عدم اعتماد تحریک، گالم گلوچ اور ڈی چوک


مارچ 2022 ع کے بعد اپریل 2022 ع میں نئے پاکستان سے پرانے پاکستان میں واپسی ممکن ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کی حکومت آخری سسکیاں لے رہی ہے۔ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک میں کامیابی کے لئے 190 سے زائد ممبران کی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کر لیا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد 6 ماہ کے لئے اپوزیشن اپنی مخلوط حکومت بنائے گی اور پنجاب میں بھی تبدیلی لائی جائے گی۔ 6 ماہ کے بعد عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا جائے گا اور یوں 2023 تک پاکستان میں عام انتخابات ہو جائیں گے۔

عمران خان کی حکومت جن نعروں پر اقتدار میں آئی اور بری طرح ناکام ہو کر رہ گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مولانا فضل الرحمان نے 26 مارچ جلسے اور کراچی سے اسلام آباد تک آزادی لانگ مارچ کر کے نہ صرف کمر توڑ دی تھی بلکہ حکومت کو آگے بڑھنے ہی نہ دیا۔ مولانا نے وزیراعظم کو الجھا کر رکھ دیا۔ حکومت کو 2019 میں ہی ختم کرنے کی باتیں ہو رہی تھی مگر پھر بھی عمران خان دو ڈھائی سال نکالنے میں کامیاب ہوا۔ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ پونے چار وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے ہیں۔

خان صاحب کو 2018 ع کے انتخابات کے بعد جس طرح کا موقعہ ملا وہ چاہتے تو پاکستان میں مکمل تبدیلی نہ ہی سہی کوئی ایک دو اچھے کام کر جاتے۔ کسی ایک محکمہ کو ٹھیک کر جاتے۔ جس طرح تحریک انصاف اس کی جماعت کا نام ہے وہ اگر عدل انصاف کے حصول کے لئے کام کرتے تو دعائیں ملتی۔ عمران خان سب سے زیادہ احتساب کی بات کرتے تھے مگر اقتدار میں آنے کے بعد احتساب کی جگہ انتقام پر عملدرآمد دیکھنے کو ملا۔ اپنے مخالفین کو جس طرح نیب کو استعمال کیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہی ہے۔

نیب کو انتقام کے لئے استعمال کر کے اپنی حکومت کو تقویت لینے میں تو کامیاب رہا مگر اس کے احتساب سے انتقام کی بو آنے لگی۔ کرپشن ختم کرنے کے بجائے سب سے زیادہ کرپشن ان تین چار سالوں میں دیکھی گئی۔ عمران خان کا جو عدل انصاف اور کرپشن کے خاتمے کا نعرہ اور تبدیلی لانے کا راگ تھا۔ وہ بری طرح ناکام ہوا ہے بلکہ عمران خان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

عمران خان نے عام انتخابات سے قبل ایک کروڑ نوکریاں دینے اور 50 لاکھ گھر بنا کر دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے برعکس ملک میں اتنی مہنگائی بیروزگاری بڑھی کہ لاکھوں لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا اور گھر دینا تو دور کی بات لاکھوں افراد سے چھت گھر چھینا گیا۔ انکروچمنٹ کے نام پر غریبوں کے گھر دکانیں مساجد مدارس مسمار کیے گئے اور بنی گالا کو ریگولرائز کیا گیا۔ عمران خان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر خودکشی کرنے کا وعدہ کیا۔

جبکہ اسٹیٹ بینک سمیت ملک کو ہی آئی ایم ایف کے پاس حقیقی معنوں میں گروی رکھ دیا۔ گزشتہ تین سالوں میں 15 ہزار ارب روپے سے زائد کا قرضہ حاصل کیا ہے۔ خان صاحب نے کشمیر آزاد کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھا اور بھارت کو کشمیر گفٹ کر کے دے دیا۔ وزیراعظم نے الیکشن سے قبل الیکشن اصلاحات کی باتیں کرتے تھے اقتدار میں آ کر الیکشن اصلاحات کرنے اور دھاندلی کا مکمل خاتمہ کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ مگر خود 2018 ع کے الیکشن دھاندلی کے ذریعے جیت کر اقتدار میں آئے۔ عمران خان نے ملک ریاست مدینہ کے طرز پر قائم کرنے کا وعدہ کیا اور پاکستان کو کبھی ایران، سعودی عرب کبھی چائنہ اور امریکا مغرب کی طرز پر تبدیلی کی باتیں کرتے رہے۔

اپوزیشن جماعتوں میں شامل پیپلز پارٹی، نون لیگ، جے یو آئی، اے این پی نے مل کر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہے۔ اسپیکر کی جانب سے 28 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک سے ایک دن قبل ڈی چوک پر ایک لاکھ افراد کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ وہ مسلسل جلسہ بھی کر رہے ہیں اور عدم اعتماد کی تحریک کا نام سن کر اتنا جذبات میں اگر گالم گلوچ کر رہے ہیں۔

لگتا ہی نہیں ہے کہ عمران خان اپوزیشن میں کنٹینر پر ہے یا حکومت میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہے۔ عمران خان کا لب و لہجہ اور زبان کا استعمال بتا رہا ہے کہ وہ بری طرح پھنس چکے ہیں۔ اس کے اتحادیوں ایم کیو ایم، ق لیگ اور جہانگیر ترین، علیم خان کے گروپ نے بھی وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ دینے اور عدم اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک سے ایک دن قبل ڈی چوک پر کارکنان کو بلانے کے اعلان کے بعد جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان نون لیگ نے بھی کارکنوں کو اسلام آباد کے لئے تیار رہنے اور کال دینے کے لئے الرٹ رہنے کا کہ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی نے 27 فروری سے کراچی سے لانگ مارچ کی شروعات کی گئی۔ اور 11 ویں دن اسلام آباد میں جلسہ کر کے اپنا کام کر لیا۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ پریشر چل رہا تھا تو دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جا رہی تھی۔ اب 23 مارچ کو پاک فوج کا پریڈ مارچ ہو گا۔ جس کے بعد اپوزیشن نے بھی 23 مارچ کو اسلام آباد میں مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو اپوزیشن پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ملتوی ہونے کا امکان ہے۔ نہی تو پھر مارچ میں مارچ ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جلسوں میں جس طرح آصف علی زرداری پر بیماری اور کرپٹ جیسے جملے کسے ہیں ساتھ میں نواز شریف کو بھگوڑا اور شہباز شریف کو بوٹ پالش شوباز شریف کے نام بگاڑ کر مخاطب ہو رہے تھے۔ تیسرے نمبر پر جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان کو ”فضلو اور ڈیزل، ڈیزل“ کے نام بگاڑ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے نظر آئے۔ ایسے جملے کسنے پر نامور عالم دین مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”‏اختلاف چاہے سیاسی ہو یا نظریاتی اسے دشمنی بنا کر مرنے مارنے اور گالیاں دینے کا طریقہ معاشرے کے لئے مہلک ہے تنقید دلائل سے ہوتی ہے بھونڈی زبان سے نہیں قرآن میں حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو فرعون کے مقابلے میں بھی نرم بات کرنے کی تلقین فرمائی گئی خدارا سوچیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں“ عمران خان اپنی حیثیت کھو چکے ہیں اور اس طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے کہ لوئر دیر کے جلسے میں موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کا نام لے کر کہا کہ میری ابھی ان سے بات ہو رہی تھی وہ کہ رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل نا کہیں۔

عمران خان مکمل طور پر ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ وہ جلسوں تقریروں میں صرف تہمتوں، الزامات اور گالم گلوچ نام بگاڑنے کے سوا کچھ کر بھی نہیں رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو دیکھا جائے تو وہ بالکل نیوٹرل نظر آ رہی ہے۔ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی بھی مکمل خاموش نظر آ رہے ہیں امکان ہے کہ بلوچستان کی باپ جماعت بھی اختر مینگل کی طرح اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں ”جو کہ 100 فیصد کامیاب ہوگی“ پیپلز پارٹی، نون لیگ جے یو آئی کی مخلوط حکومت قائم کی جائے گی۔

اور پنجاب میں پہلے مرحلے میں تبدیلی لائی جائے گی۔ عثمان بزدار کی جگہ پرویز الہی یا حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جائے گا اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کو بھی شراکت داری دی جائے گی۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو وزارتیں دی جائیں گی اور گورنر شپ بھی ان کو ملے گی۔ سینیٹ میں چیئرمین پیپلز پارٹی اور ڈپٹی سینیٹ چیئرمین جے یو آئی کو دینے کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔ وفاق میں وزیراعظم کے لئے پہلے نمبر پر شہباز شریف اور دوسرے نمبر پر آصف علی زرداری کا نام لیا جا رہا ہے۔

آصف علی زرداری 6 ماہ کے لئے وزیراعظم بننے کے بجائے صدر بننے کو ترجیح دیں گے اور وہ چاہیں گے کہ آگے چل کر بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم بنیں۔ اسپیکر شپ کے لئے پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ اور مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسعد محمود کے نام کی باتیں ہو رہی ہیں۔

الیکشن کمیشن نے ابھی اگے چل کر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ دینا ہے۔ جس کے تحت پی ٹی آئی پر پابندی عائد ہونے کا بھی امکان ہے۔ عمران خان نے 27 مارچ سے پھر سے ڈی چوک سے احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتر کر کنٹینر پر چڑھنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن اس بار ایسے لگتا ہے کہ وہ اقتدار کھولنے کے بعد جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار اور جسٹس گلزار احمد کی طرح امریکا یا برطانیہ سیکیورٹی جواز بنا کر چلے جائیں گے یا پھر نیب کیسز میں عدالتوں اور جیلوں میں قید کاٹنے پر مجبور ہوں گے۔ بہرحال 2023 ع ملک میں عام انتخابات کا سال ہے۔ تبدیلی کے بعد پرانے پاکستان میں قوم کی واپسی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).