بیٹی ہونے کی سزا


(سانحہ میانوالی میں سفاک باپ کے ہاتھوں قتل ہونے والی سات دن کی معصوم بچی کی روح کے عرش پر حاضر ہونے کا چشم تصور سے دیکھا گیا منظر نامہ)

عرش پر ایک عجیب سوگ کا عالم ہے۔ دربار رسالت ﷺ میں ایک افسردگی ہے۔ فرشتے بھی مغموم ہیں۔ جنات کے چہروں پر پژمردگی چھائی ہوئی ہے۔ روحوں کی سسکاریاں گاہے فضا میں گونجتی ہیں تو سب کی آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں۔ جنت الفردوس کی پوری فضا پر آشوب ہے۔

اتنی دیر میں ایک ننھی سی روح کو فرشتے بارگاہ معلی میں پیش کرتے ہیں۔ جسے دیکھ کر ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ اس پھول کے نرم و نازک کلیوں جیسے بدن میں دہکتے بارود سے بنی انسانیت کے تن بدن میں چھید کرتی پانچ گولیاں اتاری گئیں ہیں۔ ایک اور بچی کی روح جنت کے باغوں میں کھیل رہی ہے۔ اسے نہیں معلوم یہ کون ہے۔ وہ بھاگ کر دربار رسالت کی طرف آتی ہے تو اپنی سہیلی روح کو دیکھ کر ہکا بکا رہ جاتی ہے۔ ابھی چند دن پہلے تو۔ یہ سوچ کر اپنی سہیلی کے ساتھ کیا گیا مکالمہ اس کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔

آخر تم زمین پر جاتے ہوئے اتنی پریشان کیوں ہو۔ تم پریشان مت ہو۔ مجھے پتا ہے تم میرے ساتھ جو سانحہ پیش آیا تھا۔ اس کو لے کر خوف زدہ ہو۔ لیکن مجھ میں اور تم میں فرق ہے۔ میں آج سے پندرہ صدیاں قبل وہاں گئی تھی۔ وہ دور جہالت تھا۔ میں ایک کافر کی بیٹی تھی۔ اور اس وقت اللہ کے آخری پیغمبر دنیا پر رحمت اللعالمین بن کر نہیں گئے تھے۔ دنیا نے انہیں اپنی بیٹیوں کی تعظیم کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ابھی انسانیت کے پاس ہدایت کی کتاب نہیں اتری تھی۔ جس نے عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور تو اور اللہ نے اپنی یہ اتنی پیاری بہشت ایک عورت کے قدموں تلے نہیں رکھی تھی اور آج یہ سب کچھ ہو چکا۔ ویسے بھی تم پاکستان میں بھیجی جا رہی ہو۔ وہاں مسلمان بستے ہیں۔ تمہارا باپ ایک مسلمان ہے۔ وہ تم دیکھنا تم سے اتنا پیار کرے گا۔ جتنا نبی ﷺ اپنی بیٹیوں سے کرتے تھے۔ میرا باپ تو ایک مشرک تھا جس نے مجھے پیدا ہوتے ہی مار دیا۔ لیکن تم راج کرو گی دیکھنا۔ اچھا مجھے اور اداس مت کرو میں تمہاری جدائی میں پہلے ہی بہت غمگین ہوں۔ چلو اب مسکرا دو میری بہن۔ شاباش۔

اور پھر وہ منظر جب وہ اپنی سہیلی کو نیک تمناؤں کے آنسوؤں میں بھیگی نمناک آنکھوں سے رخصت کرتی ہے۔ اور دعا کرتی ہے کہ دہائیوں بعد جب وہ زمین سے لوٹے تو خوش و خرم ہو اس کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے سارے ادوار خوش کن ہوں اور وہ ایک اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی عزت و تکریم پا کر واپس یہیں جنت میں آئے۔ اور وہاں کوئی اس کی زندگی جہنم نہ بنائے جیسی کربناک کہانیاں یہاں جنت میں سنی جاتی ہیں۔

اچانک اپنی سہیلی کی آواز اسے ان خیالوں سے باہر آتی ہے۔ جو سسکیاں لیتی اور ہچکیاں بھرتی رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہو کر کہتی ہے۔

اے رحمت للعالمین اے رسول خدا  بڑے خواب تمنائیں اور آرزوئیں لے کر میں زمین پر گئی تھی۔ میری سہیلی جسے زمانہ جاہلیت میں اس کے باپ نے زندہ درگور کر دیا تھا اس نے میرا حوصلہ بڑھایا تھا اور میں خوش تھی کہ آپ کے ایک امتی کے ہاں بیٹی بن کر جا رہی ہوں۔ جسے قرآن کہتا ہے آپ کی سنت پر چلو۔ اس نے کہیں پڑھا ہی ہو گا کہ آپ اپنی بیٹیوں کے ساتھ کتنے مشفق تھے۔ لیکن اے محسن انسانیت۔

مجھے پہلا دھچکہ تب لگا جب اپنی طرف سے رحمت بن کر اپنے باپ کی گود میں پہلی دفعہ آئی تو اس نے ایک نخوت سے میری جانب دیکھا۔ میرا رحمت ہونے کا اعتماد اس کے مجھے بستر پر ایک حقارت سے پٹخ دینے کی ضرب سے چکنا چور ہو گیا۔ مجھے لگا میں زمانہ جاہلیت ہی میں آئی ہوں۔ یہاں ابھی کسی محمد رسول اللہ ﷺ کو آنا ہے۔ کائنات کی مقدس ترین چادر کو ایک بیٹی کے لیے زمین پر بچھانا ہے۔

میری روح کو دوسرا گھاؤ تب لگا جب میری ماں اندر ہی اندر سسکنے لگی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ اندر ہی اندر گھلنے کی بجائے میرے باپ سے چلا چلا کر کہے کہ اگر عورت اتنی ہی تیری مصنوعی غیرت اور انا کے خلاف ہے تو، تو ایک عورت سے پیدا کیوں ہوا۔ تو نے اپنے جیسا مرد پیدا کرنے کے لیے ایک عورت سے نکاح کیوں کیا؟ میری ماں چیخ چیخ کر اسے کہتی کہ ہاں میں ہی وہ عورت ہوں جس نے رسولوں اور پیغمبروں کو پیدا کیا۔ اور تو اور تیرے جیسے دل و دماغ پر جہل کے قفل لیے ہوئے یہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ خدا بے اپنا معجزہ حضرت عیسی  کو بن باپ کے پیدا کیا بن ماں کے نہیں۔ اگر بیٹی کوئی بوجھ ہوتی تو خدا نے اپنے حبیب کو چار بیٹیاں کیوں عطا فرمائیں۔ لیکن میری ماں ایک عورت ہو کر بھی اپنی ممتا کی ڈھال میں چھپا کر مجھے نہ بچا سکی۔ کاش وہ میرے باپ کی مجھ پر پڑنے والی پہلی حقارت بھری زہر آلود نگاہ کو اپنی نسائیت، اپنی ممتا پر ایک گالی تصور کر کے مزید گھٹ جانے اور سہم جانے کی بجائے اٹھ کھڑی ہوتی۔ لیکن اس کا ایک آنسو میرے چہرے پر پڑا تو خدا کی قسم اس دہکتے ہوئے بارود سے زیادہ درد ہوا جو میرے باپ نے کائنات کی تمام پدری شفقت کے سینے میں چھید کرتے ہوئے میرے جسم میں اتارا۔ میری ماں کا یہ ایک آنسو استبدادی معاشرے میں مجبوریوں کے سمندر کو عورت کی آنکھ کے کوزے میں بند کرنے پر مہر ثبت کر گیا۔ جغرافیائی روایات اور سماجی منافقانہ رویوں اور جاہلانہ روایتوں پر اسلام کی ملمع کاری کرنے والا انا پرست پدرسری سماج ایک عورت کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر تسکین پاتا ہے۔

ایک بیٹی زندگی کا پہلا احساس کمتری اپنی گھٹی میں لے کر ہوش کی آنکھ کھولتی ہے جب اسے یہ پتا چلتا ہے وہ بیٹے کی چاہت میں بادل نخواستہ قبول کی گئی ہے لیکن اب اسے اس نا کردہ جرم کے خراج کے طور پر سب سے پہلے اپنی خود اعتمادی گروی رکھنی پڑے گی اور پھر دوسرے درجے کی مخلوق کے طور پر جاہلانہ رسم و رواج اور فرسودہ روایات کی عمر قید کے لیے خود کو پیش کرنا ہو گا۔ اور اس کے بعد ہر نہج پر ہر موڑ پر وہ خود کو ان سنگلاخ بیڑیوں میں قید پاتی ہے۔

اور رہتی کسر سلامتی کے دین کی غلط تشریح کرنے والے اس کے نام نہاد علما نکال دیتے ہیں۔ جب وہ جغرافیائی مردانہ استبداد کو خدا کی رضا میں ملفوف کر کے پیش کرتے ہوئے عورت کے لیے اسے سہنا مشرقی روایات اور دین کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ نتیجتاً ایک ماں۔ ایک عورت یہ سن لیتی ہے کہ اگر بیٹی ہوئی تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن اپنی بیٹی کو بچا نہیں سکتی۔ کیونکہ وہاں قتل سے بڑا جرم عورت کا حق مانگنا ہے۔

جہاں ایک بیٹی کی مبارکباد بھی لوگ طعنے کی طرح دیتے ہیں۔ منافق لوگ زبان سے بیٹی کو رحمت کہتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہ سمجھتے ہیں نہ کرتے ہیں۔ اپنی جمعہ کی نمازوں میں اولاد نرینہ کی دعائیں کرنے والے۔ اور تو اور۔ غضب ہے۔ ظلم کی انتہا ہے۔ جہالت کے غلیظ پوتڑے۔ گندگی سے لبریز۔ بے حیا۔ کیسے کہوں۔ کس طرح کہوں۔ بیٹی پیدا ہونے کو مردانہ کمزوری کی علامت سمجھنے والے۔ میں ان باتوں کو سن کر۔ بہت مجروح ہوتی تھی روتی تھی۔ میری روح تڑپتی تھی۔ میں اپنی بساط میں چیختی چلاتی تھی۔ روتی تڑپتی تھی اور وہ لوگ سمجھتے تھے میں بھوکی ہوں۔ ہاں میں بھوکی تھی۔ اے حبیب خدا۔ میں بھوکی تھی مگر پیٹ کی نہیں۔ روح کی بھوکی۔ عزت و تحریم کی بھوکی۔ پدری شفقت کی بھوکی۔ ایک باپ کی آنکھوں میں محبت کی رمق دیکھنے کی بھوکی۔

اے سچے خدا کے سچے رسول۔ میں جس نے سات دن اس دنیا میں گزارے۔ سچ کہوں۔ تو۔ اس دربار میں سچ کے سوا کہا بھی کیا جائے۔ جھوٹ تو میں وہاں چھوڑ آئی۔ جہاں افسوس کے آپ کی سچائی کے چراغ تلے جھوٹ کا اندھیرا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سات دنوں میں جو کچھ میں نے دیکھا۔ میں اس کے بعد ذہنی و فکری گندگی سے لتھڑے ہوئے اس سماج میں زندہ رہنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے۔ اس لیے جب وہ میری طرف بڑھا لے تو میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ میں اسے خدا حافظ کہنا چاہتی تھی اس کی آنکھوں میں وحشت اور بڑھ گئی۔ میرا دل اس کے چہرے کو دیکھ کر تھوڑا پسیجا آخر بیٹی تھی۔ نفرت کے جواب میں بھی سراپا محبت۔ میں نے پورا زور لگا کر بابا کہنے کی کوشش کی۔ میرا دل چاہا کہ وہ مجھے سینے سے لگا کر ایک بار رخصت تو کر دے۔ مجھے لگا شاید میری آواز اس کے دل پر پڑا قفل کھول دے اور میرے حصے کی پدری شفقت اس کی آنکھوں میں عود کر آ جائے۔ مگر میں بھول گئی کہ یہاں بیٹیوں کو حصہ دینے کا رواج نہیں۔

اچانک زور دار آواز آئی میں شدید ڈر گئی۔ مجھے اپنے پہلو میں کچھ حرارت سی محسوس ہوئی میں مسکرائی خوشی سے نہال ہوئی۔ میں نے سوچا شاید یہ میرے باپ کی پدری شفقت کا لمس ہے جس نے مجھے یہ دھماکہ ہونے پر اچانک اپنی آغوش میں لے لیا۔ جیسے پرندے خطرے کی صورت میں اپنے بچوں کو پروں کے نیچے لے لیتے ہیں۔ لیکن میں بھول گئی کہ وہ تو۔ وہ تو حیوان ہوتے ہیں۔ ان میں اتنی درندگی تھوڑی ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو یوں۔ بہرحال یہ میرے باپ کے ہاتھوں کا لمس نہیں اس کے ہاتھ سے چلائی گئی گولی تھی۔

یہ خدا کی نام نہاد رحمت ایک بیٹی پر چلائی گئی پہلی گولی تھی جو  میری پسلیوں کے آر پار ہو گئی۔ ماں کی رگ جاں سے نو مہینے نچوڑا ہوا خون بہا۔ پھر اس نے دوسری گولی چلائی جو نہ جانے کہاں لگی کہ درد کی ایک شدید لہر نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔ ویسے تو میں جیتے جی اسی وقت اندر مر گئی تھی جب میرے باپ نے نوزائیدہ حالت میں نفرت سے مجھے پرے پٹخ دیا تھا۔ لیکن بہرحال روح اور جسم کا ساتھ باقی تھا۔ بیٹی ہونے کے جرم کی سزا کم ازکم پانچ بار سزائے موت تو بنتی تھی۔

پہلی گولی جغرافیائی روایات کے نام۔ دوسری گولی خود ساختہ غیرت کے نام۔ تیسری گولی عائلی جبر سہنے کو کار ثواب قرار دیتی مذہبی تفہیم کے نام۔ چوتھی گولی بیٹے کو بڑھاپے کا سہارا اور بیٹی کو پرایا دھن سمجھتے سماجی بیوپار کے نام اور پانچویں اور آخری گولی اس مردانہ طاقت کے نام جس کے اس بدبودار جوہڑ نامی معاشرے میں خود کو منوانے کے لیے بیٹا پیدا کرنا ضروری ہے۔ وگرنہ بیٹی پیدا ہونے کی صورت میں اسے قتل کر کے فرار ہونا مردانگی کی شان ہوتی ہے۔

یہ کہہ کر یہ ننھی روح اپنی سہیلی کی طرف بڑھتی ہے۔ جو زار و قطار رو رہی ہوتی ہے۔ وہ اسے گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے کہ۔ میں غلط کہتی تھی۔ ننھی آگے سے جواباً کہتی ہے کہ نہیں تم ٹھیک کہتی تھیں۔ پیغمبر ﷺ کے نہ ماننے والے باپ زندہ درگور کرتے تھے۔ لیکن انہیں ماننے والے گولیاں مارتے ہیں کیونکہ زندہ درگور کرنے سے درد نہیں ہوتا صرف دم گھٹتا ہے۔ گولیاں مارنے سے خون بہتا ہے درد ہوتا ہے زخم لگتا ہے۔ تب جا کر بیٹی ہونے کی سزا کی تکمیل ہوتی ہے۔

لیکن وعدہ کرو مجھے زمین کی طرف دیکھنے کے لیے کبھی نہیں کہو گی۔ کیونکہ مجھ سے میری ماں کے آنسو کبھی دیکھے نہیں جائیں گے۔ جس کی بیٹی پیدا کرنے کی سزا نہ جانے کب ختم ہو گی۔ نہ جانے کب؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments