پیشاب کی نالی میں انفیکشن یا یو ٹی آئی: خواتین کے لیے گھر سے باہر ٹوائلٹ استعمال کرنا بھی مسئلہ اور اسے روک کر رکھنا بھی

کومل فاروق - بی بی سی اردو، اسلام آباد


پاکستان، خواتین، صحت، ٹوائلٹ

اگر آپ ایک عورت ہیں تو یقیناً گھر سے نکلنے سے پہلے آپ یہ اندازہ لگاتی ہوں گی کہ کتنا پانی پیا جائے کہ گھر واپس آنے تک بیت الخلا جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ یا پھر راستے میں بھلا ایسا کون سا ریستوران، بس سٹاپ یا پارک آتا ہے جہاں ٹوائلٹ کے مناسب اور صارف ستھرے انتظامات موجود ہوں۔

کبھی کبھار جب یہ اندازے غلط ہو جائیں اور مجبوری میں پبلک ٹوائلٹ استعمال کرنا پڑ جائے تو یو ٹی آئی یا پیشاب کی نالی میں انفیکشن کی شکل میں ایک مرض ہم خواتین کی زندگی کچھ دنوں کے لیے عذاب بنا دیتا ہے۔

چند ہفتوں پرانی بات ہے۔ میں دفتر پہنچی اور میری حالت خراب ہو گئی۔ مجھے لگا کہ شاید اپینڈکس پھٹ گئی ہے، وہ تکلیف ناقابلِ برداشت تھی۔ ایمرجنسی روم جا کر ٹیسٹ کروانے پر پتا چلا کہ مجھے سِسٹائٹس یا مثانے میں سوجن اور انفیکشن ہوئی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا پہلا سوال یہی تھا کہ ’آپ نے کوئی پبلک باتھ روم تو استعمال نہیں کیا؟‘

میں دل ہی دل میں خود کو کوس رہی تھی۔ ڈاکٹر نے ایک اور سوال پوچھا ‘کیا آپ نے پیشاب روک کر رکھا تھا؟’

میں نے ہاں میں سر ہلا تو دیا مگر یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کروں تو کیا کروں، جاؤں تو کہاں جاؤں۔ گھر سے باہر پیشاب کرنا بھی مسئلہ اور اسے روک کر رکھنے سے بھی مسئلہ۔

ٹوائلٹ کی تلاش میں نامناسب صفائی تو کہیں خفیہ کیمروں کا ڈر

اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ٹوائلٹ اور پانی کی سہولت نہ ہونے سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ خواتین کے لیے صاف ٹوائلٹ کا انتظام نہ ہونا ایک ایسا مسئلہ ہے جو پاکستان بھر میں گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو متاثر کرتا ہے۔

سارہ ظفر کراچی کی ایک این جی او میں کام کرتی ہیں اور کام کے سلسلے میں انھیں اندرون سندھ سفر کرنا پڑتا ہے۔

سارہ نے مجھے بتایا کہ پچھلے سال سخت گرمی کے موسم میں وہ شکارپور گئیں۔ چونکہ ان کا تعلق لاہور سے ہے تو وہ وہاں پہنچ کر خوش ہوئیں اور کسی سیاح کی طرح شام کو اپنے دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ شہر کی سیر کو نکل پڑیں۔

سب نے اپنے من پسند مشروبات پیئے اور پھر اچار کی خریداری کے لیے دکانوں کا رُخ کیا۔ سارہ کو ٹوائلٹ جانا تھا تو اپنے تئیں انھوں نے ٹوائلٹ کی تلاش شروع کی لیکن انھیں خواتین کے لیے ٹوائلٹ کا کوئی مناسب انتظام نظر نہیں آیا۔ شرم کے مارے وہ اپنے مرد کولیگز کو بتا بھی نہیں پائیں۔

بلآخر صبر کے سب باندھ ٹوٹ گئے اور سارہ نے کہا کہ کسی پیٹرول سٹیشن کے ٹوائلٹ پر رکا جائے۔ انھوں نے مجھے ٹوائلٹ کی جو حالت بتائی، اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

سارہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے ماہواری کے دوران سفر کرنا اور بھی مشکل ہوتا ہے۔

یہ کہانی صرف سارہ یا میری نہیں ہے۔ بی بی سی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر خواتین سے یہ سوال پوچھا اور جوابات سے ہمیں مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔

کرن اشفاق کراچی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔

وہ لکھتی ہیں کہ ’میں کم پانی پینے کی وجہ سے اکثر پیشاب کی نالی میں انفیکشن کا سامنا کرتی ہوں کیونکہ ہسپتال میں ایک بھی قابل قبول ٹوائلٹ نہیں۔‘

علی رضا کہتے ہیں کہ ان کے پرائمری سکول میں ٹوائلٹ کا انتظام نہیں تھا اور رفع حاجت کے لیے بچوں کو گھر بھیجا جاتا تھا۔ ایک بار سکول سے گھر جاتے ہوئے ان کی چھوٹی بہن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔

فریحہ کنول اس ڈر سے پبلک ٹوائلٹ استعمال نہیں کرتیں کہ وہاں کوئی خفیہ کیمرا نہ لگا ہو۔

صدف خان کے دفتر میں ایک ہی ٹوائلٹ ہے جسے مرد اور خواتین دونوں استعمال کرتے ہیں اور اس کی حالت کی وجہ سے صدف اسے استعمال کرنے سے اجتناب کرتی ہیں۔

پانی، خواتین، صحت، پیشاب
ماہرین کی رائے میں ہمیں ایک دن میں کم از کم چھ سے آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے

ایک دن میں کتنا پانی پیا جائے اور پیشاب روکنے کے کیا نقصانات ہیں؟

صارفین کے کمنٹس پڑھ کر میں نے یورولوجسٹ ڈاکٹر ایاز خان سے کچھ سوالات کیے۔ ایک دن میں کتنا پانی پینا چاہیے، یہ سب سے زیادہ پوچھے جانے والے سوالات میں سے ایک ہے۔

ڈاکٹر ایاز خان کے مطابق:

  • ایک بالغ انسان کو دن میں ڈیڑھ سے دو لیٹر پیشاب کرنا چاہیے۔ اس حساب سے اسے ڈیڑھ سے دو لیٹر یعنی چھ سے آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے۔
  • گرمی میں سردی کی نسبت زیادہ پانی پینا چاہیے کیونکہ انسانی جسم سے سانس، پسینے، پیشاب اور پاخانے کی شکل میں پانی کا اخراج ہوتا ہے۔
  • جن لوگوں کو انفیکشن ہوتی ہے یا گردے میں پتھری کی شکایت ہوتی ہے، انھیں کم از کم دو لیٹر تک پانی پینا چاہیے۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ پیشاب روکنے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے مثانہ ضرورت سے زیادہ پیشاب سٹور کرنا شروع کر دیتا ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر مثانہ خود کو خالی نہیں کر پاتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کنوارپن بحالی کا آپریشن: ’مجھے لگا یہی ایک طریقہ ہے جس سے میں پہلے کی طرح ہو سکتی ہوں‘

کیا پیراسیٹامول کا طویل مدت تک استعمال دل کے لیے اچھا نہیں؟

بیٹے کی خواہش، عامل کے کہنے پر سر میں کیل ٹھونکنے والی خاتون کے خاندان کا سراغ مل گیا

’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘

خواتین

وہ مزید بتاتے ہیں کہ پیشاب روکنے سے سرجری یا ذیابیطس جیسی وجوہات کے بغیر ہی مثانے کی پیشاب کنٹرول کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور وہ کمزور ہو جاتا ہے۔

خواتین کو یو ٹی آئی یا پیشاب کی نالی کا انفیکشن کیوں ہوتا ہے؟

پیشاب سے متعلق بیماریوں کے ماہرین بتاتے ہیں کہ:

  • خواتین میں مردوں کے مقابلے میں یو ٹی آئی زیادہ ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پیشاب کی نالی چھوٹی ہوتی ہے۔ اسی لیے پبلک ٹوائلٹ استعمال کرنے سے خواتین کو فوراً انفیکشن ہو جاتا ہے۔
  • خواتین کے اندام نہانی اور فضلہ خارج کرنے کی جگہ کے درمیان فاصلہ کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے بیکٹیریا یا انفیکشن باآسانی پیشاب کی نالی تک پھیل سکتی ہے۔
  • خواتین میں یو ٹی آئی کی شکایت موروثی بھی ہو سکتی ہے یعنی اگر کسی خاتون کی والدہ کو یو ٹی آئی کی شکایت رہتی ہو تو مستقبل میں ان کی بیٹی کو بھی یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیشاب کی نالی میں بیکٹیریا آسانی سے چپک جاتے ہیں۔
  • بڑی عمر کی خواتین میں یو ٹی آئی کی ایک وجہ ہارمونز کی کمی بھی ہے جس کی وجہ سے زخم جلدی بنتے ہیں۔
  • جنسی تعلق کی وجہ سے بھی یو ٹی آئی ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

خواتین یو ٹی آئی سے کیسے بچ سکتی ہیں؟

  • چھ سے آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے
  • پیشاب روکنا نہیں چاہیے
  • پیشاب یا پاخانے کے بعد آگے سے پیچھے کی جانب صفائی کریں اور پانی کا بہاؤ بھی ایسے ہی رکھیں تاکہ فضلے کا بیکٹیریا یا انفیکشن پیشاب کی نالی میں داخل نہ ہو

کب ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے؟

  • پیشاب کی نالی میں تکلیف یا جلن محسوس کرنے پر
  • اگر بار بار یعنی دو تین ماہ میں ایک بار یو ٹی آئی ہو
  • ڈاکٹر سے رجوع کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ انفیکشن گردوں تک پھیل سکتا ہے
  • اپنی مرضی سے اینٹی بائیوٹکس کا استمعال نہ کریں کیونکہ اس سے بیکٹیریا کی قوتِ مدافعت بڑھ جائے گی اور مستقبل میں یو ٹی آئی کا علاج کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments