چراغ سے چراغ تک: ریاضی کے ماسٹر جی


ایف ایس سی کرنے کے بعد شوق چڑھا کہ ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے۔ اور سب سے بہترین خدمت فوج میں شمولیت اختیار کر کے ہی کی جا سکتی ہے۔ زوروشور سے تیاریاں شروع ہوئیں ’ورزشی پروگرام کا آغاز والد صاحب کی نگرانی میں صبح صبح تین کلومیٹر بھاگنے جیسے عمل سے شروع ہوتا جو کہ امتحان آنے کے دن تک سمجھ نہیں آیا‘ سارے ضابطے اور امتحانات کے بعد وہ دن آن پہنچا جب راہوالی کینٹ کی راہ لی۔

پہلے ہی دن معلوم ہو گیا کہ کیا حال ہونے والا ہے اور کس بھاؤ بکیں گے۔ مزید ستم یہ کہ دوسرے ہی دن انٹرویو کا قرعہ بھی ہمارے نام کا نکل آیا۔ انٹرویو والے دروازے کے باہر لگی بتی کو دیکھنا بلکہ ٹکٹکی باندھے دیکھنا بھی اپنے آپ میں منفرد تجربہ تھا۔ باری آنے پر دل بڑا کر کے کمرے میں داخل ہوئے۔ رسمی سوالات کے بعد ممتحن صاحب کو جانے کیا سوجھی پوچھنے لگے کہ ’درسی مضامین میں سے پسندیدہ مضمون کون سا ہے؟

جواب دیا کہ ریاضی اور طبیعات (فزکس) ۔ یہ جواب سننے کی دیر تھی ’موصوف نے سارے سوال کیمیاء (کیمسٹری) ہی کے متعلق پوچھے۔ آخر میں کہا کہ آپ تو کہہ رہے تھے کہ پسندیدہ مضامین ریاضی اور طبیعات ہیں‘ آپ کو تو کیمیاء بھی آتی ہے ’برجستہ منہ سے نکلا کہ پسندیدہ مضامین کے نام بتائے تھے یہ تھوڑی کہا تھا کہ کیمیاء نہیں آتی۔

یہ بات ایسے یاد آئی کہ میٹرک میں ہمارے سکول میں ریاضی کے ایک ماسٹر ہوا کرتے تھے ’جنہیں اس وقت ہم نے بابائے ریاضی کا لقب دیا ہوا تھا۔ اگرچہ سکول میں وہ چھوٹی کلاسوں کو پڑھاتے تھے لیکن سکول کے بعد وہ ہائی کلاسز کو صرف ریاضی ہی پڑھایا کرتے تھے اور بھلے وقتوں میں وہ صرف آدھ گھنٹہ پڑھانے کی فیس مبلغ پانچ سو روپے لیتے تھے۔ ان کے پاس گئے وقتوں کی ہنڈا موٹر سائیکل تھی اور اس پہ بھی وہ اس شان بے نیازی سے سوار ہوتے گویا پیچھے دو سواریاں اور بھی بٹھا رکھی ہوں۔

اسی وجہ سے سیٹ کا پوشش کم گھستا اور ٹینکی کی کوہان میں خم آ رہا تھا۔ صبح صبح اسمبلی کے دوران وہ سکول میں داخل ہوتے اور موٹر سائیکل کے سائلنسر کی دھماکے دار آواز کچھ ایسی تھی کہ پطرس بخاری دیکھ لیتے تو سائیکل کے بعد اس موٹر سائیکل پہ بھی ضرور مضمون لکھتے۔ ایسی خرانٹ آواز کے باعث ان کی آمد کی خبر ان کے آنے سے پہلے ہی ہو جاتی۔

ان کی نگاۂ کیمیا کے ریڈار میں ایک دن ہم بھی آ گئے۔ کہنے لگے سکول کے بعد مجھ سے پڑھا کرو۔ اندر سے خوشی تو بڑی ہوئی کہ ایسے لائق فائق ماسٹر کے شاگرد کہلائیں گے لیکن ساتھ ہی عرضی ڈال دی کہ بھاری فیس کی وجہ سے باقاعدہ شاگردی اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔ تو کمال دریا دلی سے فرمانے لگے کہ پیسے کس نے مانگے ’یہیں سکول ہی میں جو مسئلہ ہو پوچھ لیا کرو۔ بہت تندہی سے انہوں نے ہمارے ساتھ کچھ یوں محنت کی کہ مسئلہ فیثا غورث کے علاوہ بھی تمام بیس کے بیس مسئلے ایسے آتے تھے جیسے مولوی خادم رضوی کو والناس تک کی گردانیں آتی تھیں۔

جب رزلٹ آیا تو اس درویش کے اندر کا سلطان راہی جاگ گیا۔ ایک ہاتھ میں میرا بازو اور دوسرے میں میرا رزلٹ کارڈ پکڑے اسٹاف روم میں داخل ہوئے اور سب اساتذہ اکرام کے سامنے انتہائی خوشی اور فخر سے بتایا کہ یہ ہے وہ طالبعلم جسے میں نے ریاضی کی تیاری کروائی تھی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ باہر آ کر فرمانے لگے کہ اس نتیجے کی صورت میں فیس ان پیسوں والی فیس سے کہیں بہتر ہے۔

یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنی زندگی کی لگی بندھی محنت اور روٹین سے ہٹ کر ہمیں کچھ کام ایسے ضرور کر لینے چاہئیں جو کسی بھی مادی مفاد سے نہ صرف بالاتر ہوں بلکہ ان چھوٹے اور اہم کاموں کی وجہ سے کسی کی ذاتی ’اجتماعی یا عمومی زندگی میں کچھ نہ کچھ ویلیو ایڈ ضرور ہو۔ یوں چراغ سے چراغ جلے گا اور روشنی کی یہ لو بہت سے دوسروں کو بھی منور کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments