آصف علی زرداری بمقابلہ عمران احمد نیازی


پاکستان پیپلز پارٹی نے موجودہ حکومت کی نا اہلی، نالائقی، مہنگائی، اپوزیشن کے خلاف انتقامی مہم، لاقانونیت، سٹریٹ کرائم، دہشت گردی، اقربا پروری، ناکام خارجہ پالیسی اور کرپشن جیسے مسائل کے خلاف سندھ سے اسلام آباد تک بھرپور اور منظم لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ یہ مارچ 27 فروری سے 8 مارچ تک طے کیا گیا تھا جس کی قیادت پی پی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو کر رہے تھے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مارچ توقعات اور اندازوں سے بڑھ کر کامیاب ہوا۔

مارچ میں جیالوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آصف علی زرداری، بلاول بھٹو سمیت پارٹی کی سینئر اور کہنہ مشق قیادت نے جیالوں اور عوام کا خون گرمایا۔ لانگ مارچ منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا پنجاب میں داخل ہوا اور یہاں سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں پہنچ گیا۔

جس دن پی پی کا مارچ اسلام آباد پہنچا اس دن اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروائی جا چکی تھی۔ حکومت ہر طرف سے مشکل میں گھر چکی تھی اور وزیراعظم بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ میں ”نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے“ جیسے لایعنی بیانات بھی داغ رہے تھے۔ وہ آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا کو کھلی دھمکیاں دے چکے تھے۔

اس سارے منظر نامے کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت نے نہایت بردباری، جمہوری رویے، سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرپور جلسہ کیا۔ تقاریر کیں، جن میں الزام تھا نہ اتہام، گالم گلوچ تھی نہ زبان درازی، اشتعال انگیزی تھی نہ فتنہ پروری۔ سارے لانگ مارچ میں کوئی گملا ٹوٹا نہ زبان طعن سے کسی کا دل۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ اس سے آگے سیاسی لڑائی ہم مکمل جمہوری انداز میں پارلیمان کے اندر لڑیں گے، جس کے لیے ہم تحریک عدم اعتماد جمع کروا چکے ہیں۔

حالانکہ وہ چاہتے تو عوام کا جم غفیر دیکھ کر وہ بھی عمران خان اور طاہر القادری کی طرح معاہدوں اور وعدوں سے دست کش ہو کر پارلیمنٹ، پی ٹی وی اور دوسرے اداروں پر چڑھ دوڑتے۔ سپریم کورٹ کے باہر قبریں کھودتے، کفن پوش جلوس نکالتے اور گندی شلواریں لٹکا کر مار دو، گھیر لو، آگ لگا دو، جلاؤ، گھیراؤ جیسے اشتعال انگیز نعرے لگا کر ماحول مکدر کر سکتے تھے۔ مگر آصف علی زرداری کی جمہوریت پسندی کو سلام ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔

دوسری طرف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد تو موجودہ حکومت جیسے باؤلی ہو گئی ہے۔ ابھی تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عدم اعتماد کی بلی تھیلے سے باہر آئے گی تو کیا نتیجہ نکلے گا مگر امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت بری طرح دباؤ کا شکار ہے۔ وزیراعظم کی تقاریر، گالم گلوچ اور زبان درازی ان کی ممکنہ شکست خوردہ ذہنیت کی غماز ہے۔ چلیے حکومت جاتی دیکھ کر ہر سربراہ حکومت ضرور گھبرا جاتا ہے مگر ایسا چراغ پا بھی کوئی کیا ہو گا کہ انسان بنیادی انسانی اخلاقیات سے بھی دست کش ہو جائے۔

دہن بگڑا، زبان بگڑی، تیور بگڑے، رمز و کنائے بگڑے۔ اس پر بھی وزیراعظم کو رعایتی نمبر دیے جا سکتے ہیں مگر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ والے دن اسمبلی کے باہر دس لاکھ بندے جمع کر کے منحرف اسمبلی ممبران کو ڈرانا دھمکانا جمہوریت کی کون سی خدمت ہے؟ ابھی وزیراعظم کی اس دھمکی کی بازگشت فضاؤں میں موجود تھی کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جواب آں غزل کے طور پر بیس لاکھ سرفروش اکٹھے کرنے کا دبنگ اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد ملک کا ہر دردمند شہری پریشان ہو گیا کیونکہ یہ تو سیدھا سیدھا خوفناک تصادم کو ہوا دینے کی بات ہے۔

تحریک عدم اعتماد جمہوریت کا حسن اور اپوزیشن کا آئینی حق ہے۔ مگر حکومت ایسے معاملات میں دانشمندی کا ثبوت دے کر جلتی پر تیل نہیں پانی ڈالتی ہے۔ مگر موجودہ حکومت تو خود مبارزت طلب کر کے جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ حالات اس قدر کشیدہ ہوجائیں کہ تیسری قوت کو مداخلت کا بہانہ مل جائے۔

دو نومبر 1989 میں بھی محترمہ بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی۔ اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک مضبوط دھڑا ان کی حکومت کے خلاف تھا مگر محترمہ کی تربیت کیونکہ خالص جمہوری انداز اور ماحول میں ہوئی تھی، اس لیے نہ وہ مشتعل ہوئیں، نہ زبان کو بے لگام چھوڑا، نہ اعصاب ڈھیلے پڑے، نہ امریکہ اور انڈیا پر سازش کا الزام لگایا اور نہ اسٹیبلشمنٹ کو جانور کہا۔ انہوں نے بڑے وقار اور جمہوری انداز سے عدم اعتماد کا مقابلہ کیا اور سرخرو ٹھہریں۔

اس وقت بھی ماحول ٹینس تھا مگر محترمہ کی ہدایت پر اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی جناب معراج خالد نے حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی۔ ان نمائندوں کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ مذاکرات ہوئے جن میں عدم اعتماد کے رولز آف گیم تیار کیے گئے۔ مذاکراتی ٹیموں نے عوام کو پر امن رہنے اور اشتعال انگیزی سے دور رہنے کی اپیل کی۔ یوں اس وقت کی سربراہ حکومت کے جمہوری رویوں کی وجہ سے عدم اعتماد کا اعصاب شکن مرحلہ طے ہوا۔ مگر ہمارے موجودہ وزیراعظم نے اپنی افتاد طبع، بڑھک بازی، بزدلی، سیاسی بے تدبیری اور اشتعال انگیز رویے کی وجہ سے عدم اعتماد سے قبل ہی ماحول اس قدر کشیدہ اور زہر ناک بنا دیا ہے کہ اگر کسی بڑے نے مداخلت نہ کی تو خطرناک تصادم یقینی ہے۔

محترمہ کی سیاسی تربیت ذوالفقار علی بھٹو جیسے نابغے نے کی تھی۔ زرداری اور بلاول کی سیاسی تربیت محترمہ نے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے لانگ مارچ کے بعد سیاسی جنگ پارلیمان میں لڑنے کا اعلان کیا۔ لیکن ادھر ہمارے کپتان صاحب اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے دعووں کے باوجود عدم اعتماد کے وقت تصادم کی راہ ہموار کر کے سیاسی نابالغ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ سیاست میں آصف علی زرداری کی شاگردی اختیار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments