عورت کا قصائی معاشرہ


عالمی یوم خواتین آن پہنچا ہے اور اس دن کے آنے سے قبل ہی دل و دماغ میں ہزاروں جذبات اور خیالات ابھرتے رہتے ہیں۔ ایک پاکستانی عورت بالخصوص عورتوں پر تشدد کے حوالے سے کام کرنے والی عورت ہونے کے ناتے دل کو عجیب سا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نجانے عورت مارچ میں کیا ہو گا، مارچ کو لے کر کیسی کیسی ناگوار باتیں اور بحثیں ہوگی۔ کتنی کتنی بار اپنے ہی گھر اور دفتر میں بار بار کانوں میں آواز بلند کر کے ہیڈ فونز لگانا پڑیں گے۔ کتنی بار محفل سے اٹھ کر جانا پڑے گا کہ الزام، گالی، بد تمیزی، بہتان سہنا اور سننا اعصابی تناؤ کو مزید بڑھاتا ہے۔ سال بھر بدتمیزی اور مزاحمت کا طوفان سہ سہ کر اس دن اور اس کے بعد سکت نہیں رہتی مگر وقار سے سر اور حوصلے بلند رکھنے پڑتے ہیں۔ دل کو یہ طمانیت ضرور ہوتی ہے کہ ضمیر ملامت نہیں کر رہا۔

جب ورک پیلس اور پروفیشنل مدار میں بد تمیزی اور ہراسانی کا مقابلہ کیا ہو مگر اس ہراسانی اور بد تمیزی کا کسی ذمہ دار نے جواب طلب تک نہ کیا، سال بھر عورتوں پر تشدد ہوتا دیکھا اور ان کے جینے کے بنیادی حق کی حمایت کی ہو ہو تو یہ دن غصہ، حوصلہ، اور بہادری کے بہت سے جذبات بھڑکا دیتا ہے۔ کل تک عورت مارچ لاہور کو سرکاری تحفظ دینے پر سوال اٹھایا گیا تھا وہ بھی اس وقت جب تشدد پسندوں نے حملوں کا عندیہ دے رکھا تھا، آج میانوالی میں ایک نومولود کو اس لئے پانچ گولیوں سے مار دیا گیا کہ وہ ایک لڑکی تھی۔

دل اسی غم اور غصہ سے بھر پور ہے مگر اس کی کوئی تعریف ہی نہیں۔ یہاں ظلم کی ایسی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں کہ زبان اور کلام میں اس کی حیثیت ہی بیان سے باہر ہوتی ہے یا کبھی کسی زبان تراشنے والے نے ظلم کی ان انتہاؤں کو شاید ظلم گردانا ہی نہ ہو کہ ایک عورت جب جبر اور نفرت کا نشانہ بنے تو اس کو اپنے جذبوں کی انتہا تک بتا سکے۔

یہ دن بہت سے لوگوں کے لئے بے معنی ہو گا مگر عورت ہونے کی حیثیت اور ہر طرح کی نفرت اور تشدد کو برداشت کرنے اور دوسروں پر دیکھنے کے بعد اس دن کی اہمیت کچھ الگ سی ہے۔ ہم چاہ کر بھی اس دن کو منا نہیں سکتی۔ ہونے والے ظلم کی قصہ گوئی کر کے منائیں یا جبر کی یادوں کو تازہ کر کے منایا جائے؟ یہ چاند رات ہے یا شام غریباں؟ اس شام کو میانوالی کی سات دن کی بچی سے لے کر لاہور کی اس چودہ سالہ تہمینہ کا نوحہ کریں؟ تہمینہ جو آج اس دنیا میں نہیں ہے۔ اس کا غیرت کے نام پر قتل ہوا وجود اب مٹی کے ڈھیر میں زمین کی تپش اور دنیا کے بوجھ سے بکھر چکا ہو گا۔ وہ اب مکمل طور پر مٹ چکی ہے۔

لاہور میں سال 2016 میں جب ایک کم عمر لڑکی کو باپ اس لئے قتل کرتا ہے کہ اس نے اپنے گھر پڑھانے والے استاد سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ کم عمر نصیبوں کی پھوٹی لڑکی زندہ ذبح کی گئی تھی صرف اس لئے کہ اس نے صرف شادی کرنی کی خواہش ظاہر کی۔ کسی نے اس کی معصومیت کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔

بیٹی ہی تو تھی، کیا ہوا جو ذبح ہو گئی؟ ماں نے بھی قندیل کی ماں کی طرح اپنے سر کے تاج کو معاف کر دیا۔ چالیس دن میں تہمینہ کا قاتل مرد آزاد ہو گیا کہ گھر والوں نے معاف کر دیا تھا۔ آج اس کا قاتل مرد آزاد ہے، اسی گھر میں شان سے جیتا ہے، جس میں تہمینہ کی قربانی ہوئی تھی۔ اس گھر میں بڑی عیدوں پر جانوروں پر بھی ایسے ہی چھری پھرتی ہے جیسے معصوم تہمینہ پر پھری تھی۔ اس کا قاتل اسی عزت مآب معاشرے میں سر اٹھا کے چلتا ہے۔ کسی نے اس سے ملنا جلنا ترک نہیں کیا۔ سب کچھ تو ٹھیک ہے۔ وہ آج بھی اس گھر کی عورتوں کی زندگی کے فیصلے کرتا ہے۔

لڑکیاں ہی قتل ہوتی ہیں، ذبح ہوتی ہیں، جلائی جاتی ہیں، کون سی بڑی بات ہے۔ قدرت بھی تو دیکھو، لڑکیاں پیدا کرتی رہتی ہے، کون سا لاکھوں کروڑوں لڑکیوں کے قتل اور جلنے پر قدرت لڑکیاں بنانے کا عمل روک دے گی۔ اس لئے جس کے جی میں آتا ہے قتل کرتا ہے، جلاتا ہے، ریپ کرتا ہے، قید کرتا ہے، فتویٰ لگاتا ہے، دھتکارتا پچھاڑتا ہے، ہراساں کرتا ہے، آواز اونچی کرتا ہے۔

ہاں، مگر اس عزت مآب، مقدس، اور محترم معاشرے میں تہمینہ کا قاتل آزاد ہے، اس کا پیڈو فائل مرد استاد بھی آزاد ہے۔ وہ جس پر کسی نے پیڈوفیلیا کی بنیاد پر مقدمہ دائر نہیں کیا۔ کم عمر لڑکی کو شادی پر ورغلانے پر اس چالیس سالہ آدمی کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ وہ آج بھی بچیوں کو ورغلاتا ہو گا، ان بچیوں کے باپ غیرت کے نام پر بیٹیاں قربان کرتے ہوں گے اور عدالت گھر والوں کی معافی کے بعد مرد قاتلوں کو باعزت بری کرتی ہوگی۔

اس بوسیدہ معاشرے میں جو عورتوں کے خون کو چوس کر پروان چڑھتا ہے، آج سات دن کی بچی کے قتل پر اس کے قاتل کی آخرت کی فکر میں ہے کہ اس قاتل کی آخرت بگڑ گئی؟ بس یہی ہے طور یہاں کا کہ قاتلوں کی پرواہ یہاں تک کرنی ہے کہ اس کی آخرت میں مغفرت بارے پریشان ہیں؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم نے مل کر ایسا معاشرہ بنایا ہے جہاں ہم سب مل کر عورتوں سے دل کی گہرائیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے قتل پر قاتل کو شاباش دیتے ہیں، ان کا ریپ کرنے اور گردن کاٹنے پر عورتوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ تہمینہ یا سات روز کی نومولود کا قتل صرف باپ نہیں کرتے آئے بلکہ یہاں موجود ہر اس شخص نے مل کر کیا ہے جو عورتوں کی غلامی، ان پر ہونے والے ظلم اور تشدد سے مفید ہوتے ہیں۔

آج بھی ہمارے نام کے مرد ساتھی ہمارے خلاف تہمات سے بعض نہیں آتے۔ آج بھی ان کی ہم سے دوستی ان کے رومانوی جذبات پر مبنی ہوتی ہے۔ ہمارے خلاف ہراسانی اور بدتمیزی پر ہمارا ساتھ نہی دیتے، بد لحاظ کی زبان نہیں پکڑتے۔ ہمارے استاد اور پروفیشنل مدار میں ذمہ دار اپنی آنکھوں کے سامنے بد تمیزی کا مظاہرہ دیکھتے ہیں مگر بد تمیز آدمی کی زبان کو لگام نہیں دیتے۔ اس کو ہزلیات کہنے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے اور عورت کو حق کہنے پر بھی روک دیا جاتا ہے۔

یہ ہے یہاں کی حقیقت اور اصل پہچان۔ آپ مل کر تہمینہ اور معصومہ کو ذبح کرتے ہیں پھر ان کے سات دن کے بدن میں پانچ گولیاں اتار کر فخر سے اپنی زہریلی مردانگی کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ آپ ہی اصل قصائی اور قاتل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments