جامعات میں تحقیق کا فقدان

تعلیم،تحقیق اور تخلیق کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔یہ تینوں عوامل کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی کا ضامن سمجھے جاتے ہیں۔آج انسان ترقی کی جس اسٹیج پر کھڑا ہے یعنی پتھر اور غاروں کی دنیا سے نکل کر فلک بوس عمارتوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔برق رفتار جہازوں میں محوِ پرواز ہے اور چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔بلاشبہ یہ تعلیم،تحقیق اور تخلیق کے ہی ثمرات ہیں۔تعلیم،تحقیق کے لیے راہیں فراہم کرتی ہے اور ہر تحقیق کے بعد کوئی نئی تخلیق وجود میں آتی ہے۔نئی اختراعات کے سبب ہی ترقی ممکن ہے۔
اسی لیے آئے روز دنیا بھر کی جامعات میں نئی نئی تحقیقیں اور دریافتیں ہورہی ہیں۔دنیا میں رونما ہونے والے واقعات حالات،تغیرات،مسائل اور ان کے حل کے لیے مقالے اور ریسرچ پیپرز شائع ہوتے ہیں۔پریکٹیکل ورک کے ذریعے انسانیت کی فلاح کا سامان تیار کیا جاتا ہے۔جس میں براہ راست وائس چانسلرز اور ان کے ماتحت فیکلٹی پروفیسرز کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن وطن عزیز کی جامعات فکری جمود کا شکار ہیں۔ہماری تعلیم غیر معیاری ہے۔ بدیں وجہ ہمارا تحقیقی شعبہ زوال پزیر ہے۔جس کا براہ راست اثر تخلیقی شعبے پر پڑ رہا ہے۔
تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں صرف دو جامعات تھیں’مگر اب ان کی تعداد ڈھائی سو سے بڑھ گئی ہیں اور پچھلے دو سالوں میں پچاس نئی جامعات کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ان جامعات سے سالانہ ہزاروں طلبہ ڈگریاں لے کر فارغ ہو رہے ہیں مگر ان کی اسناد کسی کام کی نہیں رہتی اور نہ کوئی یونی ورسٹی عالمی جامعات کی درجہ بندی میں اپنا نام درج کر سکی ہے۔جس کی بنیادی وجہ ناقص نظام تعلیم،ناقص نظامِ تدریس،ناقص نظام امتحان اور غیر معیاری تحقیق ہے۔تحقیقی عمل کے دوران اساتذہ کی رہنمائی تسلی بخش نہیں ہوتی ہے اور اساتذہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔تحقیق کے لیے عجیب و غریب موضوعات طلبہ کے حوالے کرتے ہیں۔تھیسس کیسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے’اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس سڑے نظام میں اعلیٰ ذہین و فطین طلبہ بھی اپنی صلاحیتوں کو تحقیقی میدان میں بروئے کار لانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پروفیسرز حضرات انٹرنیٹ سے اوٹ پٹانگ ڈیٹا نوٹس کی صورت میں طلبہ کو تھما کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔نوٹس کا عملی زندگی سے کوئی ربط نہیں ہوتا ہے جب کہ امتحان انہی نوٹس سے لیا جاتا ہے۔اس لیے طلبہ کو یہ مواد سمجھنا نہیں بلکہ رٹنا ہوتا ہے۔انہیں مزید تحقیق و تجّسس کا موقع نہیں ملتا۔جب چند نوٹس پر گزارہ کرنا ہو تو کیونکر ان کی فکر رُشد کرے گی۔معیاری ریسرچ کرنے والے طلبہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اکثر کا ڈیٹا سرقہ اور نقل شدہ ہوتا ہے۔حتٰی کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ بھی گھسے پٹے اور نئی دریافت سے مبرا چند مغربی اسکالرز کی حوالہ جات سے کاغذات کے پلندے جمع کر کے مکھی پر مکھی مار کر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور ادارے ڈگریاں بانٹنے کی پرنٹنگ پریس بن چکے ہیں۔
گویا تمام تر تگ و دو کا مقصد محض ڈگری کا حصول اور جاب ہنٹ کرنا ہوتا ہے۔ہماری جامعات بے روزگاروں اور بےکاروں کی لشکر تیار کر رہی ہیں جو ڈگری ہولڈر ہونے کے باجود ماں باپ،معاشرے اور حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔مدعا یہ نہیں کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ یا نئی نسل میں صلاحیتوں کی کمی ہے۔مسٸلہ ہماری تعلیمی نظام کا ہے جو کہ فرسودہ خطوط پر استوار ہے۔جس میں انقلابی اصلاحات لا کر راٸج نصاب کو تحقیقی اور جدید زمانے کے اصولوں سے مزین و ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ ہم فرسودہ اور دقیانوسی نظام سے نکل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ کارنامے انجام دے سکیں اور ہماری تعلیم یافتہ نسلوں میں اپنے مسائل خود حل کرنے کی سکت پیدا ہو سکے۔
Latest posts by اقبال حسین اقبال (see all)
- اجنبی شہر کا مسافر - 05/01/2023
- علامہ محمد اقبالؒ کا نظریہ تعلیم - 08/11/2022
- پوٹھوہار، خطۂ دل ربا - 18/10/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).