فیدور دوستوئیوسکی کی ایک کہانی: رشوت


”آگے آگے آ جائیں سب لوگ۔ تاکہ سب کو آواز ٹھیک سے پہنچے۔“

میں اس شخص کو بھر پور تجسس سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے خد و خال عجیب سے تھے۔ پرکشش بھی لیکن مضحکہ خیز بھی۔ اس کی بٹن جیسی حساس آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اسے معلوم ہے کہ وہ بہت سی نگاہوں کا مرکز ہے۔ وہ ایک جھٹکے سے باری باری سامعین کی طرف مڑتا۔ یوں لگتا جیسے کوئی پتلی ناچ رہی ہے۔

کھاتے پیتے گھرانوں کے میزبان اسے مہمانوں کی تفریح طبع کے لئے بلاتے۔ وہ بھیک مانگنے کو اپنے وقار کے خلاف سمجھتا۔ کہانیاں سنانے کے عوض صرف ادھار مانگتا۔ وہ خود، اور تماشائی بھی، اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ ادھار کبھی ادا نہیں ہو گا۔

پچھلے چھہ سال سے یہی اس کا ذریعہ معاش تھا۔ لیکن ابھی تک اس میں ایک جھجک باقی تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ ایک باعزت عہدے پر فائز تھا۔ اس کی طبعی شرافت اسے اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ بھیک مانگ کر اپنی عزت نفس کو مکمل طور پر قربان کر دے۔ اس لئے صرف ادھار مانگتا۔ کبھی واپس نہ کرنے والا ادھار۔

مہمان ایک گروہ بنائے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ ایک کرسی گھسیٹ کر اس پر چڑھ گیا۔
” حضرات، آپ کی توجہ کا طالب ہوں۔“

میں بھی کرسی کے گرد لگے مجمع میں شامل ہو گیا۔ جن لوگوں نے اسے پہلے نہیں دیکھا تھا وہ اس کی مضحکہ خیز شکل دیکھ کر اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکے اور بے تحاشا ٹھٹھے لگانے لگے۔ ایک لمحے کو وہ آزردہ سا لگا۔ لیکن جلد ہی اس تاثر پر قابو پا لیا۔

”سنیے حضرات۔ جتنا میں فیدوسی نکولاوچ کو جانتا ہوں اتنا آپ میں سے کوئی نہ اسے جانتا ہے نہ جان سکتا ہے۔ میں فیدوسی کے بارے میں ایسی کہانیاں سنا سکتا ہوں جن کا آپ تصور تک نہیں کر سکتے۔“

” سناؤ، سناؤ۔ “
” تو سنیں۔“
” یہ کہانی سچی ہے۔ مزاحیہ بھی اور الم ناک بھی۔ اور اس کا تعلق میری ذاتی زندگی سے ہے“
” یہ اس واقعے کی کہانی ہے جس کی وجہ سے میں شادی کرتے کرتے بچا اور آج تک کنوارا ہوں۔“
”شادی؟ تو کسی نیک بندی کو خدا نے مادام پالزنکوف ہونے سے بچا لیا؟“
ایک نوجوان افسر نے از راہ تمسخر کہا۔
میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اس کا نام پالزنکوف تھا۔ خیر، اس کی کہانی جاری رہی۔
” تو حضرات، بہار کا موسم تھا، مارچ کی اکتیس تاریخ۔“
” یعنی اپریل فول کی تاریخ میں سے ایک کم۔“
ایک اور نے گرہ لگائی۔

” شاباش۔ بہت صحیح اندازہ لگایا۔ آپ ریاضی کے ماہر لگتے ہیں۔ ہاں، تو ، چھہ سال پہلے کی بات ہے۔ مارچ کی اکتیس تاریخ تھی۔ شام ہو رہی تھی۔ میں ان دنوں اپنی بوڑھی دادی کے ساتھ رہتا تھا۔ اب تو بیچاری اللہ کو پیاری ہو چکی ہے۔

”خیر، دادی کو بتا کر میں فیدوسی نکولاوچ کے گھر گیا۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، وہ میرا رفیق کار ہی نہیں محکمے کا سربراہ بھی تھا۔ نوکر نے مجھے لائبریری میں بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فیدوسی داخل ہوا۔ میں نے کھڑے ہو کر ادب سے جھک کر سلام کیا۔ نوکر واپس چلا گیا۔ میں اور فیدوسی کمرے میں تنہا رہ گئے۔ پھر ایک انہونی بات ہوئی۔“

” کیا ہوا؟“
بہت سی آوازیں اچانک بلند ہوئیں۔

” ہونا کیا تھا؟ وہی جو سرکاری دفتروں میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ میں نے کاغذوں کا ایک پلندا کوٹ کی جیب سے نکالا۔ ایک بنڈل فیدوسی نے اپنے گاؤن کی جیب سے نکالا اور دونوں بنڈلوں کا تبادلہ ہوا۔ بس یہی ہوا۔ اور کچھ نہیں۔ “

”کرنسی کے نوٹوں کا بنڈل؟“
”جی ہاں۔“

” تو صاحبو، فیدوسی نے مجھ سے کاغذوں کا پلندا لے لیا جن میں وہ ثبوت تھے جو اگر حکومت کے کسی تحقیقی ادارے کے ہاتھ لگ جاتے تو فیدوسی کو عمر قید ہو سکتی تھی۔“

” اس میں تو رشوت کی جھلک نظر آ رہی ہے۔“
ایک نوجوان افسر نے کہا۔

”رشوت؟ دیکھو صاحبزادے۔ رشوت تو مادر روس کا دودھ ہے جس کو چوسے بغیر سرکاری افسر چھوٹے سے بڑے نہیں ہو سکتے۔ اس چولھے پر

سب اپنے ہاتھ تاپتے ہیں۔ لیکن میں اتنا بتا دیتا ہوں کہ میں نے آج تک پھوٹی کوڑی کی رشوت نہیں لی۔ مجھے تو رشوت لینے دینے کے آداب ہی نہیں آتے۔ ”

سامعین نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ پالزنکوف نے خاموشی سے مجمع کو دیکھا جیسے سوچ رہا ہو کہ وہ اس اونچی سوسائٹی کے علمبرداروں سے کہیں زیادہ ایمان دار ہے۔ اس نے ہنسی ختم ہونے کا انتظار کیا اور پھر کہانی جاری رکھی۔

” تو میں نے ایک رشوت خور سے وہ نوٹ لے کر جیب میں ضرور ڈالے۔ لیکن یقین کریں مجھے ایسا لگا جیسے جیب سے ہوتا ہوا فولاد کا ایک گرم، سرخ خنجر کسی نے میرے بدن میں بھونک دیا ہو۔“

”کتنی رقم تھی؟“
اسی نوجوان نے پوچھا۔

” بس اتنی ہی جو کسی کا ضمیر خریدنے کے لئے کافی ہو۔ میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا۔ میں فیدوسی سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا چاہتا تھا۔“

” تو تم نے معافی مانگی؟“

” نہیں، میں صرف معافی مانگنے کے بارے میں سوچتا رہا۔ اتنے میں خود فیدوسی نے کہا کہ مجھے شرم آنی چاہیے۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا کیا تمہیں کوئی خوف خدا نہیں؟ میں تمہیں بیٹے جیسا سمجھتا تھا اور تم اتنے احسان فراموش نکلے کہ پیسے کی خاطر مجھے خفیہ پولیس کے سپرد کرنے کے لئے تیار تھے۔ شرم کرو۔ ایسی باتیں دیکھ کر آدمی کا انسانیت پر ایمان کیسے قائم رہ سکتا ہے؟“

” حضرات، ستم ظریفی دیکھیں، اس نے واقعی انسانیت کا حوالہ دیا۔ میں زمین میں گڑھتا جا رہا تھا۔ میری آنکھوں نم ہو گئی تھیں۔ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے اپنا ہیٹ اٹھایا۔“

” کہاں جا رہے ہو؟“
”فیدوسی راستہ روک کر میرے اور دروازے کے درمیان ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہو گیا تھا۔“

” صاف نظر آ رہا ہے کہ تم اپنے کیے پر پشیمان ہو۔ خیر۔ چھوڑو اس بات کو ۔ اب چونکہ تمھارا ضمیر خود تمہیں ملامت کر رہا ہے تو میں بھی تمہیں معاف کرتا ہوں۔ شاید میری وجہ سے تم اب راہ راست پر آ جاؤ۔ چلو، میری بیوی اور بیٹی ڈرائینگ روم میں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔“

”تو جناب، میں سوچ رہا تھا کہ میں کس منہ سے اپنی محسنہ کا سامنا کروں گا۔ فیدوسی نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ڈرائینگ روم میں لے گیا جہاں اس کی بیوی اور بیٹی پیانو کے پاس بیٹھے تھے۔ یہاں صورت حال کچھ نازک ہو گئی۔“

” نازک؟“
ایک بانکے سے نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔
” کیا اب کہانی میں آپ کی مسز آنے والی ہیں؟“
” کاش ایسا ہوتا۔ لیکن اس نیک بخت کی قسمت میں مسز پالنکوف بننا نہیں لکھا تھا۔“
ایک اور قہقہہ لگا۔ پالنکوف کا بیان جاری رہا۔

” قصہ در اصل یہ ہے کہ چھہ مہینے پہلے ہمارے شہر میں وزارت دفاع کے لئے گھوڑے خریدنے کے لئے ایک نوجون افسر آیا۔ فیدوسی نے وزارت کی نظروں میں اپنی وقعت بڑھانے کے لئے اس کو اپنے گھر ٹھہرایا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں جہاں دو برتن ہوں وہ کھنک ہی جاتے ہیں۔ افسر بہت خوبرو جوان تھا۔ فیدوسی کی بیٹی ماریہ فیدوسوینہ کی بھی ابھرتی جوانی تھی۔ کچھ عرصے بعد نوجوان افسر مشکوک حالات میں بہت عجلت میں شہر چھوڑ کر ، گھوڑے خریدے بغیر، اپنے ہیڈ کوارٹرز واپس چلا گیا۔

میری خاندانی شرافت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ کو اس اچانک روانگی کی وجہ بھی بتاؤں لیکن آپ ذہین اور دنیا دار لوگ ہیں۔ میرا اشارہ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ ماریہ فیدوسوینہ اس پر دل جان سے فریفتہ تھی۔ اگرچہ سرکاری افسر کے فرار کے بعد میں نے ماریہ کو واپس جیتنے کی لاکھ کوشش کی لیکن جتنا میں اس کی منت سماجت کرتا اتنا ہی وہ اپنے بچھڑے ہوئے دلبر کے لئے بے قرار ہوتی۔“

”اب میں ماریہ کی نظروں میں تو تھا ہی، اپنی نظروں میں بھی خود کو ذلیل و خوار سمجھنے لگا تھا۔ میں دفتر کے بعد سارا دن گھر کی قید تنہائی میں گزارتا۔ لوگوں کو ، حتی کہ اپنی بیچاری نحیف و نزار بیمار دادی تک کو ، کاٹ کھانے کو دوڑتا۔“

”میں طیش کی آگ میں بھڑک رہا تھا۔ گھوڑے والے افسر کی وجہ سے فیدوسی گھرانے کی اس تضحیک کا انتقام میرے سر پر سوار تھا۔ میں فیدوسی کا مستقبل تباہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کی کرپشن اور بد معاشیوں کو خفیہ پولیس کے سامنے بے نقاب کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ ان تمام دستاویزات کی نقلیں بنائیں جو اس کو برباد کر سکتی تھیں۔ “

”پھر میں نے سوچا کہ اس کے نقصان میں میرا کیا فائدہ ہو گا۔ میں نے اسے الٹیمیٹم دیا کہ سات ہزار روبل دے کر وہ اپنا سول سروس کیرئیر بچا سکتا ہے۔“

”تو یہ تھی تمہاری رشوت؟“
سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک مہمان نے پوچھا۔

”جی سرکار۔ یہ تھی میری رشوت۔ لیکن کم از کم میں مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میرے ضمیر نے مجھ پر کبھی ملامت نہیں کی۔“

پالزنکوف نے فوری طور پر جذبات سے بھر پور جواب دیا۔

” بہر حال، کہانی کہاں سے کہاں چلی گئی۔ مختصر بات یہ کہ اس رشوت خور کے جبڑوں سے میں نے یہ رقم نکلوائی۔ لیکن اس جیسا کائیاں آدمی بھی اس زمین پر پیدا نہیں ہوا۔ تو جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ وہ میرے کندھے پر ہاتھ دھرے مجھے ڈرائینگ روم میں لے گیا جہاں اس کی بیوی اور بیٹی پیانو کے نزدیک آرام کرسیوں پر براجمان تھے۔ ساتھ ہی چائے کی ٹرالی تھی جس پر کچھ کیک، بسکٹ اور پیسٹریاں بھی رکھی تھیں۔ تھیں۔ مسز فیدوسی نے ملازمہ کو چائے کی ایک اور پیالی لانے کو کہا۔

میری طرف رحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، پالزنکوف تم تو سوکھ کر کانٹا ہو گئے ہو۔ لو یہ پیسٹری کھاؤ۔ تم پر کوئی بوٹی تو چڑھے۔ اس کی بیٹی ماریہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے ابھی رو کر ہٹی ہو۔ اس وقت میرا ضمیر مجھ پر سخت لعن طعن کر رہا تھا کہ میں نے اتنے مہربان محسنوں کو کس قدر دکھ پہنچایا۔ حتی کہ اتنی پیاری ماریہ کو رلا رلا کر اس کی آنکھیں سجا دیں۔ یہ راز تو بعد میں کھلا کہ وہ آنسو میرے لئے نہیں، اپنے بچھڑے ہوئے گھوڑوں کے خریدار افسر کے لئے بہا رہی تھی۔ لیکن اس وقت تو مجھے لگ رہا تھا کہ سارا خاندان مجھ پر نچھاور ہو رہا ہے۔ فیدوسی نے مجھے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔“

” تم آج سے میرے بیٹے کہ طرح ہو۔ بس اب سب گلے شکوے ختم۔“

” میری آنکھوں سے آنسوؤں کی آبشار گر رہی تھی۔ میں فیدوسی کے کندھوں پر سر رکھے زار و قطار رو رہا تھا او ر اس سے معافی پر معافی مانگے جا رہا تھا۔ یہی کافی نہیں، فیدوسی کے باقی چھوٹے چھوٹے بچے بھی ڈرائینگ روم میں آ دھمکے اور بڑوں کو روتا دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر خود بھی رونا شروع کر دیا۔ اور تو اور جو نوکرانی چائے لے کر آئی تھی وہ بھی سسکیاں لے لے کر رونے لگی۔“

” میں ہوا کے گھوڑے پر سوار گھر دادی کے پاس لوٹا اور اسے بتایا کہ میں کتنا خوش ہوں۔ دادی نے پوچھا کہ فیدوسی نے کچھ پیسے بھی دیے ہیں یا ایسے ہی ٹرخا دیا۔ میں نے دادی کو سات ہزار روبل دکھائے۔ رات گئے سونے کے لئے لیٹا لیکن خوشی سے نیند کوسوں دور تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ فیدوسی کے خاندان نے میرے لئے اتنا کچھ کیا لیکن میں ان کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟ مجھے اچانک خیال آیا کہ مجھے ان کی تفریح طبع کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔“

” آدھی رات کا گجر بجنے کو تھا۔ صبح یکم اپریل ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ ان کے ساتھ ایسا مذاق کیا جائے جس پر وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں اور اس مذاق کو کبھی فراموش نہ کر سکیں۔ میں جلدی سے اٹھا۔ کونے میں رکھی لکھنے والی میز تک گیا۔ نیا کاغذ نکالا اور فیدوسی کے نام ایک خط لکھنا شروع کیا۔“

” ڈئیر ڈیپارٹمنٹ ہیڈ فیدوسی نکولاوچ صاحب،

” میں رات بھر خط کی عبارت لکھ لکھ کر مٹاتا اور بدلتا رہا۔ بمشکل دو گھنٹے ہی سویا ہوں گا۔ صبح ہوتے ہی میں نے اپنا بہترین سوٹ پہنا اور فیدوسی کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ فیدوسی کے ملازم نے میرے آنے کی اطلاع دی۔ فیدوسی کمرے میں داخل ہوا۔ ہاتھ پھیلا کر مجھ سے بغلگیر ہونا چاہا۔ لیکن میں نے ایسے ظاہر کیا جیسے میں بہت سنجیدہ اور سخت غصے میں ہوں۔“

” نہیں فیدوسی صاحب۔ پہلے آپ یہ خط پڑھئے اور پھر باقی بات ہو گی۔ فیدوسی نے خط پڑھنا شروع کیا۔ میں اس کی رنگت بدلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ایک رنگ آتا، ایک جاتا۔ جانتے ہیں آپ اس خط میں کیا تھا؟“

”کیا؟“
سب سامعین نے یک زبان ہو کر پوچھا۔ ان کا تجسس اب حد سے تجاوز کر چکا تھا۔
”نہیں، میں نے جو لکھا تھا انتہائی بیہودہ تھا۔ مجھے تو اب بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ “
” یہ کیا خرافات ہے؟ اب اتنا کچھ کہہ چکے ہو تو پوری بات بتاؤ۔“
ایک دو سامعین نے ذرا خفگی سے کہا۔

” اچھا، ناراض نہ ہوں۔ جہاں آپ کے سامنے اتنا ذلیل ہوا ہوں تھوڑا اور سہی۔ میں نے اس خط میں فیدوسی کو مخاطب کر کے لکھا تھا کہ میرے پاس ایسی رپورٹس ہیں جن میں ان تمام دھاندلیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو آپ کے کہنے پر ڈیپارٹمنٹ میں ہوئیں۔ ان میں لاکھوں کا غبن اور رشوت شامل ہیں۔ میں ایسے کرپٹ افسر کے ماتحت کام نہیں کر سکتا اور فوری طور پر اپنا استعفی پیش کرتا ہوں۔“

سامعین دم بخود ہو کریہ کہانی سن رہے تھے۔ کچھ کا تو فرط حیرت سے منہ بھی کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔
”پھر کیا ہوا؟
کئی آوازیں اٹھیں۔

”پھر، فیدوسی بری طرح سے بوکھلا گیا۔ اس نے خوف، غصے اور پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ اس کا آخر کیا مطلب ہے۔ اب ذرا آپ میری حماقت ملاحظہ فرمائیں کہ بجائے اس کے کہ میں بات وہیں صاف کر دیتا، مجھے اس کی پریشانی دیکھ کر اتنا مزہ آ رہا تھا کہ میں نے اس ہولناک ڈرامے کو اور طول دیا۔ اب میں نے مزید غصیلا چہرہ بنا کر کہا، فیدوسی صاحب یہ رپورٹس میں خفیہ پولیس کے حوالے کر رہا ہوں۔ اب میں ایک لمحہ بھی اس گندگی کی دلدل میں کام نہیں کر سکتا۔ میں آپ سے اور آپ کی بیٹی سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔“

” مجھے لگا جیسے فیدوسی بے ہوش ہونے کے قریب ہے۔ مجھے اس پر ترس آ گیا۔“
” اپریل فول!“

”میں ایسے چلایا جیسے کوئی ننھا سا بچہ اپنی دادی کی آرام کرسی کے پیچھے چھپ کر اس کے کان میں اونچی آواز سے“ بوہ ”کر کے اسے ڈرانے کی کوشش کرے۔ پھر بے وقوفوں کی طرح میں زور زور سے ہنسنے لگا۔“

”فیدوسی کے چہرے پر کچھ رنگ واپس آتا دیکھ کر میری ہمت بڑھی۔ میں نے کہا کہ میرے محسن آپ کی کل رات کی محفل اس قدر پر مسرت تھی کہ میں نے سوچا کہ میں بھی آپ کے ساتھ کوئی مذاق کر کے آپ کا دل بہلاؤں۔ امید ہے آپ نے برا نہیں منایا۔“

” شریر کہیں کا ۔ ایسے ڈراتے ہیں اپنے بزرگوں کو ؟
فیدوسی نے کھسیانا سا ہو کر کہا۔ ”

”بیٹا، تم نے تو میری جان ہی لے لی۔ میں ماریہ سے رو رو کر کہہ رہی تھی دیکھو تمھارا دوست کیسا نکلا۔ اس نے ہمارے ساتھ کیسے دغا کی۔ شکر ہے کہ یہ سب مذاق تھا۔ اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔“

” میرا شرم سے یہ حال تھا کہ میں چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں دھنس جاؤں۔ اتنے نیک خاندان میں مجھ جیسے گھٹیا انسان کا کیا کام؟ میں فیدوسی کے قدموں میں گر گیا۔ اس کے پاؤں پکڑ کر میں نے صدق دل سے معافیاں مانگیں۔ انہوں نے مجھے معاف بھی کر دیا۔ کچھ آنسو بہے، کچھ چائے پی پلائی گئی، پیانو پر ماں بیٹی نے گانے سنائے، ہنسی مذاق ہوا اور میں خوشی خوشی گھر واپس آ گیا۔

”تو حضرات، کہانی بس اب اپنے انجام کو پہنچے کے قریب ہے۔ ایک دن گزرا، دو دن، ایک ہفتہ۔ اب میں باضابطہ طور پر ماریہ کا منگیتر بن چکا تھا۔ شادی کی تاریخ بھی مقرر ہو چکی تھی۔ لیکن وہ لوگ ابھی اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ فیدوسی کی خواہش تھی کہ ایک دفعہ انسپکٹر اپنا معائنہ کر کے چلا جائے اس کے بعد شادی کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔“

”اسی جوش و خروش میں فیدوسی نے دفتر کا سارا کام مجھ پر لاد دیا۔ میں نے اس تنقیدی رپورٹ کی تصحیح تو پہلے چند دن ہی میں کر لی تھی۔ میرے مشاہدے میں بے شمار بد انتظامیاں آئیں۔ ساتھ ہی فیدوسی کی مہربانیاں مجھ پر دن بدن بڑھتی جا رہی تھیں۔

”پھر ایک دن مجھے پیغام ملا کہ فوراً آؤ۔

میں گھبرایا ہوا فیدوسی کے گھر پہنچا۔ دیکھا کہ وہ دوہرے لحاف میں لپٹا ہوا ہے۔ ماتھے پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور سب افراد خانہ اور نوکر چاکر منہ لٹکائے، ماتمی چہروں کے ساتھ اس کے بستر کے ارد گرد جمع ہیں۔ فیدوسی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرے کانوں کے قریب منہ لا کر کہا،

”میرے بیٹے، میری زندگی کا پیالہ بھر چکا ہے۔ میں اپنے بنانے والے سے ملنے کے لئے تیار ہوں۔ بس مجھے فکر یہ ہے کہ میں تمہیں کس پر چھوڑ کر جاؤں گا؟ میری لاڈلی ماریہ کا کیا بنے گا؟“

”پھر اس نے ہاتھ کے اشارے سے باقی سب کو کمرے سے باہر نکل جانے کے لئے کہا۔ جب میں اور وہ تنہا ہوئے تو اس نے بڑے انکساری اور التجایانہ انداز میں مجھ سے کہا،

” میرے بیٹے، میں سخت مشکل میں ہوں مجھے تمہاری مدد درکار ہے۔ انسپکٹر چند دن میں آنے والا ہے۔ میں نے خزانے سے سات ہزار روبل یہ سوچ کر لئے تھے کہ کچھ عرصے میں تھوڑے تھوڑے کر کے لوٹا دوں گا۔ لیکن چند دن میں اتنی بڑی رقم کہاں سے لاؤں۔ میں اپنی بیٹی سے پیسے نہیں لے سکتا۔ یہ اس کے جہیز کے لئے ہیں۔ ان کو تو ہاتھ لگانا میرے لئے حرام ہے۔ اپنی ذاتی جمع پونجی میں نے ضرورت مند دوستوں اور رشتہ داروں کو قرض دے رکھی ہے۔ وہ بھی چند دن میں بازیافت نہیں ہو سکتی۔ میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ اب تو بس موت ہی مجھے نجات دلا سکتی ہے۔“

”یہ کہتے ہی اس کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ مجھ سے یہ نہ دیکھا گیا۔ گھگی بھری آواز میں میں نے کہا، میرے آقا، یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ جو رقم آپ نے مجھے دی تھی وہ واپس لے لیں اور اپنا دل اداس نہ کریں۔“

” اس کا ڈھلکا ہوا سر فوراً صحیح زاویے پر واپس آ گیا۔“
”مجھے تم سے یہی امید تھی بیٹا۔ تم نے مجھے مایوس نہیں کیا۔“

” میں بھاگا بھاگا گھر آیا۔ پیسے لئے اور الٹے قدم فیدوسی کی طرف لوٹا۔ ساری رقم اس کے حوالے کی اور اسے یہ بھی بتا دیا کہ میں نے اس میں سے صرف پچاس روبل خرچ کیے ہیں، دادی کی دوائیوں اور اس کے لئے ایک گرم کوٹ خریدنے پر ۔“

” کوئی بات نہیں بیٹے، بس ایک نوٹ دفتر کے نام لکھ دو کہ یہ پچاس رو بل تم نے ذاتی خرچ کے لئے خزانے سے لئے تھے اور اگلے مہینے یہ رقم تم واپس کر دو گے۔“

” میں نے فوراً نوٹ لکھا۔ فیدوسی نے ایک بار پھر مجھے گلے لگایا اور ہزاروں نیک تمناؤں کے ساتھ مجھے رخصت کر دیا۔ میں مطمئن ہو گیا تھا۔ اب میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔“

”دو دن کے بعد میرے گھر کے پتے پر ایک خط آیا۔ یہ ایک سرکاری لفافہ تھا جس پر محکمے کی مہر اور لال لاکھ کی سیل لگی ہوئی تھی۔ میں اپنے ہی محکمے سے خط کی موصولی پر کچھ حیران ہوا۔ خط کھولا تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ خط میں لکھا تھا کہ مجھے فوری طور پر معزول کیا جا رہا ہے۔ محکمے کی طرف سے مجھے حکم دیا گیا کہ اپنے دفتر کا چارج فوراً مینیجر کے حوالے کر دوں۔ “

”میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ذرا ہوش آیا تو فوراً فیدوسی کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ فیدوسی نے میرے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے اسے خط پکڑا دیا۔“

” اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے فیدوسی سے پوچھا۔“
” مطلب یہ کہ تم اب سرکاری افسر نہیں رہے۔“
” یہ کیسے ممکن ہے؟“
”تمہیں یاد ہے کہ یکم اپریل کو تم نے استعفی دیا تھا۔“

” اب مجھے یاد آیا کہ میں نے اپریل فول بنانے کے مذاق میں استعفی کا وہ خط فیدوسی سے واپس نہیں لیا تھا۔“

”لیکن وہ تو صرف مذاق تھا۔ آپ کو خوش کرنے کے لئے۔“
” میں بوکھلاہٹ میں تیز تیز بول رہا تھا۔“

” سرکاری محکمے اس طرح کے مراسلوں کو مذاق نہیں سمجھتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم جیسے نوجوان، ہونہار نے اتنی چھوٹی سی عمر میں سرکاری ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھ سے مشورہ تو کر لیا ہوتا۔ میں تمہیں ہر گز ایسا قدم نہ اٹھانے دیتا۔ لیکن تمہارے خط سے لگتا ہے تم نے حتمی طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ خیر اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور ہاں وہ پچاس روبل خزانے میں جمع کرانے نہ بھولنا۔ آڈٹ جلد ہی ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے پہلے ہی جمع کرا دینا۔ اچھا اب خدا حافظ میں بہت مصروف ہوں۔ انسپکٹر سے فوری طور پر ملنا ہے۔ “

” یہ کہہ کر فیدوسی نے کو چبان کو حکم دیا کہ دفتر جانے کے لئے گاڑی تیا ر کرے۔ “
”میں پاگلوں کی طرح بھاگتا ہوا گھر واپس پہنچا۔“

” دادی ہم لٹ گئے۔ برباد ہو گئے۔ ہمارا کچھ نہ رہا۔ میں دادی سے لپٹ کر رو رہا تھا۔ اتنے میں فیدوسی کا چپڑاسی گھر کے دروازے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پنجرہ تھا۔ پنجرے میں ایک چڑیا۔ چڑیا کی چونچ میں ایک چھوٹا سا رقعہ۔ رقعے پر لکھا تھا۔ ’اپریل فول‘ ۔“

”پھر کیا ہوا؟“
ایک مہمان نے پوچھا۔

”پھر۔ میں بس ایک مرتبہ فیدوسی سے اتفاق سے ملا۔ میں اسے اس کے منہ پر بتانا چاہتا تھا کہ وہ ایک خبیث، بدمعاش اور بے ایمان شخص ہے۔“

” تو پھر تم نے اسے بتایا کہ وہ خبیث، بدمعاش اور بے ایمان شخص ہے؟“
کئی سامعین نے ایک دم سوال کیا۔
”نہیں۔ میں اپنی خاندانی شرافت سے مجبور تھا ایسی گھٹیا حرکت ہم جیسے شریفوں کو ذیب نہیں دیتی۔“
اختتام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments