اسلاموفوبیا اور مغرب


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی قرارداد جنرل اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی۔ بلاشبہ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ مغربی ممالک میں پچھلے کچھ سالوں سے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم مہم جاری تھی، جس میں مغربی ممالک کی کچھ تنظیمیں اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بھی پیش تھیں۔

یہ لوگ مغربی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ دے رہے تھے۔ 9 / 11 کے بعد بطور خاص امریکہ اور یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ امریکہ اور یورپ کے عام شہریوں کو باور کروایا گیا کہ تمام مسلمان بلا تفریق رنگ و نسل، ملک دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں۔ ایک منظم مہم کے ذریعے عام شہریوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لوگوں کو باور کروایا گیا کہ ان کی تہذیب اور معاشرتی اقدار کو مسلمانوں سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا اسے مذہب اسلام کے ساتھ جوڑ کر اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا۔ امریکہ میں ہر سال دہشت گردی کے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔ مختلف واقعات میں کوئی جنونی شخص کسی سکول، بازار یا پارک میں فائر کھول دیتا ہے اور درجنوں افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیتا ہے۔ اگر ایسا کرنے والا کوئی شخص غیر مسلم ہو تو اسے ذہنی مریض کہہ دیا جاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی مسلمان ایسے واقعے میں ملوث پایا جائے تو اس شخص کے اس ذاتی اقدام کو مذہب اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں اور خاص کر یورپ اور امریکہ میں دو دہائیوں سے یہی کچھ کیا گیا۔ مغرب اور امریکہ کے اس دوہرے معیار پر سب سے جاندار آواز وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے اٹھائی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے 2019 کے خطاب میں واضح کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے۔ اگر کوئی مسلمان شخص یا گروہ دہشت گردی کے کسی واقعے میں ملوث ہیں تو یہ ان کا ذاتی یا گروہی اقدام ہو سکتا ہے نہ کہ مذہب اسلام کی تعلیمات۔

جناب عمران خان نے یہ بات واضح کی کہ دنیا میں سب سے پہلے خود کش حملے تامل ٹائیگرز کی طرف سے اپنی آزادی کی تحریک کے دوران ہوئے اور تامل ٹائیگر مذہبی اعتبار سے ہندو ہیں۔ اس بنا پر ہندو مذہب کو تو انتہا پسند نہیں کہا گیا۔ نیوزی لینڈ میں کچھ سال پہلے دہشت گردی کا ایک بہت بڑا واقعہ ہوا جس کا ٹارگٹ مسلمان تھے۔ جب نہتے نمازیوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران ایک جنونی شخص نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا اور لائیو ویڈیو بھی دکھائی۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے افراد بھی مختلف معاشروں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ کسی مذہب کو بھی ان کی دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ نہیں کہا گیا تو اسلام کو کیوں کر کسی شخص کے ذاتی فعل کے ساتھ جوڑ کر دہشت پسندی کا مذہب کہا جائے اور پھر پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جائے۔

دراصل مغربی ممالک میں اب کئی سیاسی جماعتیں اور افراد اپنی سیاسی ضرورت کے تحت بھی مسلمانوں اور ان کی مذہبی اقدار کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ کچھ معاملات جیسا کہ توہین رسالت پر کوئی بھی مسلمان سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا۔ اسے آزادی اظہار رائے کا نام دے کر مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔ مغربی معاشرتی اقدار میں مذہب کو وہ اہمیت نہیں جو کہ مسلم معاشروں میں ہے۔ اسی طرح مغرب مذہبی شخصیات اور انبیاء سے متعلق بھی اتنا حساس نہیں جیسا کہ مسلمان ہیں۔

فرانس میں آزادی اظہار رائے کے نام پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر پوری دنیا سے ردعمل آیا خاص طور پر مسلمانوں کی طرف سے۔ اس کے باوجود فرانس کے صدر نے توہین کرنے والوں کو ہیرو قرار دیا اور مسلمانوں کو انتہا پسند۔ اگر مغرب کی طرف سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جائے گا اور خاص کر نبی مکرم ﷺ کی ذات اقدس کو نشانہ بنایا جائے تو مسلمانوں کی طرف سے رد عمل ایک فطری بات ہے۔ مغربی ممالک کے دانشوروں اور اہل فکر کو چاہیے کہ اپنے معاشروں میں اس بات کی ترویج کریں کہ دوسرے مذاہب کی مقدس ہستیوں کی توہین آزادی اظہار رائے نہیں بلکہ دنیا میں انتشار کا باعث بنتی ہے۔

بڑی طاقتوں نے اسلاموفوبیا کو اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل اور دنیا پر اپنی طاقت کا سکہ جمانے کے لئے بھی استعمال کیا۔ امریکہ نے 9 /11 کے بعد میڈیا کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے پرچار کیا کہ امریکہ میں دہشت گردی کا یہ واقعہ مسلم دہشت گردی ہے۔ اس وقت امریکی صدر نے باقی دنیا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اسے ”کروسیڈ“ کا نام دے دیا۔ بعد ازاں ”سلپ اف ٹنگ“ کہہ کر الفاظ واپس لے لیے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نشانہ مسلمان ممالک اور ان کے شہری ہی بنے۔

اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کی مسلم شناخت پر بھرپور پروپیگنڈا کیا گیا اور امریکی اور یورپی باشندوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ یہ دہشت گرد امریکہ اور مغرب کی تہذیب، آزادی اور معاشرے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اسلام ایک دہشت پسند مذہب ہے اور اس کے پیروکار دنیا پر طاقت کے ذریعے اپنا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی مہم چلا کر مغرب اور امریکہ کے شہریوں کو اسلام اور مسلمانوں سے ڈرایا گیا۔

ان کے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی گئی۔ ان کی ذہن سازی کی گئی کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کسی مسلمان ملک پر فوج کشی کر کے وہاں کے لوگوں کا قتل کرتے ہیں تو یہ سب مغرب کے لوگوں کی شہری آزادی اور معاشرتی اقدار کے تحفظ کی خاطر کیا جا رہا ہے۔ عام شہری بھی اپنی حکومت کے ان اقدامات کی بھرپور حمایت کریں۔ اس طرح کی مسلسل تشہیر اور ذہن سازی کے ذریعے امریکہ اور یورپی ممالک نے افغانستان کو لہولہان کیا۔

دو عشروں تک افغانستان کے عام شہری امریکہ اور نیٹو کے بموں اور گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ نام نہاد کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے نام پر عراق پر فوج کشی کی گئی۔ لاکھوں عراقی شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ عراق کا امن اور شہری زندگی برباد کر دی گئی۔ اسی طرح لیبیا اور شام کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا۔ اس جنگ کا شکار ہونے والے چونکہ مسلمان تھے اور مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا تھا اس لئے ان کا مرنا اہل مغرب کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھرپور مہم چلا کر مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک پر فوج کشی کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے۔

کشمیر اور فلسطین جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں متنازع علاقے ہیں۔ کشمیر پر بھارت اور فلسطین پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ ان علاقوں کے باشندے جو اپنی آزادی کی لڑائی غاصبانہ قبضے کے خلاف لڑ رہے تھے اسے بھی مسلم دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی جدوجہد کو دہشتگردی قرار دے کر ان کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ اب جب کہ دنیا یہ تسلیم کر رہی ہے کہ دہشت گردی کا مذہب اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس لیے دو دہائیوں سے خاص کر جو مہم اس کو لے کر دنیا بھر میں چلائی گئی وہ کچھ لوگوں اور ممالک کے سامراجی عزائم کو پورا کرنے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تھی۔ کشمیر اور فلسطین سمیت جہاں بھی مسلمان ظلم کا شکار ہیں ان کی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں حق خودارادیت کے تحت آزادی اور خودمختاری کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments