑ گیا اور سیلابی پانی کا ایک بڑا ریلا ادھر سے نکلتا ہوا شگاف کو مزید وسیع کرتا ہوا ارد گرد کے علاقے میں پھیلتا چلا گیا۔ اس اخراج کے راستے کی واحد رکاوٹ، پنجند علی پور روڈ، کو دو تین جگہوں سے کاٹ دیا گیا تاکہ مطلوبہ رفتار و مقدار حاصل کر کے ہیڈ کو نقصان سے محفوظ کر لیا جائے۔

ہم اپنے ترکش کا آخری تیر چلا چکے تھے۔ دائیں کنارے کے بند کو توڑا جا چکا تھا لیکن سیلاب کی صورتحال میں بہتری نہ آ رہی تھی بلکہ بند کے ساتھ پانی کی سطح غیر محسوس آہستگی کے ساتھ اب بھی بڑھ رہی تھی۔ پورا دن بند کے اوپر گہری تشویش کے ساتھ گشت کرتے گزرا۔ شام کے قریب میں نے بند کے اس مقام کو ، جہاں سے 1973 میں شگاف پڑ گئے تھے، نیچے اتر کر دوسری طرف سے بغور دیکھا۔ بیس پچیس فٹ بلند یہ ٹکڑا دریا کے قدیمی بہاؤ کے رخ پر تھا۔

اب اسے نیم دائرے کی شکل میں بڑھا کر بہت مضبوط کر دیا گیا تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے بھی پتھروں کی بھرائی جاری تھی۔ یہ ابھی تک سیلاب کی سختیاں کامیابی سے جھیل رہا تھا لیکن اگر دریا اپنے سیلابی تموج میں پہلو بدل لیتا تو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا۔ موجودہ صورتحال میں دریا اب بند کے اندر کی طرف ساتھ لگ کر بہہ رہا تھا لیکن اگر کٹاؤ کا عمل شروع ہو جاتا تولا محدود مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں۔ شام کے بڑھتے سناٹے میں بند کے دوسری طرف بہنے والے بگڑے ہوئے دریا کا شور میں نے سنا اور لرز کر رہ گیا۔

میرا جسم پسینے میں بھیگ گیا۔ میرے ذہن میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ضلع جھنگ کے ڈپٹی کمشنر کے الفاظ گونجے کہ جو کچھ کر رہا ہے دریا کر رہا ہے، ہم تو بس ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ واضح ہونے لگا کہ اب اس سے آگے بے بسی کی عمل داری ہے۔ رات کو ہیڈ پنجند لوٹا تو اطلاع ملی کہ ضلع بہاولپور کے دو دیہات جو دریا کے دائیں کنارے پر ہیڈ پنجند سے کچھ کلومیٹر نیچے مظفرگڑھ ضلع کی حدود کی طرف واقع ہیں چاروں طرف سے پانی کے گھیرے میں آ گئے تھے۔

دریا کا سیلابی پانی تو پہلے ہی ایک طرف سے وہاں پہنچ رہا تھا۔ لیکن آج علی الصبح کھولے گئے ہنگامی راستے سے نکلنے والے ریلے نے وہاں پہنچ کر دو دھاروں میں بٹ کر انہیں باقی تین اطراف سے بھی زد میں لے لیا تھا۔ لوگوں نے قریبی ٹیلوں پر پناہ لے رکھی تھی اور چاروں طرف بہتے پانی کے شور اور ان پانیوں میں سے نکلنے والے حشرات الارض کے خوف کی وجہ سے ہر فرد سہما ہوا جاگ رہا تھا۔ کچھ افراد تو بیمار بھی تھے۔ آٹھ لاکھ کیوسک کے اس سیل بلا خیز اور رات کے گہرے اندھیرے میں کسی بھی امدادی ٹیم کا وہاں پہنچنا ناممکن تھا لیکن ان سینکڑوں شہریوں کو اس ہیبت زدہ ماحول کے نفسیاتی دباؤ سے آزاد کر انا انتہائی ضروری تھا۔

رابطے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ موبائل فون ہوتے نہیں تھے۔ لینڈ لائن اور وائر لیس کا بھی اس وقت کوئی سوال نہیں تھا۔ مجھے یاد آیا کہ دریائی لوگ آج کل اپنے ریڈیو چوبیس گھنٹے کھلے رکھتے ہیں۔ میں نے کسی سے پوچھے بغیر کینال ریسٹ ہاؤس ہیڈ پنجند سے 100 کلومیٹر دور ریڈیو اسٹیشن بہاولپور فون ملا دیا اور رات گیارہ بجے مصیبت میں گھرے اپنے ان لوگوں سے مخاطب ہوا۔ ڈپٹی کمشنر بہاولپور کی مضبوط اور پر اعتماد آواز رات کی تاریکیوں اور فضا کی اداسیوں کو چیرتی ہوئی اپنے لوگوں تک جا پہنچی: ”میں ڈپٹی کمشنر بہاولپور جاوید اقبال اعوان پانی میں چاروں طرف سے گھر جانے والے موضع شاکرانی اور موضع جاگیر صادق آباد کے اپنے بھائیوں، بہنوں اور بزرگوں سے مخاطب ہوں۔

آپ کی موجودہ صورتحال سے ہم بے خبر نہیں اور اس مشکل گھڑی میں آپ کے ساتھ ہیں۔ امدادی سامان، ادویات اور ٹیمیں تیار ہیں۔ انہیں اندھیرا ختم ہوتے ہی تڑکے کے وقت روانہ کر دیا جائے گا۔ آپ نے صرف اگلے پانچ چھ گھنٹے حوصلے اور ہمت سے گزارنے ہیں، باقی کام ہمارا ہے۔“ ۔ میں نے اس پیغام کی سنسناہٹ اپنے پورے وجود میں محسوس کی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ میرے ان الفاظ کا ان سب پر جادوئی اثر ہوا تھا اور ہمت اور ڈھارس بندھ جانے پر انہوں نے اس خوفناک رات کا باقی حصہ اطمینان سے گزار لیا تھا اور ہنسی خوشی امدادی ٹیموں کا استقبال کیا تھا جو فوجی کشتیوں پر صبح سویرے ان تک پہنچ گئیں۔ اس نشری پیغام کو ضلع کے سبھی حصوں میں گہرے غور اور قدرے بے یقینی سے سنا گیا اور دلوں کے دریچے میرے لیے وا ہوتے چلے گئے۔

پانی میں گھرے لوگوں کا نفسیاتی دباؤ تو کم ہو گیا تھا لیکن مجھ پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ ان لوگوں کا ماجرا ایک محدود شروعات تھی۔ ذمہ داری کی پیٹھ پر یہ آخری تنکا تھا۔ سیلاب کی سطح جوں کی توں تھی اور تندی میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی۔ یہ ٹھیک تھا کہ ہیڈ تریموں پر پہنچنے والے بارہ لاکھ کیوسک کا ریلہ اس مقام سے گزرنے کے بعد نو لاکھ کیوسک رہ گیا تھا۔ باقی پہلے ہی ادھر ادھر پھیلا دیا گیا تھا لیکن آگے چل کر دریائے راوی اور دریائے ستلج کے دو دو لاکھ کے ریلے دریائے چناب میں آ ملے تھے۔ کتنا پانی راستے میں بندوں کے ٹوٹنے سے باہر نکل گیا اور کتنا ہم نے ہنگامی راستے سے نکال دیا تھا، قطعیت سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔

اوپر ضلع ملتان کی حدود میں پانی کی سطح بدستور ویسی ہی تھی۔ ہمارے پاس پہنچنے والے پانی میں اگر اور اچھال آ گیا تو بائیں کنارے کا بند اور خود ہیڈ پنجند کہیں جواب نہ دے جائیں۔ اس طرح کے ناگہانی بگاڑ کا مقابلہ کرنا اب کسی کے بس میں نہ تھا۔ ایسی صورت میں غیر معمولی نقصان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اسی علاقے میں اگلے کئی دن محصور رہنا تھا۔ خدشات سے پورا جسم شرابور اور تفکر سے پیشانی تر ہو رہی تھی۔ فکر مندی سے لبریز اور بے بسی سے اٹی اپنی تر پیشانی میں نے زمین پر رکھ دی۔

کچھ سکون ملا تو سونے کی کوشش کی۔ عجیب اکھڑی اکھڑی سی نیند آئی۔ کروٹ بدلنے کے ساتھ ہی سیلابی پانی اپنے حملے کا رخ بھی بدل دیتا۔ فجر کی اذان پر میں نے بستر چھوڑ دیا۔ آج کا دن اہم اور نازک ترین تھا۔ نماز کے بعد میں نے کتاب مجید میں سے کامیابی والی سورۃ کی تلاوت کی اور اسی ادھیڑ بن میں دوبارہ بستر میں آ گیا۔ کچھ دیر کے لیے پھر آنکھ لگ گئی تو ایک ایسا منظر دیکھا جو ساری عمر کے لیے میرے دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔

میں حفاظتی بند کے نازک ترین قوس نما حصے پر کھڑا ہوں میرا رخ دریا کے بہاؤ کے ساتھ ہیڈ پنجند کی طرف ہے۔ دفعتا دریا کے گہرے سیلابی پانیوں میں سے چار بڑی مچھلیاں اکٹھی فضا میں بلند ہو کر بند سے باہر کی طرف نکلتی ہیں۔ پانی ان کے بلند ہوتے ہوئے جسموں سے ٹپک رہا ہے۔ میں حیرت اور خوف سے ان کو تک رہا ہوں کہ اسی رواں حرکت کے دوران اچانک اپنے جسموں کو کمر کی طرف دھرا کرتے ہوئے وہ چاروں بالکل اکٹھی فضائی کر تب کے انداز میں الٹی چھلانگ لگا کر واپس دریا میں آ گرتی ہیں۔

میں اٹھ بیٹھتا ہوں۔ میرا دل زور زور سے دھڑک کر گواہی دے رہا تھا کہ خواب سچا ہے۔ میرا قلب مجھے سمجھا دیتا ہے کہ یہ چار بڑی مچھلیاں چار لاکھ کیوسک پانی تھا جو اسی جگہ سے پار ہونا تھا۔ لیکن اس الٹی زقند کے طفیل اب دریا کے اندر ہی رہے گا۔ کسی کو دور بہت بہت ہی دور یا پھر قریب بہت ہی قریب میری بے بسی پر ترس آ گیا تھا۔

پورا دن خواب کی مثبت تعبیر کے انتظار میں گزر گیا تا ہم اگلے دن پانی کی سطح پہلے یکساں اور پھر کم ہونا شروع ہو گئی۔ دوپہر کے قریب بند کے نقطہ آغاز سے آنے والی ڈیوٹی مجسٹریٹ کی پہلی نوید پر ہم ادھر بھاگ کھڑے ہوئے۔ بند کے گیلے حصے نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے اور بہاؤ دھیرے دھیرے پیچھے ہٹ رہا تھا۔ ہیڈ پنجند پر آ کر قریب سے دیکھا، خطرے کے نشان اب تھوڑا تھوڑا کر کے دوبارہ پانی سے باہر نکل رہے تھے۔ نصف شب تک صورتحال میں خاطر خواہ بہتری آ گئی۔ ہم ساڑھے آٹھ لاکھ کیوسک سے زائد پانی کے سیلاب عظیم کو کسی بڑے نقصان کے بغیر کامیابی سے گزار چکے تھے۔ اس عرصہ میں ہونے والی دونوں اموات چوری چھپے گھروں سے کچھ سامان نکال لانے کی کوشش کے دوران ہوئی تھیں ؛ ایک کو سانپ نے ڈس لیا تھا اور دوسرے کے اوپر دیوار آ گری تھی۔

اترتے پانی کے چھوٹے موٹے مسائل سے میری تحصیل انتظامیہ اور ان کی امدادی ضلعی مجسٹریٹوں کی ٹیم بخوبی نمٹ سکتی تھی۔ میں نے واپسی کا قصد کر لیا۔ راستے میں سے دوردراز پہاڑی مقام فورٹ منرو پر قائم شہباز پولیس وائر لیس کنٹرول روم سے بات کی جو جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژنوں کے مابین رات دس بجے کے بعد رابطے کے فرائض انجام دیتا تھا اور جس نے ان مشکل راتوں میں میرا بخوبی اور بخوشی ساتھ دیا تھا۔ میں نے اس کی فرض شناسی کی تحسین کی اور شکریہ و الوداع کہا۔ اس نے بھی جواب میں کچھ ایسے ہی کلمات کہے۔ وہ بھی خوش، میں بھی خوش۔ مجھے اب واپس گھر پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ اپنے گھر والوں کو جو ان تمام دنوں میں میری فکر میں گھلتے رہے تھے بالمشافہ تشفی دوں۔ اگلے روز مجھے ضلع بھر کی سماجی اور سرکاری شخصیات کا شکریہ بھی تو ادا کر نا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments