پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ اور تحریک انصاف کے حقوق سندھ مارچ سے کس کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت عوامی مارچ اس وقت جنوبی پنجاب میں موجود ہے جبکہ اس کے مد مقابل حکمران جماعت تحریک انصاف کا مارچ گھوٹکی سے ہوتا ہوا زیریں سندھ پہنچ چکا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں کی مقبولیت کا اصل امتحان ابھی ہونا باقی ہے۔ دونوں جماعتوں کا اصل امتحان اس وقت شروع ہو گا جب بلاول بھٹو کا مارچ جی ٹی روڈ پر اور تحریک انصاف کا مارچ کراچی میں داخل ہو گا جہاں سے اس جماعت نے گذشتہ انتخابات میں برتری حاصل کی تھی۔

ہائبرڈ نظام کے خلاف جدوجہد

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت 27 فروری کو کراچی سے حکومت مخالف عوامی مارچ کا آغاز کیا گیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے جب سے پارٹی قیادت سنبھالی ہے یہ ان کی پہلی سیاسی مہم ہے۔ اس سے قبل وہ جلسے جلوسوں سے خطاب کرتے رہے ہیں لیکن ملکی سطح پر ان کا یہ پہلا مارچ ہے جس میں ان کے ساتھ ان کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو زرداری بھی شریک ہیں۔

فیاض نائچ سینئر تجزیہ نگار اور ایک نجی سندھی نیوز چینل دھرتی ٹی وی کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے جس میں فیلڈ مارشل ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کی گئی۔ موجودہ قیادت کے حصے میں ایسی کوئی جدوجہد نہیں تھی یہ مارچ ماضی کی اس جدوجہد کا تسلسل ہے۔

’اس عوامی لانگ مارچ کا جو 38 نکاتی چارٹر ہے اس میں ’ہائبرڈ‘ نظام حکومت کی مخالفت کی گئی ہے اور اداروں کو ان کے اصل آئینی کردار تک محدود رکھنے اور پارلیمانی جمہوریت کی بات کی گئی ہے۔ اس مارچ سے سندھ میں کافی سیاسی تحرک پیدا ہوا ہے اور بلاول کو مثبت ردِ عمل ملا ہے۔‘

سندھ کا انتخاب کیوں؟

پاکستان پیپلز پارٹی ماضی میں پنجاب میں مارچ اور جدوجہد کی تاریخ رکھتی ہے لیکن اس بار احتجاجی مارچ کی ابتدا سندھ سے کی گئی ہے جہاں ان کی اپنی صوبائی حکومت موجود ہے۔

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے ’پاکستان پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ پنجاب میں ان کی سیاسی مقبولیت کی صورتحال اچھی نہیں، جنوبی پنجاب میں یقیناً ان کا تھوڑا بہت اثر و رسوخ ہے، سندھ سے بہت سارے لوگوں کو پنجاب لانا ان کی حکمت عملی کے ساتھ عوامی سطح پر تحرک پیدا کرنا بھی مقصد تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی نے مستقبل قریب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بڑی سیاسی سرگرمی کو جنم دیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے برعکس اگر پیپلز پارٹی پنجاب سے مارچ شروع کرتی تو اس کے پاس سیاسی کارکنوں کا فقدان رہتا، بلاول نے سندھ میں تو تحریک پیدا کی ہے اب اصل امتحان یہ ہے کہ جب وہ لاہور پہنچیں گے تو وہاں کتنا بڑا مجمع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔‘

صحافی اور تجزیہ کار مبشر زیدی بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کے سیاسی اثر و رسوخ سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا لاہور میں ووٹ بینک ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ وہ ووٹ بینک ختم ہوتا گیا۔ یہ مارچ اسی ووٹ کو متحرک کرنے کی کوشش ہے۔‘

زیبسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض شیخ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا اثر و رسوخ کم ہونے کی وجہ سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات بتاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’ان انتخابات نے ایک نئے سیاسی طبقے کو جنم دیا، ان انتخابات میں پنجاب کی ایک نئی قیادت ابھری اور وہ جگہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے حاصل کرنا ممکن نہیں رہا، خود بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ ہماری بڑی غلطی تھی کہ ہم نے یہ گنجائش چھوڑی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے ہاں سرپرستی کی سیاست کی روایت ہے، ریاست یا حکومتی اثر و رسوخ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا ماضی میں عمران خان خیبر پختونخوا میں استعمال کرتے رہے ہیں جہاں ان کی صوبائی حکومت تھی۔‘

تحریک انصاف کا جوابی مارچ

پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کے اعلان کے بعد تحریک انصاف نے حقوق سندھ مارچ کا اعلان کیا، جس کا آغاز گھوٹکی سے کیا گیا۔ اس مارچ کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر علی زیدی کر رہے ہیں۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انھوں نے اگر کچھ نہیں کیا تو ساری میڈیا کوریج ایک ہی سرگرمی پر رہے گی۔ ظاہر ہے کہ ایک سیاسی سرگرمی ہو رہی ہے اور بلاول بھٹو اس کی قیادت کر رہے ہیں تو اس کو کوریج ملے گی، غالبا یہ جوابی حکمت عملی تھی جس کا فوکس یہ تھا کہ سکرین پر ہم بھی نظر آئیں جہاں ان کے مارچ کا ذکر ہو ہمارا مارچ بھی نظر آئے۔

مبشر زیدی کہتے ہیں کہ سندھ میں تحریک انصاف نے ایک بار پھر شاہ محمود قریشی پر انحصار کیا ہے جن کا سیاسی اثر و رسوخ نہیں کیونکہ سندھ میں جو ان کے پیروکار ہیں وہ پیر صاحب کے در پر حاضری دے سکتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دے سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گھوٹکی سے مارچ شروع کرنا بھی ان کی غلطی تھی کیونکہ اگر تحریک انصاف کا ماضی دیکھیں تو اس نے سندھ پر توجہ نہیں دی اور نتیجے میں وہ جڑیں نہیں پکڑ سکی ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر ریاض شیخ بھی مبشر زیدی کے مؤقف سے متفق نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو 2018 کے الیکشن میں کتنے ووٹ ملے اور کن علاقوں سے ملے یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں دیہی نہیں شہری علاقوں اور نوجوانوں کی حمایت رہی اور اس میں کراچی سے زیادہ ووٹ ملے تاہم وہ ایم کیو ایم کے خلا کا بھرپور فائدہ نہیں لے سکے حالانکہ انھیں بعض نشستوں پر حمایت بھی حاصل رہی۔‘

یہ بھی پڑھیے

اُلٹی گنتی کس کے لیے؟ عاصمہ شیرازی کا کالم

5 جنوری سے لاہور سے حکومت کے خاتمے کی کہانی شروع ہوگی: بلاول بھٹو

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور پارلیمان میں تیسری قوت کا کردار

کراچی اور تحریک انصاف

تحریک انصاف کے کراچی سے قومی اسمبلی میں 13 اور صوبائی اسمبلی میں 30 اراکین موجود ہیں، تحریک انصاف کا مارچ بدین پہنچے گا جو ان کی اتحادی جماعت کی وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کا حلقہ ہے۔

وہاں سے سجاول اور ٹھٹہ سے ہوتا ہوا آٹھ مارچ کو کراچی میں داخل ہو گا، اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی کا مارچ اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہو گا جس سے بلاول بھٹو خطاب کریں گے جبکہ کراچی میں غالب امکان ہے کہ تحریک انصاف کے مارچ سے وزیر اعظم عمران خان خطاب کریں۔

مبشر زیدی کہتے ہیں کہ کراچی میں گذشتہ انتخابات میں جس طرح تحریک انصاف قومی اور صوبائی نشستیں جیتی تھی، اس سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ پڑھی لکھی قیادت میسر ہو گی جو شہر کے مسائل حل کرے گی، لیکن یہ ایم این ایز اسلام آباد جا کر بیٹھ گئے اور بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرتے وہ پہلی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے کا لطف لینے لگے۔ انھوں نے کراچی کو بہت کم وقت اور توجہ دی۔

سندھ میں تحریک انصاف کی قیادت میں اختلافات بھی سامنے آ چکے ہیں اور نوبت استعفوں تک پہنچ گئی، مظہر عباس بتاتے ہیں کہ عمران خان نے جب پورے ملک میں تنظیموں کو تحلیل کیا تو سندھ میں جو تنظیم سازی ہوئی اس میں سندھ میں بڑے اختلافات کھل کر سامنے آئے۔

’حقوق سندھ ریلی میں حلیم عادل شیخ زیادہ سرگرم نظر نہیں آئیں گے، علی زیدی نے جس تنظیم سازی کا اعلان کیا ہے ان میں سے جو مرکزی عہدیدار تھے بشمول حلیم عادل شیخ انھوں نے تو استعفیٰ دے دیا تنظیمی طور پر کافی دھڑے بندی کا سامنا ہے۔‘

جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی اکیلے مارچ کر رہی ہے اسی طرح تحریک انصاف کو بھی اتحادی جماعتوں کی افرادی قوت دستیاب نہیں، مظہر عباس کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کے لیے بڑا امتحان ہو گا جب وہ مارچ لے کر کراچی میں داخل ہوں گے تو کیا اتنا بڑا مجمع ہوگا کہ اس روز اسلام آباد میں موجود بلاول کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ڈاکٹر ریاض شیخ لندن میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی بریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مقامی طور پر سیاسی توانائی آئی ہے مگر ایم کیو ایم پاکستان کا دھڑا ورک فورس فراہم نہیں کرے گا۔

عوامی مارچ اور حقوق سندھ مارچ سے کس کو کیا حاصل ہوگا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کے قدم جیسے جیسے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر رابطہ کاری اور دعوؤں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تو 48 گھنٹوں کو اہم قرار دے چکے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار منظور شیخ کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کو موافق آتی ہے، اگر بازی تبدیل ہوتی ہے اور عمران کی روانگی ہوتی ہے تو اس کی حکمت عملی ہے کہ سندھ تو ہاتھ میں ہی ہے پنجاب میں سے بھی کچھ حاصل کیا جائے اور جو الیکٹیبل ہیں ان کا ساتھ حاصل کیا جائے۔‘

ڈاکٹر ریاض شیخ کا کہنا ہے کہ دو طرح کے اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ ایک تو مارچ ختم ہو جائے تو اس کا کم اثر ہو گا یعنی تحرک کی حد تک لیکن اگر یہ مارچ کسی بڑی تبدیلی کا حصہ بنتا ہے اپوزیشن جس مشترکہ مارچ کی بات کر رہی ہے اور نتیجے میں کوئی سیاسی تبدیلی آتی ہے تو یہ اس کا بڑا کردار بنے گا کیونکہ جس وقت فائدے کا وقت ہو تو کشتی میں کئی سوار ہو جاتے ہیں۔‘

پی ٹی آئی

ڈاکٹر ریاض کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف سندھ میں کوئی بڑی سیاسی سرگرمی پیدا نہیں کر سکی ہے، جس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ ہو وہاں تین چار سو کا مجمع لگانا بڑی بات نہیں ہے۔

تجزیہ نگار منظور شیخ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں جو سندھی بولنے والے تھے وہ پارٹی چھوڑ گئے یا قیادت سے تنگ ہیں اس کا دیہی سندھ میں کوئی کردار نہیں بچا ہے اور جو غیر سندھی قیادت ہے وہ تو ویسی ہی زبان استعمال کرتے ہیں جیسی ایم کیو ایم کرتی ہے جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا ہے اور وہ یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ ہی حقیقی جماعت ہے۔

واضح رہے کہ جمعیت علما اسلام ف نے بھی کراچی سے اپنے مارچ کا آغاز کیا تھا اور تحریک لبیک پاکستان بھی رواں ماہ کے آخر میں کراچی سے اسلام آباد تک مارچ کا اعلان کر چکی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپریل سے ماہ رمضان کی آمد ہو گی اس لیے بھی سیاسی جماعتیں اس سے قبل اپنی سرگرمیاں دکھانا چاہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments