پروفیسر طیب گلزار: ایک وضع دار اور شاندار مربی


سرمایہ دارانہ نظام کی چند بڑی برائیوں میں سے ایک برائی معاشرے کے حقیقی ہیروز کو گوشہ گمنامی میں رکھنا اور جعلی ہیروز کو پروموٹ کرنا بھی ہے۔ معاشرے کے اصل ہیروز وہ ہوتے ہیں جو سوسائٹی کو کچھ اچھی اقدار ڈیلور کرتے اور معاشرتی بہتری کیلئے کام کرتے ہیں نہ کہ وہ جنھیں سرمایہ دارملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیاں انٹرٹینمنٹ کے نام پرعوام پر مسلط کرتے ہیں۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کمرشلزم کی بھیڑ چال میں وہ لوگ جو معاشرے کو کچھ اقداردیتے ہیں اور معاشرتی اصلاح کی داغ بیل ڈالتے ہیں ان کی اس طرح پزیرائی نہیں ہو پاتی جس طرح ٹک ٹاکرز سے لے کر عالم آن لائن جیسے کرداروں کی ہوتی ہے جو معاشرے میں غلط روش کی طْرح ڈالتے ہیں۔نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کیلئے معاشرے کے ان محسنوں کے بارے میں روشناس کرانا میرے خیال میں میڈیا ورکرز کی ایک سماجی ذمہ داری ہے تاکہ سماج کا توازن اور حْسن برقرار رہے۔ پروفیسر طیب گلزار خان بھی ایک ایسی ہی نابغہ روزگار ہستی تھیں جو اپنے مثالی کردار، شاندار تعلیمی اور سماجی خدمات کی بدولت صحیح معنوں میں ہمارا معاشرتی ورثہ تھے۔
طیب گلزار خان قاضی حسین احمد مرحوم کے دور امارت میں جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔ اس کے علاوہ وہ جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ امور خارجہ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی متمکن رہے۔ امریکہ،  برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک اور مشرق وسطیٰ سمیت درجنوں دیگر ممالک کا سفر کیا یوں وسیع النظر اور وسیع الفکر شخصیت تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی ہیلے کالج میں انگریزی کے پروفیسر بھی رہے۔ نہائیت مثبت سوچ کے مالک تھے پروفیسر طیب گلزار سے میرا پہلا تعارف ان کے ایک قریبی عزیز اور میرے ایک یونیورسٹی کلاس فیلو تحسین خان کی وساطت سے ہوا۔ تحسین بھائی سے جب کبھی بھی ملاقات ہوئی تو اکثر گفتگو میں وہ پروفیسر صاحب کی کوئی نہ کوئی مثال لازمی دیتے یا یوں سمجھیں کہ انکے ذکر کے بغیر ہماری گفتگو ادھوری رہتی۔ یوں مجھے بھی ان سے ملنے کا بہت اشتیاق پیدا ہو گیا۔
میری خوش قسمتی اور سعادت کہ پروفیسر صاحب سے ان کے ادارے ویمن انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ہیومنیٹیز (وش) اسلام آباد میں تحسین بھائی کے ساتھ ملاقات ہوئی تو جتنا تعارف ان کا تحسین بھائی نے کروا رکھا تھا انھیں اس سے بڑھ کر پایا۔ زبان و ادب سے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب تعارف کے دوران میں نے اپنا نام “مسرور احمد” بتایا تو بڑے لطیف اور محبت والے انداز میں مجھ سے میرے نام کی حرکیات، گرائمر اور معانی کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ جب میں نے انھیں سب کچھ درست بتا دیا تو بہت خوش ہوئے۔ تحسین بھائی نے جب نکتہ آفرینی کی کہ میں نے میڈیا سٹڈیز کے علاوہ انگریزی اور عربی زبان و ادب میں بھی ایم اے کر رکھا ہے تو میرے ساتھ ان کے جوش و خروش میں اور اضافہ ہو گیا۔ وش یونیورسٹی کے ساتھ ان کی وابستگی اور وارفتگی دیدنی تھی۔ انھوں نے اپنے پاس موجود وسائل اور احباب کے تعاون سے وش کو ایک لمبے عرصہ تک خواتین کے ایک باوقار علمی ادارے کی حیثیت میں برقرار رکھا  اور جسے ڈاکٹر عبدلقدیر خان جیسی قد آور شخصیت کی دو مرتبہ آمد کا شرف بھی حاصل ہوا۔
چند ہفتے قبل جب تحسین بھائی اسلام آباد آئے تو یوں ہی ارادہ بن گیا کہ دوبارہ وش یونیورسٹی کی عمارت کو دیکھا جائے کہ اب کس حال میں ہے۔مگر موجودہ حالت اور نظام دیکھ کر سخت افسوس ہوا۔  وش کی عمارت جو کبھی لڑکیوں کا اسلامی اور جدید تعلیم کا ادارہ ہوا کرتا تھا اور جسے ایک پروگریسو سوچ کے تحت اسلامی روایات کی حامل، باشعور پروفیشنل اور ہنر مند خواتین اور بیٹیوں کی یونیورسٹی کے طور پر چلایا جارہا تھا خیر سے اب لڑکوں کاایک مدرسہ بن چکا ہے۔ جہاں سے ظاہر ہے مستقبل میں روایتی ملا برآمد ہوں گے!
طیب گلزار خان صاحب کو اس جگہ سے خاص محبت تھی۔ صحت کے انتہائی سنجیدہ مسائل کے باوجود ان کی زندگی کے تقریبا سترہ سال، پہلے اس عمارت کو بنانے ا و ر بعد ازاں اس ادارے کو چلانے میں گزرے۔ وہ اسے لڑکیوں کی تعلیم کا ایک باوقار اور معتبر ادارہ بنانے میں تو کامیاب رہے۔ مگر کم فیسوں کی موجودگی میں اسے ایک نفع بخش ادارے میں نہ بدل سکے۔ اس دوران شوگر کے دیرینہ مرض کے ساتھ ساتھ دیگر امراض کے نتیجے میں اس ادارے کو چند سال قبل ایک نجی یونیورسٹی کے حوالے کرنا پڑا جنھوں نے اس قدر دبا کے پرافٹ سمیٹنا شروع کیا کہ سی ڈی اے کی نظروں میں آ گئے کیونکہ قانونی طور پر یہ جگہ سرکاری طور پر صرف غیر منافع بخش تعلیمی سرگرمیوں کیلئے  ہی وقف تھی۔
پروفیسر صاحب کے کردار کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی اسباب پیدا ہوئے انھوں نے خواتین کے ایک مثالی تعلیمی ادارے کے دیرینہ خواب کی تعبیر کی خاطر اپنی پنجاب یونیورسٹی کی سروس پینشن کے حصول کیلئے لازمی سروس دورانئے سے صرف دو سال قبل چھوڑدی۔ نہ صرف لاکھوں روپے پنشن کی قربانی دی بلکہ ادارے کے سربراہ کے طور پر شروع سے لے کر آخر تک محض اسی ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کی۔اسی دورون چیریٹی کے علاوہ وش کے اخراجات ذاتی ذمینیں بیچ بیچ کر ادا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ درجنوں مستحق لڑکیوں کی فیس بھی برسوں کسی کے علم میں لائے بغیر اپنی جیب سے ادا کیں۔ کردار کی سچائی کی گواہی کیلئے صرف یہ ایک مثال ہی کافی ہو گی کہ پنجاب یونیورسٹی کی نوکری سے استعفیٰ دیتے وقت ان کے پاس آپشن موجود تھی کہ پینشن کے حصول کیلئے قبل از وقت نوکری چھوڑنے کی بجائے، بیماری کا بہانہ بنا (جبکہ حقیقت میں بھی وہ شوگر اور دیگر امراض کا علاج معالجہ کروا رہے تھے اور انھیں آرام کی بھی ضرورت تھی) کر دو سال کیلئے میڈیکل بنیادوں پر چھٹی کی درخواست دے دیتے، مگر چند خیر خواہوں کے اصرار کے باوجود وہ یہ لکھنے پر رضا مند نہ ہوئے۔
اپنے مشن اور وژن کی خاطر وش کے سربراہ کے طور پر ماہانہ تنخواہ سے زائد کی پنشن چھوڑ دی۔ اس پہ رشک یہ کہ اس بات کی تشہیر بھی کبھی گوارا نہ کی۔ تحسین بھائی بتاتے ہیں کہ انھیں دو ماہ ان کے ساتھ گزارنے کا اتفاق ہوا۔ جہاں ان کی اور ان کے چند باشعور اور صاحب علم دوستوں کی صحبت اور علم سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک رات امیر العظیم صاحب بھی وہاں رکے تو کمرے میں صرف دو پلنگ ہونے کی وجہ سے انکل طیب ضد کر کے خود زمین پر سوئے اور ہمیں پلنگ پر سلایا۔ تعلیم و تربیت کے معیار کے ساتھ ساتھ وش کا ہاسٹل اسلام آباد میں نان وش طالبات اور ورکنگ ویمن میں بھی اپنے پرتحفظ اور آرام دہ ماحول اور صاف ستھرے کھانے کی وجہ سے یکساں مقبول تھا اور کئی نان وش لڑکیاں بھی وہاں قیام پزیر ہونے کو ترجیح دیتی تھیں۔
وہ بنیادی طور پر ادب کے آدمی تھے۔ انگریزی محاورے اور روزمرہ پر انھیں عبور تھا۔ اردو ادب کا اعلیٰ زوق رکھتے تھے۔ انگریزی، اردو اور عربی الفاظ کے تلفظ پر ان کی نگاہ تھی، اردو اشعار کا ذوق تھا۔ شعر صحیح پڑھتے تھے۔ غلطیوں پر ٹوکتے، اردو کے تمام لہجوں سے وہ واقف تھے۔ لاہور میں انھوں نے “ادراک” کے نام سے محفلیں آراستہ کیں۔وہ  ہر قسم کے کمپلیکس سے پاک رشتوں اور دوستیوں کو نبھانے والے ایک نرم خو اور پرکشش انسان تھے۔طیب گلزار وسیع ترین مطالعے کے باوجود کبھی بوجھل گفتگو نہ کرتے۔ طبیعت نرم دل اور محبت سے گندھی تھی۔ جماعتی حلقے میں بھی بہت محبتیں بانٹیں اور اس حلقے سے باہر بھی۔ لیکن سید منور حسین صاحب کے ساتھ ان کی محبت  اور وابستگی بہت زیادہ تھی۔ دونوں کا بے حد محبت بھرا تعلق رہا۔ ان کے دوست خلیل الرحمٰن چشتی کے بقول وہ ایک آہنی راجپوت کی طرح موت کو شکست دینے میں مصروف رہے۔
ہر کسی کو ان سے کوئی نئی بات سیکھنے کو ضرور ملی۔ جہاں بھی ضر ورت مند ان تک پہنچتے فیض یاب ہوتے۔ نوجوانوں پر خاص شفقت فرماتے۔ وش یونیورسٹی تو پیچھے رہ گئی وہ خود اپنی ذات میں یونیورسٹی تھے۔ جماعت ان کا عشق تھا لیکن جماعت کے باہر بھی بے شمار دانشور ان کے دوست تھے۔ ان کے گھر اور دل کا دسترخوان تاحد نگاہ وسیع تھا۔ وہ تاریخ ا ور مستقبل کا ایساسنگم تھے جہاں تہذیبیں پرورش پاتی ہیں۔ سبھی ان کے مداح بھی تھے ا ور ممدوح بھی۔بلاشبہ وہ یاد رکھے جانے کے قابل ایک وضع دار اور شاندار مربی تھے۔ کم گو تھے لیکن جب بھی بولتے علم و عرفان کے دریا بہا دیتے۔ یوں لگتا تھا کہ وہ ایک ایک لفظ جواب دہی کے احساس کے تحت ادا کرتے۔ قوم ایک ایسے دانشور سے محروم ہو گئی ہے جو وژن اور وجدان میں یکتا تھا۔ اللہ ہمارے اس مربی کی حسنات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں صلحا کی صحبت عطا فرمائے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments