کیا آپ کامیابی کے راستے کی چار رکاوٹوں کو جانتے ہیں؟


آپ کا کامیابی کا تصور کیا ہے؟
کیا آپ کے دل میں کوئی خواہش ’کوئی آرزو‘
کوئی تمنا سرگوشیاں کرتی ہے؟
کیا آپ کا کوئی آدرش ہے؟
کیا آپ کا کوئی خواب ہے؟
آپ کی کامیابی کی راہ میں کتنی رکاوٹیں آئی ہیں؟
آپ اپنے خواب کو کیسے شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں؟

ان سوالوں کے جواب ہمارے عہد کے مقبول ترین ناول نگار پولو کوہیلو نے اپنی ناول۔ کیمیا گر۔ میں دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ناول کے جوابات سے پہلے میں آپ کو ان کی زندگی کے چند حالات بتانا چاہتا ہوں۔

پولو کوہیلو 1947 میں برازیل میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن سے ایک لکھاری بننے کا شوق تھا لیکن ان کے والدین انہیں ایک وکیل بنانا چاہتے تھے۔ جب نوجوانی میں پولو کوہیلو نے والدین کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے اسے سترہ برس کی عمر میں ایک پاگل خانے داخل کروا دیا۔ پولو کوہیلو ہسپتال سے بھاگے تو انہیں پکڑ کر دوبارہ نہیں سہ بارہ پاگل خانے بھیجا گیا۔ آخر تین برس کے بعد وہ پاگل خانے سے مستقل طور پر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

پولو کوہیلو نے 1960 کی دہائی میں کئی اور نوجوانوں کی طرح ایک ہپی کی طرح زندگی گزاری۔ انہوں نے لاطینی امریکہ اور یورپ کا سفر کیا اور زندگی سے بہت سے کھٹے میٹھے اور کڑوے سبق سیکھے۔ 1980 کی دہائی میں انہوں نے سپین کا پانچ سو میل کا سفر طے کیا۔ اس سفر کے دوران انہیں چند روحانی تجربات ہوئے۔ ان تجربات کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا نام THE PILGRIMAGEرکھا جس کی بنیاد پر PILGRIMفلم بنائی گئی۔

پولو کوہیلو کی بین الاقوامی شہرت کی وجہ ان کا ناول THE ALCHEMIST ہے۔ جب پولو کوہیلو نے وہ ناول برازیل کے کئی پبلشرز کو بھیجا تو انہوں نے چھاپنے سے انکار کر دیا۔ ایک نے چھاپنا چاہا تو ناول کا نام بدلنے کا مشورہ دیا۔ وہ اسے۔ ایک گڈریے کی کہانی۔ کے نام سے چھاپنا چاہتا تھا لیکن پولو کوہیلو نے اس مشورے کو رد کر دیا۔ وہ مصر رہے کہ ناول کا نام۔ کیمیا گر۔ ہی رہنا چاہیے۔

1988 میں جب وہ ناول پہلی بار برازیل سے چھپا تو اس کی صرف نو سو کاپیاں چھپیں۔ 1994 میں جب امریکی پبلشر ہارپر کولنز نے اسے چھاپا تو وہ ناول کامیابی اور مقبولیت کی منازل طے کرنے لگا۔ اس ناول کی اب تک تین سو ملین سے زیادہ کاپیاں بک چکی ہیں۔

پولو کوہیلو نے ناول کے دیباچے میں کامیابی کے راز اور راستے کی چار رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں اس دیباچے کے چند اقتباسات کا ترجمہ اور تلخیص پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ بھی پولو کوہیلو کی ادبی دیگ کے چند دانے چکھ سکیں۔ پولو کوہیلو لکھتے ہیں

’مجھے وہ دن یاد ہے جب مجھے ہارپر کولنز کے امریکی پبلشر کا خط موصول ہوا جس میں رقم تھا۔ آپ کے ناول۔ دی الکیمسٹ۔ کو پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی انسان علی الصبح سورج کے طلوع ہونے کا منظر دیکھے جب ساری دنیا سو رہی ہو‘

ان دنوں میں ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے اپنا خواب پورا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہارپر کولنز نے کتاب چھاپی تو وہ سینکڑوں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بکی اور پڑھی گئی۔ دھیرے دھیرے میرا ایک کامیاب ادیب ہونے کا خواب پورا ہونے لگا۔ میرے ایک جرنلسٹ دوست نے بتایا کہ اس نے ایک رسالے میں ایک تصویر دیکھی ہے جس میں امریکی صدر کلنٹن میرا ناول پڑھ رہے ہیں۔ پھر میں نے VANITY FAIRمیگزین میں جولیا رابرٹس کا انٹرویو پڑھا جس میں انہوں نے میرے ناول کو سراہا۔ ایک شام میں میامی فلوریڈا مین چہل قدمی کر رہا تھا کہ میں نے ایک نوجوان خاتون کو اپنی ماں سے کہتے سنا کہ آپ الکیمسٹ ناول ضرور پڑھیں۔

اس ناول کا اب تک چھپن زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس ناول کی کامیابی کا کیا راز ہے تو میں کہتا ہوں

’مجھے نہیں معلوم‘

میں صرف یہ جانتا ہوں کہ الکیمسٹ ناول کے ہیرو گڈریے سینٹییگو کی طرح میں بھی اپنے خواب کو دل سے لگائے ساری عمر آگے بڑھتا رہا اور راہ میں آنے والی تمام مشکلات ’تمام دشواریوں اور تمام آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے گلے لگاتا رہا۔ میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ میری زندگی کے غور و خوض کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کی کامیابی کے راستے میں چار رکاوٹیں آتی ہیں۔

پہلی رکاوٹ یہ ہے کہ ہمیں بچپن سے یہ بار بار بتایا جاتا ہے کہ ہم زندگی میں کامیاب نہیں ہوں گے اور ہم اس غلط بات کو صحیح مان لیتے ہیں اور خود اپنی راہ کی رکاوٹ بن جاتے ہیں

[ پولو کوہیلو کا یہ جملہ ترجمہ کرتے ہوئے مجھے اپنا ایک شعر یاد آ رہا ہے
سفر میں خود ہی حائل ہو گیا ہوں
میں اپنا راستہ روکے کھڑا ہوں ]

دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے خواب پورے کرنے شروع کیے تو ہم خود غرضی کا مظاہرہ کریں گے اور اپنے عزیزوں کا دل دکھائیں گے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ اگر ہمارے عزیز ہم سے سچی محبت کرتے ہیں تو انہیں ہماری کامیابی سے خوشی ہونی چاہیے۔

تیسری رکاوٹ وہ معاشی اور سماجی دشواریاں ہیں جو زندگی ہمارے سامنے لا کھڑی کرتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم اپنی تلاش میں سچے ہیں تو جلد یا بدیر ہم ان مسائل کا حل تلاش کر لیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے

چوتھی رکاوٹ یہ ہے جب ہم اپنی منزل پر پہنچ بھی جاتے ہیں تو ہم اپنے آپ سے کہتے رہتے ہیں کہ ہم اس کامیابی کے مستحق نہیں ہیں۔ ہم اپنی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بعض دفعہ منزل کو پانے کے بعد بھی کھو دیتے ہیں۔

بہت سے لوگ منزل کے بہت قریب پہنچ کر ایسی بچگانہ ’بے وقوفانہ اور احمقانہ حرکتیں کرتے ہیں کہ منزل سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ملاح کی کشتی بالکل کنارے کے قریب پہنچ کر ڈوب جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اپنی ذات پر پورا یقین نہیں ہوتا اور
ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔

میں نے زندگی کی کامیابی کا راز یہ جانا ہے کہ اگر انسان سات دفعہ گرے تو آٹھ دفعہ کھڑا ہو جائے اور منزل کی طرف بڑھتا جائے۔

بہت سے لوگ راستے کی محنت ’مشقت اور ریاضت کو بھول جاتے ہیں۔ وہ ان تمام قربانیوں کو فراموش کر دیتے ہیں جو انہوں نے اپنی آرزوؤں اور تمناؤں اپنے خوابوں اور آدرشوں کے لیے دی تھیں۔

میرا ایمان ہے کہ اگر ہمارا خواب سچا ہے اور ہم اپنی تلاش میں مخلص ہیں تو ساری کائنات بڑے پراسرار طریقے سے ہمارے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے ’۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail