عالمی دنوں کا لنڈا بازار


پوری دنیا میں پورا سال ہی کسی نہ کسی چیز کا عالمی دن منایا جاتا ہے بلکہ کسی دن کو تو کئی کئی حوالوں سے منسوب کر کے منانے کا رواج بھی ہے۔ ہر دن اس دن کے سورج کے ساتھ ہی غروب ہوجاتا ہے اور اس دن کی روح پھر سے دنیا کی بھیڑ میں اگلے برس تک کھو جاتی ہے۔ البتہ ہر منائے جانے والے دن کی نسبت سے منوں کے حساب سے کلچر ضرور برآمد ہوتا رہتا ہے۔ چوبیس جنوری کو تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔

ابھی چودہ فروری کو یوم عشاق تھا۔ پارساؤں کے نزدیک یہ بے حیائی کا دن ہے جس میں کہیں حیا کی موت تو کہیں پاکیزہ نگاہوں کا قتل ہوتا ہے۔ بیس فروری سماجی انصاف کے سبز باغات کا دن تھا۔ آٹھ مارچ کو بنت حوا ابن آدم پر تہذیبی و عائلی لشکر کشی کرتی ہے اور اپنے خاوند، بھائی، باپ اور بیٹوں کو تصویر کائنات میں اپنے رنگ کے ساتھ زنگ کے وجود کا بھی احساس دلا دیتی ہے۔ اس مارچ میں شامل خواتین دوپٹے سے پرچم بنانا کجا، آنچل کے وجود سے بھی انکاری ہیں۔

کھانا اور بستر وغیرہ گرم کرنا تو دور کی بات ٹھہری۔ حفیظ جالندھری کو بھی باور کرایا جاتا ہے کہ وہ مائیں بہنیں کہیں او رجا کر ڈھونڈیں اور قوم اپنی عزت کا خود اہتمام کرے۔ اکیس مارچ کو شاعروں کو واہ واہ کی لولی پاپ کے جھانسے کے ہمراہ بعد از حیات اعزاز سے دفنانے کا وعدہ بھی ملتا ہے سال بھر پانی ضائع کرنے والے بائیس مارچ کو پانی بچانے کی مہم میں ہراول دستہ ہوتے ہیں۔ پھر یکم اپریل کو بے وقوفان عالم اپنا دن منائیں گے۔

ماحولیات کی بابت پورا سال ”مخولیات“ میں رہنے والے پانچ جون کو یوم ماحولیات منا کر تشہیری تسکین کا حظ اٹھاتے ہیں۔ یکم مئی کے روز مزدور پسینہ خشک ہونے سے قبل ادائیگی کا مژدہ سنتے ہیں۔ یکم جون کو والدین کی شان اور اہمیت بیان کی جاتی ہے اور ان سے از سر نو تعارف بھی ہوجاتا ہے۔ اکیس ستمبر امن کی فاختہ اڑا کر دیکھنے کا دن ہے جبکہ 5اکتوبر کو سلام ٹیچر ڈے پر ایک یوم کے لئے سماجی و سرکاری سنگ زنی معطل رہتی ہے۔ سولہ نومبر کو رواداری و برد باری کی اصطلاحوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

ان میں دل چسپ ترین دن ”ہاتھ دھونے“ کا عالمی دن ہے۔ بظاہر صفائی کی ترغیب کا دن سہی مگر ازراہ تفنن کہا جاسکتا ہے کہ اس دن دنیا کی بہت سی شخصیات اپنی عزت، دولت یا عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ گویا یہ دن کسی بھی دن آ سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ کچھ چیزوں پہ ہاتھ صاف کر کے یہ دن منا لیتے ہیں تو کہیں ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے پڑ جانا بھی دیکھا جاتا ہے۔ انڈے کے عالمی دن کو تو موجودہ حالات میں ہمارے لئے ملت بیضا کی ترجمانی کا دن کہا جا سکتا ہے۔

ناک، کان، گلہ، آنکھ، کینسر، ملیریا، ٹی بی، جنگلات، ریڈیو، ٹی وی، زمین، خلا، بائیسکل، روشنی، توانائی، مرغی، بھینس کٹا، دال، سبزی، خواندگی، مہاجرین، انسانی حقوق اور خوش رہنے کی طرح کے سینکڑوں دن منا منا کر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اور میڈیا پہ جلوہ آرائی کی نظر ہو کر بے عملی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جس رفتار سے موضوعات میں اضافہ ہو رہا ہے، سال کے 365 دن کم پڑتے دکھائی دے رہے ہیں اور بعید نہیں کہ راتوں کا سہارا بھی لینا پڑے۔

بہتر ہو گا کہ اس عدیم الفرصتی میں تمام عالمی دنوں کو کسی ایک دن ہی منا کر ”عالمی دنوں کا عالمی دن“ متعین کر لیا جائے تاکہ باقی ایام میں عملی کاموں کا وقت اور موقع مل سکے۔ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ تناظر میں عالمی سطح پر عالمی دنوں کا اک عظیم الشان ”لنڈا بازار“ سجا ہے اور اس بازار کا ہر تہوار ایسے گزر جاتا ہے جس طرح کسی عام بازار سے ایک غریب اور نادار بغیر کچھ خریدے گزر جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments