سنہ 1986 میں وزیر اعلیٰ نواز شریف تحریک عدم اعتماد سے کیسے بال بال بچے؟


آج کل وطن عزیز میں تحریک عدم اعتماد کے خوب چرچے ہیں۔ میڈیا ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاکستان کے سابق وزرائے اعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریکوں کی تاریخ اور اس کی کھوج کاری میں مصروف ہے۔ ہمارے ہاں ایس قسم کی عدم اعتماد تحریکیں کس طرح، اور کس کے ایما پر لائی جاتی ہیں۔ اور انہیں کامیابی یا ناکامی سے کیسے انجام پذیر کیا جاتا ہے۔ اس سے تاریخ و سیاست سے دلچسپی رکھنے والے سبھی صاحبان علم واقف ہیں۔

مجھے 1985 ء کے دن خوب یاد ہیں جب ملک میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے تھے۔ اس کے نتیجے میں مرکز میں پیر پگاڑا کے حامی محمد خاں جونیجو، اور پنجاب میں میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ ابھی ان غیر جماعتی اسمبلیوں کو (جنھیں بعد میں جونیجو لیگ کا چوغہ پہنا دیا گیا تھا) چلے ایک سال ہی ہوا تھا کہ پنجاب میں پیر پگاڑا سمیت بعض پس چلمن کرداروں کی آشیرباد سے نواز شریف کی حکومت کو نہ صرف کمزور بلکہ چلتا کرنے کے لیے اندرون خانہ سازشوں کا آغاز کر دیا گیا۔ اور اس وقت بھی چوہدری پرویز جو وزیر بلدیات تھے کو میاں نواز شریف کے خلاف شہ دی گئی۔ انہی دنوں پیر پگاڑا کا مشہور زمانہ بیان بھی آیا کہ ”ہم نے بوری میں سوراخ کر دیا ہے، اب دانے گرتے رہیں گے“

آج سے 36 سال پہلے میاں نواز شریف کے خلاف ان کی حکومت کو الٹانے کی اس منظم سازش کا علم کیسے ہوا؟ اور پھر پنجاب میں بیوروکریسی کے اس وقت کے تین اہم کرداروں نے اسے ناکام کیسے بنایا۔ یہ ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔

وہ تینوں کردار آج اس دینا میں نہیں ہیں۔ ان کرداروں میں سپیشل برانچ پنجاب کے اس وقت کے سربراہ سردار محمد چوہدری، جو بعد ازاں آئی جی پنجاب بھی رہے۔ حاجی محمد اکرم (ہوم سیکرٹری) اور ڈاکٹر محمد صفدر شامل تھے۔

ہماری بنتی بگڑتی سیاسی تاریخ کے اس وقت ہوئے ان واقعات میں انہی کرداروں میں سے ایک کردار سردار محمد چوہدری کی زبانی سنتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ”جہان حیرت“ کے نام اپنی خود نوشت لکھی۔ جس کے باب 25 اور صفحہ نمبر 287 تا 292 پر ان دلچسپ اور تاریخی واقعات کو نواز شریف کے خلاف گٹھ جوڑ، دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف اور جنرل ضیا غیر جانبدار بن گئے، کے عنوان سے لکھا ہے۔ آئیے انہی کی زبانی یہ قصہ سنتے ہیں۔

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

” جولائی 1986 ء میں ملک وارث جو ایک ریٹائرڈ ایس پی تھے۔ یہ خبر لائے کہ پنجاب کے وزیر بلدیات چوہدری پرویز الہی کی پیٹھ ٹھونکی جا رہی ہے کہ وہ نواز شریف کی جگہ لینے کے لیے میدان میں آجائیں۔ وارث کو یہ بات چوہدری تجمل حسین ( ایم این اے ) نے بتائی تھی، جو چوہدری پرویز الہی کے قریبی رشتہ دار تھے۔ چوہدری شجاعت حسین ان دنوں وفاقی کابینہ میں شامل تھے۔ ظہور الہی خاندان ؛ پنجاب میں سیاسی لحاظ سے بہت مضبوط سمجھا جا تا تھا۔ چوہدری پرویز الہی کو مسلم لیگ کے صدر جونیجو  کے مرشد خاص پیر پگاڑا کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔ میاں صاحب کے دیگر مخالفین اور جاگیر دار بھی وقت آنے پر پرویزالہی کی حمایت کے لیے تیار ہو گئے۔

سیاسی منظر واقعی بڑا بھیانک تھا۔ نواز شریف ایک معصوم فاختہ کی طرح لگتے تھے جس پر بھوکے باز اپنے تیز پنجوں کے ساتھ جھپٹنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ میں نے سپیشل برانچ (پنجاب) کے سربراہ کی حیثیت سے حاجی اکرم (ہوم سیکرٹری) کو معاملہ سے آگاہ کیا۔ وہ بہت پریشان ہوئے۔ کیونکہ ایسا گٹھ جوڑ جمہوری نظام کے لیے ضرر رساں ثابت ہو سکتا تھا، جو انہی دنوں بحال ہوا تھا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ میں وزیر اعلیٰ کو پرویز الہی کی متوقع بے وفائی سے آگاہ کروں اور بتاؤں کہ اس کے بعد مخدوم الطاف احمد ( وزیر خزانہ ) اور پھر دوسرے وزرا بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

میں نے ان سے پوچھا۔ ”کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ میں پہلے اس خبر کی مزید تصدیق کر لوں، سازش کی گہرائی کا تعین کرنے کے بعد وزیر اعلی کو مطلع کروں؟“

”ٹھیک ہے ایسا کرنا بہتر ہو گا تا ہم آپ کو پھرتی سے کام کرنا چاہیے مبادا وقت ہاتھ سے نکل جائے“ ۔ انہوں نے جواب دیا۔

میرے دیگر ذرائع سے موصول شد خبر کی تصدیق ہو گئی۔ حاجی اکرم نے بھی اپنے آزاد ذرائع ای طرح کی تصدیق حاصل کر لی۔ میں نے ہر ضلع میں سیاسی گروپ بندیوں اور فریقین کے مابین محاذ آرائی کی صورت میں متوقع صف بندیوں کا تجزیہ مرتب کیا۔ پوری طرح باخبر ہونے کا مطلب تھا کہ وہ پوری طرح تیار ہیں۔ کسی واقعہ پر ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے اس کی بابت قبل از وقت سو چنا اور پیش بندی کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ میں نے صوبہ بھر کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے گروپ اور رشتہ داریاں ظاہر آنے والے چارٹس تیار کیے۔

تمام اضلاع میں ایک دوسرے کے مخالف جاگیردار اور سیاسی خاندان موجود تھے جو ہمیشہ ار پکار رہے تھے۔ میرے تجزیہ میں یہ بات کہی گئی تھی کہ میاں صاحب واحد لیڈر ہیں جو اس طرح کے ان عناصر کو غیر جماعتی ایوان میں اکٹھا رکھ سکتے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی زیادہ سے زیادہ ہر ضلع میں ایک گروپ یا ایک آدھ ایم پی ایز کو تو توڑ سکتے ہیں۔ دوسرا گروپ لازما ان کی مخالفت کرے گا۔ اس طرح نواز شریف جو سیاست میں نو وارد ہیں کسی پیشگی صف بندی کے بغیر زیادہ سے زیادہ ایم پی ایز کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

جنرل ضیاء غیر جانبدار بن گئے

میاں صاحب شروع میں یہ بات مانے کو تیار نہیں تھے کہ چوہدری پرویز الہی ان کے خلاف جوڑ توڑ میں شریک ہیں، اگر چہ انہیں اپنے سیاسی ذرائع سے اپنے خلاف بعض اقدامات کی اطلاعات مل چکی تھیں۔ وہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے جوابی اقدامات کرنے لگے۔ حاجی اکرم نے وزیراعلی کو مشورہ دیا کہ جنرل ضیا کی حمایت حاصل کی جائے، لیکن میں خاموش رہا۔

واپسی پر میں نے حاجی اکرم سے کہا کہ جنرل ضیا اپنا آپشن کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ قبل از وقت قدم نہیں اٹھائیں گے۔ کیونکہ وہ ایک انتہائی پراسرار کھیل کھیل رہے ہیں۔ جنرل صاحب پنجاب کے وزیر اعلی کو وزیر اعظم کا توڑ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کھل کر اس کی حمایت کریں گے جو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔ مجھے یہ بات ”سیاسی لوگ“ کے ایڈیٹر رائے سعید ایم پی اے اور جنرل ضیا کے بہنوئی ڈاکٹر بشارت الہی کے ذریعے معلوم ہوئی تھی۔

”آپ نے میاں صاحب کو یہ بات کیوں نہیں بتائی؟“ حاجی اکرم نے مجھ سے سوال کیا۔ ”اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ہمت ہار بیٹھتے۔ انہیں سیاسی طور پر کامیابی حاصل کرنے دیں۔ اس عمل سے گزریں گے تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں گے مزید برآں اس وقت صدر کے رویہ کی بابت کوئی قیاس آرائی کرنا اپنی بریفنگ کو خود خراب کرنے والی بات ہوگی جو خطرہ سے خالی نہیں“ ۔ حاجی صاحب نے میری رائے سے اتفاق کیا۔

چند دن بعد چوہدری پرویز الہی اقتدار کے لیے قسمت آزمائی کرنے کی غرض سے کھل کر سامنے آ گئے۔ اسمبلی چیمبر میں میری ان سے ملاقات ہوئی تو مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے، ”آپ نواز شریف کا اس طرح کھل کر اور ثابت قدمی سے کیوں ساتھ دے رہے ہیں؟ جب کہ اگلے چند دنوں میں ان کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے۔ ہر شخص میرے ساتھ ہے کوئی بھی ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ بریگیڈئیر قیوم میری حمایت کرنے کے لیے ایبٹ آباد سے آ رہے ہیں۔ آپ تذبذب میں کیوں پڑے ہوئے ہیں؟“

”کیونکہ وہ وزیراعلی ہیں اور انہیں باخبر رکھنا میری ذمہ داری ہے۔ میں صرف اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ میں نہ تو اپنے فرائض سے تجاوز کر رہا ہوں نہ ہی کسی کی طرفداری۔ میرے خیال میں میاں صاحب کسی طور پر شکست نہیں ہوگی۔ آپ ان کے ساتھ اپنے دیرینہ خوشگوار تعلقات کیوں خراب کر رہے ہیں؟“

میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ دو ٹوک جواب دیا۔ انہیں یہ بات اچھی نہیں لگی، کہنے لگے۔ ”حاجی اکرم، ڈاکٹر صفدر محمود اور آپ صرف تین افسر ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ اپنی سیٹ پر قائم رہیں گے۔“

” ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ تا ہم صورت حال کے بارے میں ہمارا قیاس یہی ہے۔“ میں نے ان کو صاف اور کھری بات بتا دی۔ اس کے بعد بھی میں ان کے ساتھ خلوص سے پیش آتا رہا۔

بریگیڈیر قیوم واقعی ایبٹ آباد سے آئے اور صباح الدین جامی ( آئی جی) کے ہاں قیام کیا۔ انہوں نے فریقین کے مابین صلح کرانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ صورت حال بلا شبہ غیر یقینی تھی۔ دونوں طرف سے بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا اور جھوٹی افواہیں پھیلائی جاری تھیں۔ ہر فریق ناشتہ، لنچ یا ڈنر کا اہتمام کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا تھا، جبکہ بعض اراکین اسمبلی نے دونوں طرف ضیافتیں اڑائیں۔ یہ سوچ بتدریج غالب آنے لگی کہ پرویز الہی بازی جیت جائیں گے۔ کیونکہ وہ سیاسی پس منظر رکھتے تھے اور طاقتور لابیاں ان کی حمایت کر رہی تھیں۔ لیکن میں اپنی رائے پر قائم رہا۔

اکتوبر 1986 ء میں اسمبلی کا اجلاس عمومی امور کے لیے بلایا گیا۔ اگر اسمبلی حکومت کے حق میں اکثریت کا اظہار کے بغیر ملتوی کر دی جاتی تو شر پسند غیر یقینی صورت حال کا بھر پور فائدہ اٹھاتے۔ غیر جمہوری قوتیں خاموشی سے صورت حال کا جائزہ لے رہی تھیں اور حاجی اکرم نے نوزائیدہ جمہوریت کو نقصان پہنچے کا جو خدشہ ظاہر کیا تھا وہ بلا جواز نہیں تھا۔

حاجی اکرم اور میں نے ڈاکٹر صفدر محمود کے ساتھ صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ نواز شریف کو سیشن کے آخری روز اعتماد کا ووٹ حاصل کر لینا چاہیے تاکہ غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو سکے اور ان کے خلاف جو مہم چل رہی ہے وہ دم توڑ جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بارے میں وزیراعلیٰ کے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے بات کی تو انہوں نے اس رائے کی مخالفت کی اور خدشہ ظاہر کیا کہ ایسا قدم نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

بہر حال ہماری پختہ رائے یہی تھی کہ مسئلہ کا واحد حل اعتماد کا ووٹ ہے۔ وگرنہ ایم پی ایز کو پروپیگنڈا کے جوڑ توڑ سے گمراہ کیا جا سکتا ہے، جب وہ کسی ایک مقام پر اکٹھے نہ ہوں۔ ہم نے وزیراعلی سے بات کی۔ میں نے اپنا تجزیہ تحریری طور پر پیش کر دیا۔ جس میں نشان دہی کی گئی تھی کہ 260 کے ایوان میں ان کی پارٹی کے زیادہ سے زیادہ 18 ارکان ان کے خلاف ووٹ دیں گے۔ اس لیے انہیں ڈرنے یا فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

وزیر اعلی نے 23 اکتوبر کو انتہائی جذباتی تقریر کے بعد اعتماد کا ووٹ مانگا۔ ایوان میں موجود مسلم لیگ کے جملہ اراکین اسمبلی نے، ماسوائے پانچ کے بلند آواز اور پر جوش نعروں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ یوں میاں صاحب نے ایوان کا اعتماد حاصل کر کے اپنے سیاسی مستقبل کو بچایا۔

نواز شریف نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے ذاتی اثر و رسوخ اور انتظامیہ کو استعمال کیا۔ انہوں نے ایم پی ایز کو خوش رکھنے کے لیے انہیں ترقیاتی فنڈز دیے۔ تبادلوں اور تعیناتیوں میں ان کی خواہش کا احترام کیا اور بہت سے طریقوں سے نوازا، تاہم جبر اور دباؤ ڈالنے کے لیے پولیس سے کام نہیں لیا۔ اس طرح وہ اس تباہی سے بچ گئے جو بھٹو نے شیطان صفت اور بداندیش پولیس افسروں کے مشورہ پر عمل کر کے خود پر مسلط کر لی تھی۔ حاجی اکرم کا مشورہ بالکل درست ثابت ہوا کہ اس نوع کے اثر و رسوخ سے گریز کریں۔ سچائی کامیابی کا واحد راستہ ہے، شاطرانہ چالیں نہیں۔

جنرل ضیا اعتماد کے ووٹ کی کارروائی کے ایک ہفتہ بعد لاہور کے دورہ پر آئے تو انہوں نے یہ کہہ کر نواز شریف کی علانیہ حمایت کا اعلان کیا کہ ”ان کا کلہ بڑا مضبوط ہے“ ۔ جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ نواز شریف کو ان کی ٹھوس پشت پناہی حاصل ہے۔ انہوں نے بڑے پراسرار انداز میں یہ بھی کہا کہ پیر پگاڑا اور محمد خان جونیجو نواز شریف کو ان کی جگہ سے ہٹانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

جس وقت ضیا وزیر اعلی کو مبارکباد دے رہے تھے، حاجی اکرم نے بڑی معنی خیز اور شوخی آمیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ نواز شریف کے خلاف کتنی گہری سازش کی گئی تھی اور انہیں اس سے کس طرح بچایا گیا۔ یہ صرف ہمیں جانتے ہیں۔ شاید میاں صاحب کی شرافت اور خلوص نیت نے ان کے اقتدار کو بچا لیا۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ وہ چوہدری پرویز الہی کے ساتھ جلد ہی اس طرح شیر و شکر ہو گئے جیسے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments