سوہنی مہینوال کا قصہ


ویکھ چھلاں پیندیاں نا چھڈیں دل وے، ( اے میرے مانجھی دریا کے اچھلتے بہاؤ کو دیکھ کر دل مت چھوڑو)
ہاں لے کے ٹھل وے ( ہاں کشتی کو لے کر آ گے چلو)
اج مہینوال نوں میں جانا مل وے۔ ( آ ج میں اپنے مہینوال کو مل کے رہوں گی)
ہاں ایہہ ای دل وے ( میرا دل یہی کہتا ہے )
یار نوں ملے گی اج لاش یار دی ( محبوب کو آ ج اپنے محبوب کی لاش ملے گی)
گھڑیا گھڑیا ہاں وے گھڑیا ( اے گھڑے )

گھڑے سے متعلق یہ تمام اشعار ہمارے تخیل کو پنجاب کی رومانوی لوک داستان ”سوہنی مہینوال“ کی طرف لے جاتے ہیں۔ جس کے مطابق سوہنی ایک بہت خوبصورت دوشیزہ تھی جس کا جنم اٹھارہویں صدی میں گجرات کے کمہاروں کے ہاں ہوا اور جو بخارا کے ایک بڑے تاجر خاندان کے صاحبزادے عزت بیگ کے ساتھ دل لگا بیٹھی۔ عزت بیگ جو بعد میں اپنی خاندانی تجارت چھوڑ کے سوہنی کی خاطر اس کے باپ عطا اللہ کمہار جو تلا کمہار کہلاتا تھا کے ہاں ملازم ہوا اور اس کی بھینس چرانے لگا اور اسی نسبت سے مہینوال مشہور ہوا ( پنجابی میں بھینس کو مجھ یا مینہہ بھی کہتے ہیں اور مہینوال کا مطلب ہے بھینسوں والا ) ۔

عزت بیگ پہلے پہل تو گھڑوں اور مٹی کے دیگر برتنوں کا خریدار بن کے سوہنی کے باپ تلا کمہار کے ہاں آ نے جانے لگا تھا جس کے پس پردہ سوہنی کو ایک نظر دیکھ لینے کی خواہش ہوتی تھی مگر جلد ہی سوہنی کے قرب و جوار میں یہ بھانپ لیا گیا تو سوہنی کے باپ نے اس کی شادی دریائے چناب ”چناں“ کے دوسرے پار اپنی برادری میں کردی سوہنی کی شادی کے بعد مہینوال نے ملازمت چھوڑ دی اور جوگ اختیار کر کے دریا کے کنارے ایک کٹیا بنائی اور اس میں رہنے لگا۔

ان کے بیچ اب چناب آ گیا تھا اور محبت کی خاطر اسے پار کرنا بھی ضروری تھا۔ سو مہینوال نے کچھ اس لیے بھی دریا کے کنارے رہائش اختیار کی۔ وہ روزانہ رات کو چناب پار کرتا اور سوہنی کو ملنے پہنچ جاتا۔ وہ روز پہلے مچھلیاں پکڑتا انہیں بھونتا اور پھر سوہنی کے لیے دریا پار کر کے لے جاتا اور دونوں مل کر کھاتے کیونکہ سوہنی کو مچھلی بہت پسند تھی۔ اور مہینوال کو سوہنی کے بغیر کچھ بھی کھانا گوارا نہ تھا۔ ایک رات ایسا ہوا کہ باوجود تلاش بسیار مہینوال کے کانٹے میں کوئی مچھلی نہیں اٹکی تو اس نے سوہنی کی خاطر اپنی ران کا گوشت کاٹا اسے بھونا اور ساتھ لے گیا۔

مگر اس دوران خون کے زیادہ بہاؤ نے اسے نڈھال کر دیا اور سوہنی کے سامنے اس کا پردہ فاش ہو گیا۔ اس پہ سوہنی بہت روئی اور اس نے مہینوال سے قسم لی کہ اب وہ اس سے ملنے نہیں آئے گا بلکہ سوہنی دریا پار کر کے اس سے ملنے جایا کرے گی۔ اب سوہنی نے یہ طریقہ نکالا کہ رات کو ایک پختہ گھڑے پہ دریا پار کرتی اور اپنے مہینوال کو مل آتی۔ تھوڑا ہی عرصہ یہ سلسلہ چلا تھا کہ سوہنی کی نند کو خبر ہو گئی کہ وہ رات کو پکے گھڑے پہ دریا پار کر کے کسی کو ملنے جاتی ہے تو اس نے سازش کی اور رات چپکے سے پکے گھڑے کو کچے گھڑے کے ساتھ تبدیل کر دیا۔

اس رات چناب بھی چڑھا ہوا تھا سوہنی نے گھڑا اٹھایا اور خود کو لہروں کے حوالے کر دیا۔ گھڑا کچا تھا۔
کچی میری مٹی کچا میرا نام نی
ہاں میں ناکام نی ( میں ناکام ہوں کیونکہ میری ذات صفات سب ناپختہ ہے )
کچیاں دا ہوندا کچا انجام نی
ایہہ گل عام نی ( ناپختہ لوگوں کا انجام بھی کچا ہی ہوتا ہے اور یہ بات عام ہے )
کچیاں تے رکھیے نا امید پار دی ( خام سے امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ پار لگائے گا)
رات ہنیھری ندی ٹھاٹھاں مار دی ( رات بہت تاریک ہے اور ندی ٹھاٹھیں مار رہی ہے )

اور پھر کچے پہ بھروسا کرنے کا انجام یہ ہوا کہ سوہنی چناب کے چھلاں مارتے پانی میں ڈوب گئی۔ دوسری طرف مہینوال رات بھر انتظار کرتا رہا اور فجر کے وقت جب اس نے سوہنی کی لاش تیرتی ہوئی دیکھی تو اس نے بھی پانی میں چھلانگ لگا دی اور محبت کی اس داستان کو امر کر دیا۔

روایت ہے کہ ان دونوں کی میتیں دریا کے ساتھ بہتی ہوئی دریائے چناب پر باندھے گئے حفاظتی بن سے ایک ایکڑ پرے بدر رانجھا سے برآمد ہوئیں جو کہ تحصیل کوٹ مومن کا گاؤں ہے۔ وہیں ان دونوں کا مزار ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سوہنی مہینوال کا قصہ سب سے پہلے شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ”شاہ جو رسالو“ میں لکھا اور وہاں سے یہ مقبول ہوتے ہوتے پنجاب کی بھی لوک کہانی بن گئی اور اس وقت سندھ اور پنجاب دونوں میں یکساں مقبول ہے۔ بعد میں ”فضل شاہ سید“ نے اپنے طویل منظوم پنجابی قصے ”سوہنی مہینوال“ کے ذریعے اس کا اعادہ کیا۔

سائیں رفعت عباس کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کمہاری کو پتا نا چلے کہ آج گھڑا پکا ہے یا کچا۔ سوہنی کو غیرت کے نام پہ دریا برد کیا گیا تھا۔ اور ہیر کو بھی غیرت کے نام پہ زہر دیا گیا تھا۔ دیکھیں تو یہ بات سچ لگتی بھی ہے اور نہیں بھی۔

نہیں اس لیے کہ ”گوندل بار“ میں بہن بیٹی اگر محبت کی خاطر بھاگ کر شادی کر بھی لے تو اکثر اوقات اسے معاف کر دیا ہے۔

اس وقت ضلع سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر ”محمد اصغر صاحب“ اور اسسٹنٹ کمشنر کوٹ مومن ”مس علیزہ ریحان“ سوہنی مہینوال کے مزار کی تزئین و آرائش کی طرف خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک ڈاکومنٹری کا پلان بھی کر رہے ہیں۔

جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments