مارچ تو ہوگا


مارچ کا مہینہ بہار کی آمد کا آغاز کم اور پاکستان میں خواتین اور حقوق نسواں کے لئے برسر پیکار کارکنان کے لئے اعصابی تناؤ، بد تمیزی اور دھونس کا محرک زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ برس عورت مارچ کے آغاز کا پانچواں سال ہے اور گزشتہ پانچ برسوں سے مارچ کا ماہ بہار عورتوں کے لئے ماہ خار کے طور پر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔

پاکستان میں 12 فروری قومی یوم خواتین کے طور پر منانے کا رواج چند فیمنسٹ طبقات تک ہی محیط ہے اور 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کو منانے کی روایت بھی عین معاشرے کے روایتی اصولوں کے تحت منانا ہی مناسب سمجھا جاتا ہے ورنہ اس کو منانے کی ضرورت ہی کیا ہے اگر یہ دن عورت کے مغلوب تشخص اور محکوم حیثیت کی توسیع نہیں ہے۔ جب ہی روایتی طور پر اس دن پر عورتیں کو ان کے بنیادی حقوق کی آگہی کم اور اس کے ماں بہن اور بیٹی کی حیثیت سے قوم کی عزت ہونے کا راگ زیادہ الاپا جاتا ہے۔

عالمی یوم خواتین کو لے کر گزشتہ دنوں یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اس دن کو کو یوم حجاب کے طور پر منایا جائے۔ یعنی یہ قوم اور اس کی پدر سرانہ تجاویز اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز نہیں ہو سکتی۔ اگر عورتوں اور ان کے وجود کا اس ظلم و جبر اور متحرک معاشرے میں مذاق ہی اڑانا ہے تو اس کے لئے بھی ایک قومی دن منتخب کر لیں۔ جہاں یہ لوگ ہم سے خوب نفرت، حقارت، قتال، جبر جنسی کرنے سے باز نہیں آتے وہاں ان کو مذاق اڑانے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟

اب لاہور کی شہری انتظامیہ کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ عورت مارچ لاہور کو تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا۔

اس ملک کی سیاسی اجتماعات کی روایات پر نظر دوڑائیں تو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہاں دہشت گردوں، ان کے حامیوں، فرقہ وارانہ گروہوں سمیت ہر کسی کو اجتماع کرنے کی اجازت ملی ہے اور ان کو سرکار نے تحفظ فراہم کیا ہے۔ دوسری جانب ان ہی جماعتوں کو سرکار کی فراہم کردہ سکیورٹی کی اس لئے بھی ضرورت پیش نہیں ہوئی کہ ان جماعتوں اور گروہوں کے اپنے عسکری گروہ پہلے سے موجود رہے ہیں۔ یہی گروہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات، دہشت گردوں کی سرپرستی، ریاست کے اداروں اور سرکاری محکموں کے خلاف جھڑپوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ آج ان ہی گروہوں کی پھیلی ہوئی شاخیں حقوق نسواں اور ان سے منسلک کارکنان کے خلاف تشدد کے واقعات اور ممکنہ اجتماعات کو لے کر دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں جو ماضی میں فوج اور ریاست کے خلاف خودکش حملوں کو حلال کہتے تھے آج عورت مارچ کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔

عورت مارچ لاہور کو عین مارچ سے تین روز قبل یہ اطلاع دینا کہ شہر کی انتظامیہ پاکستان کی نہتی اور باشعور خواتین کو اس لئے تحفظ نہیں فراہم کرے گی کہ مارچ کو ملنے والی دھمکیاں شہر کے امن کو برباد کر سکتی ہیں۔ یہ نظام میں موجود عورتوں کے خلاف پایا جانے والا کینہ اور عناد ہے۔ ریاست کا تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گری کے خلاف لائحہ عمل واضح ہونے کے باوجود ایک انتہا پسند اور پر تشدد گروہ کو عورت مارچ کے خلاف دھمکی آمیز زباں کے استعمال کی کھلی چھوٹ موجود ہے۔

شہری انتظامیہ کی اولین ترجیح ان انتہا پسندوں کو متنبہ کرنے کی ضرورت ہے جو مارچ کی انتظامیہ، کارکنان، اور شرکاء کے خلاف لاٹھی چارج اور تشدد کے دیگر طریقوں کو استعمال کرنے کی دھمکی باضابطہ طور پر دے چکے ہیں۔ شہری انتظامیہ کا یہ رویہ زمینی حقائق سے زیادہ عورت مارچ کی مخالفت پر زیادہ مبنی ہے جو یہ ضد کرتا نظر آ رہا ہے کہ مارچ کو تحفظ نہیں فراہم کیا جائے گا اور اگر کچھ بد نظمی ہوئی تو اس کی ذمہ دار حکومت نہ ہوگی۔ جب ملک میں دہشتگرد اپنی جڑیں دوبارہ سے مضبوط کر رہے ہوں جس دہشتگردی کی بنیاد اسی قسم کی نفرت، بنیاد پرستی، تشدد، انتہا پسندی میں ہو، اس وقت شہری حکومت کا یہ نکتہ دہشتگردوں اور اس کی اساس کی حمایت محسوس ہوتا ہے۔

عورت مارچ لاہور کی انتظامیہ نے 26 فروری کو دن دو بجے لاہور پریس کلب کے باہر شہری انتظامیہ کو مارچ کو حوالے سے آگاہ کیا مگر انتظامیہ کی جانب سے پانچ روز تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جبکہ عورت مارچ لاہور کو 3 مارچ کو ڈپٹی ایڈیشنل کمشنر کی جانب یہ صرف یہ جواب موصول ہوا کہ عورت مارچ کو نہ ہونے دیا جائے کیونکہ مارچ کو دھمکیاں موصول ہوئی تھیں اور شہر میں جھڑپوں کا خدشہ ہے۔ اس کے باوجود مارچ کا ہونا اور کارکنان اور شرکاء کی حفاظت کی ذمہ داری مارچ کی انتظامیہ کے ذمہ ہے۔

شہر کی انتظامیہ کا یہ موقف اپنانا کہ وہ مارچ کو اس لئے تحفظ فراہم نہیں کریں گے کہ اس کو شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں؟ پھر شہر کی انتظامیہ نے ان دھمکی دینے والوں کو قانون کی گرفت میں کیوں نہیں کیا؟ انتظامیہ کو دھمکی دینے والوں کا بھر پور علم ہے مگر اس پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ کیا یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ ادارے ناکام ہو گئے ہیں؟ اگر تحفظ دینے والے تحفظ دینے سے منکر ہیں تو پھر حکومت کو حکومت میں نہیں ہونا چاہیے۔

مان لیجیے کہ یا تو آپ نکمے ہیں یا تسلیم کریں کہ آپ کو عورتوں سے نفرت ہے، ان کے اجتماع کے بنیادی انسانی، آئینی اور سیاسی حق کو آپ حق نہیں سمجھتے جس کا وعدہ ریاست کی آئینی بنیادوں میں ہے۔ ساتھ اس بات کا بھی اقرار کریں کہ امن پسند اور تشدد سے پاک اس اجتماع کے مقابلے میں انتظامیہ انتہا پسندوں کے حق میں کھڑی ہے۔

عورت مارچ کا یہ پانچواں برس ہے۔ اس پورے عرصے کے دوران اس ملک کی لاکھوں نہیں تو ہزاروں نوجوان لڑکیوں نے اپنے آپ کو ایک انسان ہونے کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کی زندگیوں میں انفرادی طور پر خوش نما تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان کو اپنے ساتھ ہونے والے خاموش، دھیمے اور برملا تشدد کا احساس ہوا ہے جس کا وہ اپنے ہی پیروں پر کھڑے ہو کر مقابلہ کر رہی ہیں۔ یہ مارچ کا سلسلہ جو کراچی سے پانچ برس پہلے شروع ہوا تھا، اس برس بھی ہو گا اور آنے والے ہر سال میں ہو گا۔ اس مارچ کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ اس کی کارکنان اور شرکاء ان عورت دشمنوں کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں جو مارچ کے خلاف ہر وقت اپنے وعظ دیتے ہیں۔ جب ہم نے کہا تھا کہ ان کے گھر سے عورتیں ہمارے ساتھ ہوں گی، تو ہم غلط نہیں تھیں کیونکہ ہم خود وہ وہ بیٹیاں اور بہنیں ہیں۔

اتنا بتانا ہے کہ مارچ تو ہو گا اور اس کی کارکنان پہلے سے زیادہ پرجوش اور محتاط ہیں۔ یہ مارچ عورت دشمنوں اور اس ملک میں عورتوں کی عزت اور حقوق کے جھوٹ کا پول بھی کھول کر رکھ دے گا۔ جو گھر میں ماں، بہن، بیٹی، اور بیوی کو ڈنڈوں سے مارتے ہیں ان سے کسی اور انسان کے تحفظ کی امید کبھی نہیں کی جا سکتی۔ ہم ان کے گھر کی عورتوں کو بھی حقوق دلوائیں گی اور مارچ پر بھی لائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments